Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 69
وَدَّتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یُضِلُّوْنَكُمْ١ؕ وَ مَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَدَّتْ : چاہتی ہے طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَوْ : کاش يُضِلُّوْنَكُمْ : وہ گمراہ کردیں تمہیں وَمَا : اور نہیں يُضِلُّوْنَ : وہ گمراہ کرتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں سمجھتے
اہل کتاب کی ایک جماعت نے اس بات کی خواہش کی کہ کسی طرح تمہیں گمراہ کردیں۔ اور وہ گمراہ نہیں کرتے مگر اپنے نفسوں کو اور وہ نہیں سمجھتے۔
(1) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے سفیان ؓ سے روایت کیا ہے کہ سورة آل عمران میں اہل کتاب کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا گیا وہ نصاری کے بارے میں ہے۔ (2) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” یاھل الکتب لم تکفرون بایت اللہ وانتم تشھدون “ سے کہ تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے نبی ﷺ کی صفت تمہاری کتابوں میں ہے پھر تم اس کے ساتھ کفر کرتے ہو اور اس کا انکار کردیتے ہو اور اس کو ناپسند کرتے ہو اور اس پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ تم اس کو اپنے پاس لکھا ہوا پاتے ہو اپنے پاس تورات میں انجیل میں (اور وہ یہی) نبی امی ہیں۔ (3) ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” یاھل الکتب لم تکفرون بایت اللہ “ سے مراد محمد ﷺ ہیں ” وانتم تشھدون “ سے مراد ہے کہ تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ وہ حق ہے جس کو تم اپنے پاس لکھا ہوا پاتے ہو۔ (4) ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” لم تکفرون بایت اللہ “ سے مراد دلائل ہیں ” وانتم تشھدون “ سے مراد ہے کہ (تم اس بات کی گواہی دیتے ہو) کہ قرآن حق ہے اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں جن کے بارے میں تو رات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہو۔ (5) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” لم تکفرون بایت اللہ وانتم تشھدون “ سے مراد ہے کہ تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ بلاشبہ پسندیدہ دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا کوئی دین نہیں۔ (6) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” لم تلبسون الحق بالباطل “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ کیوں مخلوط کرتے ہو یہودیت اور نصرانیت کو اسلام کے ساتھ اور تحقیق تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا دین سوائے اسلام کے کسی ایک سے قبول نہیں کیا جائے گا لفظ آیت ” وتکتمون الحق “ سے مراد ہے کہ تم محمد ﷺ کے حال کو چھپاتے ہو حالانکہ تم اپنے پاس اس کو تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہو۔ (7) ابن اسحق، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ عبد اللہ بن ضیف عدی بن زید اور حرث بن عوف نے ایک دوسرے سے کہا آجاؤ ہم اس پر ایمان لے آئیں جو محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب پر اتارا گیا صبح کو اور ہم شام کے وقت کافر ہوجائیں گے یہاں تک کہ ان پر ان کا دین مشتبہ ہوجائے گا شاید کہ وہ بھی ایسا کرنے لگ جائیں جیسا کہ ہم نے کیا اور وہ اپنے دین میں لوٹ آئیں گے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دیں ” یاھل لکتب لم تلبسون الحق بالباطل “ سے لے کر ” واللہ واسع علیم “ تک۔ یہودیوں کی شرارت (8) سعید بن منصور، ابن جریر اور ابن المنذر نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہود کے بعض لوگوں نے بعض سے کہا ان کے ساتھ ایمان لے آؤ جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں دن کے اول حصہ میں اور دن کے آخر میں پھر جاؤ شاید کہ وہ بھی پھر آئیں تمہارے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس خفیہ پروگرام کی اطلاع فرما دی اور نازل فرمایا لفظ آیت ” وقالت طائفۃ من اھل الکتب امنوا بالذی انزل “ (9) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وقالت طائفۃ من اھل الکتب “ سے مراد ہے کہ عربی بستیوں کے بارہ بڑے بڑے علماء تھے انہوں نے اپنے بعض لوگوں سے کہا محمد ﷺ کے دین میں داخل ہوجاؤ اول دن میں اور یوں کہو ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد ﷺ سچے ہیں جب دن کا آخری حصہ ہو تو کافر ہوجاؤ اور یوں کہو ہم اپنے علماء کی طرف واپس لوٹ آئے اور ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ محمد ﷺ جھوٹے ہیں اس لیے تم سچی بات پر نہیں ہو لہٰذا ہم اپنے دین کی طرف لوٹ گئے ہیں اور وہ تمہارے دین سے ہمیں زیادہ پسندیدہ ہے شاید کہ ایمان والوں کو شک پڑجائے اور کہیں کہ یہ لوگ دن کے پہلے حصہ ہمارے ساتھ تھے اب ان کو کیا ہوا ! تو اس بات کی خبر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دے دی۔ (10) ابن جریر ابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے لفظ آیت ” وقالت طائفۃ “ سے یہود کی ایک جماعت مراد ہے انہوں نے کہا کہ جب تم اول دن میں محمد ﷺ کے اصحاب سے ملو تو ایمان لے آؤ اور جب دن کا آخری حصہ ہو تو اپنی نماز پڑھو شاید کہ یہ لوگ کہیں کہ یہ لوگ اہل کتاب ہیں اور وہ ہم سے زیادہ جاننے والے تھے (اس طرح سے) شاید یہ لوگ اپنے دین سے پھر آئیں۔ (11) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن مردویہ اور ضیاء نے مختارہ میں ابی ظبیان کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وقالت طائفۃ “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دن کے اول حصہ میں آپ کے ساتھ ہوتے تھے آپ کے ساتھ بیٹھتے تھے اور آپ سے باتیں کرتے تھے جب شام ہوتی تھی اور نماز کا وقت ہوتا تھا تو کافر ہوجاتے تھے اور آپ کو چھوڑ دیتے تھے۔ (12) عبد بن حمید، ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” امنوا بالذی انزل علی الذین امنوا وجہ النھار “ سے مراد یہود ہیں کہ محمد ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھتے اور دن کے آخر میں کافر ہوجاتے وہ یہ خفیہ تدبیر کرتے تاکہ لوگوں کو یہ دکھائیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی تھی اب ان پر گواہی ظاہر ہوچکی تھی اس لیے انہوں نے دین اسلام سے رجوع کرلیا۔ (13) ابن جریر نے قتادہ اور ربیع (رح) سے دونوں حضرات سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وجہ النھار “ سے دن کا اول حصہ مراد ہے۔ (14) ابن جریروابن المنذر نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” ولا تؤمنوا الا لمن تبع دینکم “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ قول ان کے بعض کا ہے بعض کے لیے (یعنی انہوں نے یہ بات ایک دوسرے سے کہی) ۔ (15) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولا تؤمنوا الا لمن تبع دینکم “ سے مراد ہے کہ تم ایمان نہ لاؤ مگر انہی لوگوں پر جو یہودیت کی تابعداری کریں۔ (16) عبد بن حمید، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے ابو مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں کے علماء نے ان لوگوں سے کہا جو ان کے دین والے تھے کہ تم محمد ﷺ اور ان کے اصحاب ؓ کے پاس دن کے اول حصہ میں جاؤ اور ان سے کہو کہ ہم تمہارے دین پر ہیں جب شام ہوجائے تو ان کے پاس جاؤ اور کہو ہم تمہارے دین کا انکار کرتے ہیں اور ہم اپنے پہلے دین پر ہیں کیونکہ ہم نے اپنے علماء سے پوچھا تو انہوں نے ہم کو بتایا کہ تم کسی صحیح دین پر نہیں ہو اور ان کے علماء نے کہا (یہ دیکھ کر) شاید مسلمان تمہارے دین کی طرف لوٹ آئیں اور محمد ﷺ کا انکار کرنے لگیں اور کہنے لگے ” ولا تؤمنوا الا لمن تبع دینکم “ (یعنی دل سے نہ ماننا مگر انہی لوگوں کو جو تمہارے دین چلیں) تو اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” قل ان الھدی ھدی اللہ “۔ (17) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان یؤفی احد مثل ما اوتیتم “ سے مراد ہے کہ یہودی حسد کرتے تھے کہ نبوت ان کے علاوہ کسی اور میں واقع ہو اور انہوں نے ارادہ کیا کہ لوگ ان کے دین ہی کی اتباع کریں۔ (18) عبد بن حمید، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے ابو مالک اور سعید بن جبیر ؓ دونوں حضرات سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان یؤتی احد مثل ما اوتیتم “ سے محمد ﷺ کی امت مراد ہے۔ (19) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ سے فرمایا لفظ آیت ” قل ان الھدی ھدی اللہ “ (آپ فرما دیجئے کہ بلاشبہ ہدایت تو اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے) ۔ (20) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو فرمایا لفظ آیت ” قل ان الھدی ھدی اللہ ان یؤتی احد مثل ما اوتیتم “ یعنی اے امت محمد ﷺ ” او یحاجوکم عند ربکم “ یہودیوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس طرح اور اس طرح عزت عطا فرمائی یہاں تک کہ ہم پر ترنجین اور بٹیر نازل فرمائے مگر اے مسلمانو ! اس ذات نے تم کو بھی افضل عطا فرمایا پس تم کہو لفظ آیت ” قل ان الفضل بید اللہ یؤتیہ من یشاء “ یعنی بلاشبہ فضل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے دیتا ہے اس کو جس کو چاہتا ہے۔ (21) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” قل ان الھدی ھدی اللہ ان یؤتی احد مثل ما اوتیتم “ سے مراد ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے کتاب کو نازل فرمایا مثل تمہاری کتاب کے اور نبی بھیجا مثل تمہارے نبی کے تو تم نے (اے یہودیوں) اس پر حسد کیا (تو آپ فرمادیجئے) لفظ آیت ” قل ان الفضل بید اللہ یؤتیہ من یشاء “ (کہ بلاشہ فضل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے دیتا ہے اس کو جس کو چاہتا ہے) ۔ (22) ابن جریر نے ربیع (رح) سے اس کے مثل روایت کیا ہے۔ (23) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” قل ان الھدی ھدی اللہ ان یؤتی احد مثل ما اوتیتم “ سے مراد ہے کہ یہ حکم جس پر تم ہو مثل اس کے ہے جو تم دئیے گئے تھے لفظ آیت ” او یحاجوکم عند ربکم “ فرمایا کہ بعض نے بعض سے کہا ان کو خبر نہ دو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ” لیحاجوکم “ یعنی تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اپنے رب کے پاس تو ان کے لیے ایک حجت ہوجائے گی تمہارے اوپرلفظ آیت ” قل ان الفضل بید اللہ “ یعنی اسلام ” یختص برحمتہ من یشاء “ یعنی قرآن اور اسلام مراد ہے۔ (24) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن المنذر ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” یختص برحمتہ من یشاء “ میں رحمت سے مراد ہے نبوت خاص کردیتے ہیں جس کے حق میں چاہتے ہیں۔ (25) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” یختص برحمتہ من یشاء “ میں اس کی رحمت سے مراد اسلام ہے خاص کرتا ہے اس کے ساتھ جس کو چاہتا ہے۔ (26) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ذو الفضل العظیم “ سے مراد ہے کہ اس کا فضل وافر مقدار میں ہے۔
Top