Anwar-ul-Bayan - Aal-i-Imraan : 69
وَدَّتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یُضِلُّوْنَكُمْ١ؕ وَ مَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَدَّتْ : چاہتی ہے طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَوْ : کاش يُضِلُّوْنَكُمْ : وہ گمراہ کردیں تمہیں وَمَا : اور نہیں يُضِلُّوْنَ : وہ گمراہ کرتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں سمجھتے
اہل کتاب کی ایک جماعت نے اس بات کی خواہش کی کہ کسی طرح تمہیں گمراہ کردیں۔ اور وہ گمراہ نہیں کرتے مگر اپنے ہی نفسوں کو اور وہ نہیں سمجھتے
اہل کتاب کی خواہش کہ مسلمانوں کو گمراہ کریں ان آیات میں اول تو مسلمانوں کو یہ بتایا کہ اہل کتاب کا ایک گروہ ایسا ہے جو تمہیں گمراہ کرنے کے درپے ہے ان کی خواہش ہے کہ جس طرح ہو سکے تمہیں گمراہ کرلیں۔ کافروں کو یہ گوارا نہیں کہ تم اپنے دین پر رہو اور وہ اپنے دین پر رہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ تم بھی کافر ہوجاؤ۔ سورة بقرہ کے رکوع 13 میں گذر چکا ہے کہ اہل کتاب تمہیں مرتد بنانے کی آرزو رکھتے ہیں۔ (وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْحَقُّ ) اور سورة نساء میں فرمایا (وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآءً ) (یعنی ان کی خواہش ہے کہ تم کافر ہوجاؤ جیسا کہ انہوں نے کفر اختیار کیا اور ان کی خواہش ہے کہ تم اور وہ برابر ہوجائیں) اور سورة ممتحنہ میں فرمایا (وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ ) (اور ان کی خواہش ہے کہ کاش تم کافر ہوجاتے) زمانہ نبوت میں جو یہود و نصاریٰ اور مشرکین تھے ان کی یہ خواہش ہمیشہ رہی کہ مسلمان اپنا دین چھوڑ کر کفر اختیار کریں اور اس کے لیے تدبیریں کرتے رہے۔ ان کا ایسی تدبیریں کرنا خود ان ہی کی مزید گمراہی میں مبتلا ہونے اور کفر میں شدید ہونے کا ذریعہ بنتا رہا۔ اور ان کی اس کوشش کا و بال نہیں پڑا، آج بھی کافروں کی اس طرح کی کوششیں جاری ہیں۔ ان کے دلوں پر ایسے سیاہ پردے پڑے ہوئے ہیں کہ انہیں یہ احساس ہی نہیں کہ ہم گمراہی میں ترقی کر رہے ہیں۔
Top