Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 69
وَدَّتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یُضِلُّوْنَكُمْ١ؕ وَ مَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَدَّتْ : چاہتی ہے طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَوْ : کاش يُضِلُّوْنَكُمْ : وہ گمراہ کردیں تمہیں وَمَا : اور نہیں يُضِلُّوْنَ : وہ گمراہ کرتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں سمجھتے
(اے اہل اسلام) بعضے اہل کتاب اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو گمراہ کردیں مگر یہ (تم کو کیا گمراہ کریں گے) اپنے آپ کو ہی گمراہ کر رہے ہیں اور نہیں جانتے
اللہ تعالیٰ مومنوں کو اہل کتاب کے اس خبیث گروہ کی مکاریوں سے متنبہ فرما رہا ہے کہ ان کی خواہش یہی ہے کہ تمہیں گمراہ کردیں۔ جیسے ارشاد ہے ترجمہ :” اہل کتاب کے اکثر لوگ تمہیں ایمان لانے کے بعد دوبارہ کافر بنا دینے کی خواہش رکھتے ہیں “ اور جسی کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے وہ اسے حاصل کرنے کے لئے جدوجہد بھی کرتا ہے۔ یہ گروہ بھی پوری کوشش کرتا ہے کہ مومنوں کو مرتد کردے۔ اس مقصد کے لئے وہ لوگ ہر ممکن طریقے سے شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ اللہ کا فضل ہے کہ بری تدبیریں کرنے والا اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا : ترجمہ ” دراصل وہ خود اپنے آپ کو گمراہ کررہے ہیں “ مومنوں کو گمراہ کرنے کی کوشش خود ان کی گمراہی اور عذاب میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ترجمہ :” جنہوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا، ہم ان کے عذاب میں عذاب کا اضافہ کردیں گے، کیونکہ وہ فساد کرتے تھے “ (وما یشعرون) ” اور سمجھتے نہیں “ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی کوشش خود انہی کو نقصان پہنچا رہی ہے، اور وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ رہے۔ ترجمہ : ” اے اہل کتاب ! تم باوجود قائل ہونے کے پھر بھی اللہ کی آیات سے کیوں کفر کررہے ہو ؟ “ یعنی تمہیں اللہ کی آیات کا انکار کرنے پر کون سی چیز مجبور کرتی ہے حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ جس مذہب پر تم کار بند ہو، وہ باطل ہے اور محمد ﷺ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ حق ہے، خود تمہیں بھی اس میں شک نہیں بلکہ تم اس کی گواہی دیتے ہو اور بعض اوقات ایک دوسرے کو خفیہ طور پر یہ بات بتا بھی دیتے ہو۔ اس طرح اللہ نے انہیں اس گمراہی سے روکا ہے۔ پھر دوسروں کو گمراہ کرنے پر انہیں زجرو تو بیخ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے : ترجمہ ” اے اہل کتاب ! باوجود جاننے کے حق و باطل کو کیوں خلط ملط کرتے ہو ؟ اور کیوں حق کو چھپا رہے ہو ؟ “ اللہ نے انہیں حق و باطل کو خلط ملط کرنے اور حق کو چھپانے پر تو بیخ کی ہے۔ کیونکہ ان دو طریقوں سے وہ اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ جب علماء حق و باطل میں امتیاز نہ کریں، بلکہ معاملہ مبہم رہنے دیں اور جس کو ظاہر کرنا ان کا فرض ہے، اسے چھپالیں، تو اس کا نتیجہ بہت برا نکلے گا کہ حق چھپ جائے گا اور باطل عام ہوجائے گا اور جو عوام حق کے متلاشی ہوں گے، انہیں ہدایت نہیں ملے گی، حالانکہ اہل علم سے تو یہ مطلوب ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق ظاہر کریں۔ اس کا اعلان کریں، حق کو باطل سے اور پاک کو ناپاک سے الگ کرکے واضح کردیں۔ حلال و حرام اور صحیح و غلط عقائد کو الگ الگ کردیں، تاکہ ہدایت یافتہ لوگ ہدایت پر قائم رہیں اور گمراہ حق کی طرف پلٹ آئیں اور عناد کی وجہ سے انکار کرنے والوں پر اتمام حجت ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ترجمہ : ” جب اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ لیا جنہیں کتاب دی گئی تھی کہ اسے لوگوں کے لئے بیان کریں گے اور چھپائیں گے نہیں، تو انہوں نے اس وعدے کو پس پشت ڈال دیا “۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس خبیث جماعت کے ارادوں اور مومنوں کے خلاف سازش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ترجمہ ” اور اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا : جو کچھ ایمان والوں پر اتارا گیا ہے اس پر دن چڑھے تو ایمان لاؤ اور شام کے وقت کافر بن جاؤ “ یعنی صبح کے وقت مکر اور دھوکا کرتے ہوئے ایمان کا اظہار کرو۔ اور جب شام ہو تو اسلام سے نکل جاؤ (لعلھم یرجعون) تاکہ یہ لوگ بھی (اپنے دین سے) پلٹ جائیں “۔ پس وہ سوچیں گے اگر یہ دین صحیح ہوتا تو اہل کتاب جو اہل علم ہیں وہ اس سے نہ نکلتے۔ انہوں نے یہ چاہا، اپنے آپ کو اچھا سمجھتے اور یہ گمان کرتے ہوئے کہ لوگ ان کے بارے میں حسن ظن رکھتے حوئے ان کے ہر قول و عمل میں ان کی پیروی کریں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنا نور پورا کرکے رہے گا خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو (و) ” اور “ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔ ترجمہ :” سوائے تمہارے دین پر چلنے والوں کے اور کسی کا یقین نہ کرو “۔ یعنی تم صرف اپنے ہم مذہب افراد پر اعتماد کرنا، دوسروں سے اس بات کو چھپا کر رکھنا۔ اگر تم نے دوسرے مذہب والوں کو بتادیا تو جو علم تمہیں حاصل ہے انہیں بھی حاصل ہوجائے گا تو وہ تمہارے جیسے ہوجائیں گے یا قیامت کے دن تم سے بحث کریں گے اور رب کے پاس تمہارے خلاف گواہی دیں گے کہ تم پر حجت قائم ہوچکی تھی اور تمہیں ہدایت معلوم ہوچکی تھی، لیکن تم نے اس کی اتباع نہیں کی۔ خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ سمجھا کہ اگر ہم مومنوں کو نہیں بتائیں گے تو انہیں اس سازش کا بالکل علم نہیں ہوسکے گا کیونکہ ان کے خیال میں علم صرف انہی کے پاس ہوسکتا ہے جس سے ان پر حجت قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : ترجمہ ” بیشک ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے “ لہٰذا ہر ہدایت یافتہ کو ہدایت اللہ ہی سے ملتی ہے۔ علم میں یا تو حق کو جاننا شامل ہے یا اسے اختیار کرنا۔ علم صرف وہی ہے جو اللہ کے رسول لائے ہیں اور توفیق صرف اللہ کی طرف سے ملتی ہے۔ اہل کتاب کو علم بہت کم ملا ہے اور توفیق سے وہ بالکل محروم ہیں کیونکہ ان کی نیتیں اور ارادے غلط ہیں۔ اس کے برعکس اس امت کو اللہ کی ہدایت کی وجہ سے علوم و معارف بھی حاصل ہوئے ہیں اور ان پر عمل کی توفیق بھی۔ اس وجہ سے وہ دوسروں سے افضل ہوگئے، لہٰذا وہی رہنما قرار پائے جو اللہ کے حکم کے مطابق ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ یہ امت پر اللہ کا عظیم فضل و احسان ہے۔ اس لئے اللہ نے فرمایا : ترجمہ کہہ دیجئے، فضل تو اللہ ہی کی ہاتھ میں ہے “۔ وہی اپنے بندوں پر ہر قسم کا احسان فرماتا ہے۔ (ترجمہ) وہ جسے چاہے اسے دے “ جو اس کے اسباب اختیار کرے گا، اللہ اس کو اپنا فضل دے گا، ترجمہ ” اور اللہ وسعت والاعلم والا ہے “ اس کا فضل و احسان بہت وسیع ہے۔ وہ جانتا ہے کون احسان کے قبال ہے، اسے وہ عطا فرماتا ہے اور کون اس کا مستحق نہیں، چناچہ اسے محروم رکھتا ہے۔ ترجمہ : ” وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہے مخصوص کرلے “ یعنی اس کی وہ مطلق رحا 8 ت جو دنیا میں ہوتی ہے اور آخرت سے متصل ہے۔ اس سے مراد دین کی نعمت اور اس کی تکمیل کرنے والی چیزیں ہیں۔ ترجمہ : اور اللہ بڑے فضل والا ہے “ اس کے فضل کی وسعت بیان نہیں کی جاسکتی، بلکہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال بھی نہیں آسکتا۔ اس کا فضل و احسان وہاں تک پہنچتا ہے جہاں تک اس کا علم پہنچتا ہے۔ اے ہمارے رب ! تیری رحمت اور تیرا علم ہر شے کو محیط ہے۔
Top