Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 69
وَدَّتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یُضِلُّوْنَكُمْ١ؕ وَ مَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَدَّتْ
: چاہتی ہے
طَّآئِفَةٌ
: ایک جماعت
مِّنْ
: سے (کی)
اَھْلِ الْكِتٰبِ
: اہل کتاب
لَوْ
: کاش
يُضِلُّوْنَكُمْ
: وہ گمراہ کردیں تمہیں
وَمَا
: اور نہیں
يُضِلُّوْنَ
: وہ گمراہ کرتے
اِلَّآ
: مگر
اَنْفُسَھُمْ
: اپنے آپ
وَمَا يَشْعُرُوْنَ
: اور وہ نہیں سمجھتے
(اے اہل اسلام) بعضے اہل کتاب اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو گمراہ کردیں مگر یہ (تم کو کیا گمراہ کریں گے) اپنے آپ کو ہی گمراہ کر رہے ہیں اور نہیں جانتے
قال تعالیٰ ودت طائفۃ من اھل الکتب لو یضلونکم۔۔۔ الی۔۔ ایا مرکم بالکفر بعد اذ انتم مسلمون۔ (ربط) گزشتہ آیات میں اہل کتاب سے مناظرہ اور مباہلہ کا بیان تھا کہ یہ لوگ نہ تو کسی دلیل کو مانتے ہیں اور نہ مباہلہ پر آمادہ ہوتے ہیں معلوم ہوا کہ حق کی تحقیق مقصود نہیں بلکہ مقصود شرارت اور فتنہ پردازی ہے اس لیے آئندہ آیات میں یہود کی کچھ شرارتوں اور عداوتوں اور دغا بازیوں اور فریب کاریوں کو بیان کرتے ہیں کہ کس کس طرح سے یہ لوگ حق اور باطل کو خلط ملط کرنے میں مکر اور فریب سے کام لیتے ہیں یہ لوگ خوب جانتے ہیں کہ تم حق پر اور سیدھے راستہ پر ہو مگر یہ لوگ تم کو دھوکہ دے کر گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ دور تک یہی سلسلہ کلام چلا گیا ہے چناچہ فرماتے ہیں۔ اہل کتاب کی ایک جماعت دل سے آرزو رکھتی ہے کہ کسی طرح تم کو گمراہ کردیں یعنی صحیح راستہ سے تم کو ہٹا دیں اور وہ کسی کو گمراہ نہیں کر رہے ہیں مگر اپنے آپ کو وہ اور وہ سمجھتے بھی نہیں کہ اس کا وبال ان ہی کے سر ہے۔ یعنی ان پر دگنا عذاب ہوگا ورنہ خود تو پہلے ہی سے گمراہ ہیں گمراہ کو گمراہ کرنا مراد نہیں بلکہ گمراہ کردینے کا وبال مراد ہے۔۔ یہود لیل ونہار مسلمانوں کو دین اسلام سے برگشتہ کرنے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔ اور اپنی چالوں سے مسلمانوں کے دلوں میں طرح طرح کے شکوک و شبہات ڈالنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے اور توریت کی ان آیات بینات کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے جو حضور پر نور کے نبی برحق ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور علی ہذا آن حضرت ﷺ کے معجزات کی طرف بھی نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتے جو آپ کی نبوت کے دلائل اور شواہد ہیں پس یہود کی یہ کوشش دوسروں کی تضلیل نہیں بلکہ درحقیقت خود اپنی ہی تضلیل ہے مگر ان کو اس کا شعور اور احساس بھی نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور اس کا کیا انجام ہے۔ اب آئندہ آیات میں ایمان داروں کو ہوشیار کرنے کے لیے اہل کتاب کے چند مکر ذکر کرتے ہیں۔ (اول) یہ کہ اہل کتاب حضور پرنور ﷺ کے معجزات کو سحر بتاتے ہیں اور آپ کی جو بشارتیں کتب سابقہ میں مذکور ہیں باوجود شبہات دینے کے ان کو چھپاتے ہیں اور طرح طرح سے ان کی تاویلیں کرتے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اے اہل کتاب کیوں کفر کرتے ہو اللہ کی آیتوں کا دیدہ و دانستہ اور حالانکہ تم اپنی زبان سے اس کے قائل اور گواہ ہو کہ یہ آیتیں حق ہیں۔ ف۔ آیات اللہ سے یا تو توریت وانجیل کی وہ آیتیں مراد ہیں جن میں نبی کریم (علیہ الصلوۃ والسلام) کی نبوت اور نعت اور صفت کا ذکر ہے یعنی نبی کریم ﷺ اور قرآن عظیم کے متعلق جو بشارتیں توریت وانجیل میں مذکور ہیں تم خود اپنی خلوتوں میں ان کا اقرار کرتے ہو پس ایمان لانے سے کیا چیز مانع ہے خوب سمجھ لو کہ آپ کی نبوت کا انکار کرنا توریت اور انجیل اور تمام کتب سماویہ کا انکار کرنا ہے یا آیات اللہ سے قرآن کی آیتیں مراد ہیں یعنی تم خود بھی جانتے ہو کہ یہ اللہ کی آیتیں ہیں اور پھر بھی ایمان نہیں لاتے یا آیات اللہ سے نشانیاں یعنی معجزات مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ معجزات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ آپ نبی برحق ہیں پھر کیوں آپ کی نبوت کا انکار کرتے ہو۔ یہ تو ملامت ہوئی خود ان کی ضلالت یعنی خود ان کی گمراہی پر اب آئندہ آیت میں اضلال یعنی دوسروں کے گمراہ کرنے پر ملامت فرماتے ہیں اے اہل کتاب کیوں حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کرتے ہو اور سچ کے ساتھ کیوں جھوٹ کو ملاتے ہو اور کیوں حق اور سچی بات کو چھپاتے ہو اور حالانکہ تم جانتے ہو کہ یہ حق ہے اور یہ باطل اور یہ بھی جانتے ہو کہ حق کو چھپانا اور حق کو باطل کے ساتھ ملانا کتنا بڑا جرم ہے۔ قانون حکومت میں ایک حرف کا تغیر وتبدل بھی جرم عظیم ہے۔ اہل کتاب توریت کے بعض احکام کو تو دنیوی اغراض کی خاطر بالکل موقوف ہی کر ڈالتے تھے اور بعض آیت میں لفظی تحریف کرتے اور بعض آیات کے معنی پھیر ڈالتے یعنی تاویل فاسد کرتے اور بعض چیزوں کو چھپا کر رکھتے ہر کسی کو خبر نہ دیتے جیسے پیغمبر آخر الزمان کی بشارتیں پس ” باطل “ سے یہ تمام تحریفات اور تاویلات فاسدہ مراد ہیں کہ ان کو حق کے ساتھ خلط ملط کردیتے تھے تاکہ حقیقت واضح نہ ہو غرض یہ کہ لفظی تحریف بھی کرتے تھے اور تاویل فاسدہ کے ذریعے سے معنوی تحریف بھی کرتے تھے اور کبھی حق بات کو چھپا کر رکھتے یہ تحریف کا نرالا طریق تھا کہ تحریف کا نام بھی نہ ہو اور تحریف کا مقصد حاصل ہوجائے جیسے لا تقربو الصلوۃ کو ذکر کردینا اور وانتم سکاری کو چھپا لینا یہ بھی تحریف ہی ہے۔ اب آئندہ آیت میں یہود کی مسلمانوں کو دین حق سے گمراہ کرنے کی ایک عجیب و غریب سازش اور مکر و فریب کو ظاہر کرتے ہیں۔ عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ عبداللہ بن صیف اور عدی بن زید اور حارث بن عوف نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہم میں سے چند لوگ صبح کے وقت چل کر محمد ﷺ پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر ظاہراً ایمان لے آئیں اور پھر شام کو اس کا انکار کردیں تاکہ لوگ شک اور تردد میں پڑجائیں کہ یہ لوگ علماٗ اہل کتاب ہیں انہوں نے دین اسلام میں ضرور کوئی عیب اور نقصان کی بات دیکھی ہوگی جو داخل ہونے کے بعد اس سے پھرگئے شاید دوسرے لوگ بھی ہم کو اس طرح دیکھ کر اسلام سے پھرجائیں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس مکر سے مطلع کردیا اور بتلا دیا کہ وہ اس قسم کے مکر اور فریب سے مسلمانوں کو گمراہ نہیں کرسکتے اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اہل کتاب کی ایک جماعت نے مشورہ کر کے یہ کہا کہ جو کتاب مسلمانوں پر نازل ہوئی ہے اس پر شروع دن میں ظاہراً ایمان لے آؤ اور پھر آخر دن میں اس سے منکر ہوجاؤ شاید مسلمان بھی شک میں پڑجائیں اور اپنے دین سے پھرجائیں کہ یہ لوگ علم والے ہیں اور بےتعصیب ہیں کہ اسلام میں داخل ہوگئے ان لوگون نے دین اسلام میں ضرور کوئی خرابی دیکھی ہوگی جو داخل ہونیکے بعد اس سے پھرگئے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ صرف مسلمان کے دکلانے کے لیے صرف ظاہری طور پر مسلمانوں کی کتاب پر ایمان لاؤ اور صدق دل سے کسی کے قول کی تصدیق نہ کرو یعنی سچا ایمان جس میں دل اور زبان موافق ہوتے ہیں وہ کسی کے لیے بھی نہ لاؤ مگر جو شخص تمہارے دین کا پیرو ہو۔۔ مطلب یہ ہے کہ جو یہود۔ مسلمانوں کے پاس جا کر شروع دن میں ظاہراً ان کی کتاب پر ایمان لائیں اور بطور نفاق اپنے کو مسلمان ظاہر کریں ان کو یہ بات برابر ملحوظ رہے کہ وہ اس ظاہری ایمان کی وجہ سے اپنے آپ کو مسلمان نہ سمجھیں بلکہ صدق دل سے اپنے کو یہودی ہی سمجھیں اور سچے دل سے اسی شخص کی بات کو قبول کریں جو ان کے دین کا پیرو ہو سوائے اپنے مذہب والوں کے کسی کی بات کا یقین نہ کریں اس صورت میں لمن تبع میں لام زائد ہوگا اور بعض نے ولا تو منوا الا لمن تبع دینکم کے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ تمہارا صبح کے وقت ظاہری طور پر ایمان لانا بھی محض ان لوگوں کے دین کی حفاظت کے لیے ہو۔ جو تمہارے ہم مذہب اور تمہارے دین کے پیرو ہیں اس صورت میں لمن تبع کا لام انتفاع کے لیے ہوگا یعنی اس تدبیر سے اپنے ہم مذہبوں کی حفاظت مقصود ہونی چاہیے کہ وہ آئندہ چل کر مسلمان نہ ہوجائیں یا جو ہمارے ہم مذہب مسلمان ہوچکے ہیں وہ اس تدبیر سے پھر واپس آجائیں اے محمد ﷺ آپ یہود کے ان علماء اور رؤسا سے کہہ دیجئے کہ تمہارا یہ مکر و فریب سب بیکار ہے تحقیق ہدایت وہ ہوتی ہے جو اللہ کی طرف سے ہدایت ہو جس کے دل میں اللہ ہدایت کا نور ڈال دے اس کو کسی کا مکر و فریب گمراہ نہیں کرسکتا۔ اور تمہارا یہ مکر و فریب ہدایت نہیں۔ ہدایت تو وہ ہے جو اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو عطا ہوئی اور اللہ جس کو چاہے تمہاری طرح کتاب اور دین دے کر ہدایت کرسکتا ہے کوئی وجہ انکار نہیں اور تم مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی یہ چالبازیاں اور مکاریاں اس لیے کر رہے ہو کہ تمہیں اس بات پر حسد ہے کہ کسی اور کو بھی تم جیسا دین اور کتاب اور حکمت دیا جائے جیسا پہلے تمہیں دیا گیا یہود کا یہ گمان تھا کہ نبوت و شریعت اور علم و حکمت بنی اسرائیل کے ساتھ مخصوص ہے۔ عرب کے امیین کو اس فضیلت اور نعمت سے کیا واسطہ، یا یہ مکر اور تدبیر تم نے اس حسد اور جلن میں کی ہے کہ دین کی مددگاری میں رب کے سامنے تم پر کوئی غالب نہ آجائے کیونکہ وہ ہدایت پر ہیں نہ کہ تم یعنی اس حسد نے تم کو اس مکر پر مجبور کیا تم کو حسد یہ ہے کہ دین کی مددگاری میں ہمارا مقابل کوئی اور کیوں ہو یا یہ معنی ہیں کہ یہ حسد اس بنا پر ہے کہ تم کو یہ اندیشہ ہے کہ مسلمان تم کو خدا کے روبرو ملزم نہ ٹھہرائیں کہ توریت اور انجیل میں حضور پر نور ﷺ کی نبوت و رسالت کی بشارتیں مذکور تھیں اور یہ لوگ اس کا اقرار بھی کرتے تھے مگر باوجود اس اقرار اور اعتراف کے آپ پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ آپ ان روسا یہود سے یہ کہہ دیجئے کہ تمہارا یہ حسد اور یہ تدبیر اس صورت میں کارگر ہوسکتی ہے کہ جب فضل اور انعام تمہارے ہاتھ میں ہو لیکن تحقیق فضل ونعمت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے تمہارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں وہ مالک الملک ہے جس کو چاہے عطا کرے اور تم اس کے انعام میں کسی قسم کی کمی اور تنگی بھی نہیں کرسکتے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بڑی گنجائش والا ہے یعنی اس کا فضل نہایت وسیع ہے اور خوب جاننے والا ہے کہ کون اس فضل وانعام کے لائق ہے وہ اپنی مہربانی اور بخشایش سے جس کو چاہتا ہے خاص کرتا ہے اور اس وقت اس نے اپنی رحمت سے مسلمانوں کو خاص فرمایا ہے اور خداوند ذوالجلال کی رحمت پر حسد کرنا فضول بلکہ حماقت ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے اس کے فضل کو کوئی روک نہیں سکتا۔ (حاشیہ ؛ اشارہ اس طرف ہے کہ ولا تو منوا کا عطف امنوا بالذی انزل پر ہے اور یہ جز آیت کلام یہود کا بقیہ ہے اور ان کے کلام سابق پر معطوف ہے وکذلک قال ابن عطیۃ لا خلاف بین اھل التاویل ان ھذا القول من کلام الطائفۃ۔ انتہی) (حاشیہ : اشارہ اس طرف ہے کہ او یحاجوکم کا عطف یوتی پر ہے اور ان کی وجہ سے منصوب ہے اور یحاجوکم کی ضمیر مرفوع احد کی طرف راجع ہے اور لفظ احد اگرچہ مفرد ہے مگر بلحاظ معنی جمع ہے اور ان یوتی الی آخرہ بتقدیر لام فعل محذوف کی علت ہے۔ ای لاجل ان یوتی احد مثل ما اوتیتم او یحاجوکم عند ربکم قلتم ذلک القول ودبرتم تلک المکیدۃ ای فعلتم ذلک حسدا وخوفا من ان تذھب ریاستکم وبشارککم احد فیما اوتیتم من فضل العلم او یحاجوکم عند ربکم ای یقیمون الحجۃ علیکم عند اللہ اذ کتابکم طافح بنبوۃ رسول اللہ ﷺ وملزم ان تو منو بہ وتتبعوہ کذا فی البحر المحیط۔ اہل کتاب میں سے اہل امانت کی مدح اور اہل خیانت کی مذمت گزشتہ آیت میں اہل کتاب کی تلبیس اور کتمان حق کا بیان تھا اب اس آیت میں ان کی خیانت فی المال کا ذکر ہے کہ ان لوگوں میں امانت داری اور خدا ترسی نہیں چند پیسوں کے لیے خیانت سے دریغ نہیں کرتے۔ دین اور آخرت کے معاملہ میں ان پر کیسے بھرسہ کیا جائے البتہ ان میں بعض بعض اب بھی امین ہیں کہ اے مخاطب اگر تو اس کے پاس کوئی خزانہ اور مال کا ڈھیر بھی امانت رکھ دے تو وہ تیری امانت تجھ کو واپس دے دیں گے اگرچہ تو ان سے اپنی امانت کا مطالبہ بھی نہ کرے پس جو شخص مخلوق کے معاملہ میں اس درجہ امین ہوگا تو وہ خالق کے معاملہ میں بدرجہ اولے امین ہوگا ایسا شخص توریت کے احکام میں اور نبی آخر الزمان کی بشارتوں میں ذرہ برابر خیانت نہ کرے گا اس لیے کہ وہ اللہ کی امانت ہیں۔ عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ کسی شخص نے عبداللہ بن سلام ؓ کے پاس ایک ہزار اور دو سو اوقیہ سونا امانت رکھا آپ نے بعینہ اس کی امانت ادا کردی۔ یہ آن ان کے بارے میں نازل ہوئی اور بعض ان میں سے ایسے ہیں کہ اس کے پاس اگر ایک اشرفی امانت رکھ دو تو وہ بھی تجھ کو ادا نہ کرے گا مگر جب تک رہے تو اس کے سر پر کھڑا۔ یعنی جب مجبور ہوجائے تب امانت ادا کرے یہ آیت فخاص بن عازوراء یہودی کے بارے میں نازل ہوئی جس کے پاس کسی شخص نے ایک اشرفی امانت رکھی تھی۔ اور اس نے اس میں بھی خیانت کی اور ان کی یہ خیانت اس وجہ سے ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ناخواندوں اور ان پڑھوں یعنی عربوں کے مال میں ہم پر کوئی راہ نہیں۔ یعنی ہم پر خدا کے یہاں عربوں کے مال میں کوئی مواخذہ اور مطالبہ نہیں۔ عربوں کے مال ہمارے لیے حلال ہیں۔ اہل کتاب کا یہ عقیدہ کرنے میں ہم پر مذہبا کوئی گناہ نہیں جیسے برہمنوں نے ہندوؤں کے بہکانے کے لیے بہت سی باتیں بنا رکھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس دعوے کی تکذیب میں فرماتے ہیں۔ اور یہ لوگ اللہ پر دیدہ دانستہ جھوٹ بولتے ہیں اللہ تعالیٰ نے کسی مخالف اور دشمن کے مال میں چوری اور خیانت کی کبھی اجازت نہیں دی ان لوگوں نے پرایا مال کھانے کے لیے یہ مسئلہ بنایا کہ غیر مذہب والوں کی امانت میں خیانت جائز ہے جان بوجھ کر جھوٹ بنا لیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے امانت میں خیانت کی کبھی اجازت نہیں دی اور شریعت اسلامیہ کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ مسلمان ہو یا کافر۔ ہندو ہو یا یہودی یا نصرانی کسی کی امانت میں خیانت جائز نہیں اور یہ خود بھی جانتے ہیں کہ توریت میں کوئی ایسا حکم نہیں اور آج کل یورپین اقوام کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ خصوصا اور ایشیائی اقوام کے ساتھ عموماً عہد ومیثاق کا پورا کرنا ضروری نہیں وقت کا جو تقاضا ہو اس پر چلتے ہیں کیوں نہیں ضرور خیانت پر مواخذہ ہوگا کیونکہ اس کے متعلق ہمارا قانون یہ ہے کہ جو شخص اپنے عہد کی وفا کرے خواہ وہ عہد خالق سے ہو یا مخلوق سے ہو اور پرہیزگاری کرے یعنی اللہ سے ڈرے کہ امانت میں کسی قسم کی خیانت نہ ہوجائے پس تحقیق اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ کا دوسرا قانون یہ ہے کہ تحقیق جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلہ میں دنیا کا تھوڑا سا مول یعنی حقیر معاوضہ خرید کرتے ہیں۔ یعنی معمولی نفع اور معمولی فائدہ کے لیے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں اور جھوٹی قسمیں کھا بیٹھتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے آخرت کی نعمتوں میں کوئی حصہ نہیں اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے نہ کوئی بات کرے گا اور نہ ان کی طرف نگاہ کرے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک وصاف کرے گا یعنی ان کے گناہوں کو نہیں بخشے گا اس لیے کہ خیانت حقوق العباد میں سے ہے اور ان میں لا محالہ قصاص یعنی بدلہ ہے اور ان کے لیے بڑا دردناک عذاب ہوگا آگ بھی ہوگی اور خطاب تہدید وتوبیخ بھی ہوگا اور نظر غضب بھی ہوگی اور کفر شرک کی نجاستوں اور گندگیوں سے پاک بھی نہ کیے جائیں گے اور یہ سب کچھ کیوں نہ تحقیق ان اہل کتاب میں سے ایک ایسا گروہ ہے جو کتاب کو زبان مروڑ کر پڑھتے ہیں اور اس میں کچھ اپنی طرف سے بھی ملا دیتے ہیں اور کتاب ہی کے لہجہ میں اس کو پڑھتے ہیں تاکہ تم اس ملائے ہوئے کو کتاب کا جزء سمجھو حالانکہ وہ کتاب کا جزء نہیں ہوتا بلکہ وہ ان کی طرف سے ہوتا ہے یہ لوگ چالاکی سے آسمانی کتاب میں کچھ چیزیں اپنی طرف سے گھٹا بڑھا کر ایسے انداز اور لہجہ میں پڑھتے ہیں کہ ناواقف آدمی سن کر دھوکہ میں آجاتا ہے اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ الفاظ اور عبارت بھی آسمانی کتاب کی ہے۔ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت یہود اور نصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی جو کتاب اللہ میں اپنی طرف سے زیادتی اور اضافہ کردیتے تھے۔ (تفسیر ابن جریر ص 231 ج 3) روی الضحاک عن ابن عباس ان الایۃ نزلت فی الیھود والنصاری جمیعا وذلک انھم حرفوا التوراۃ والانجیل والحقوا بکتاب اللہ ما لیس منہ ( کذا فی روح المعانی ص 181 ج 3) واخرجہ واخرجہ ابن جریر وابن ابی حاتم من طریق العوفی عن ابن عباس فی قولہ وان منھم لفریقا یلوون السنتھم بالکتاب قال ھم الیھود کانوا یزیدون فی کتاب اللہ مالم ینزل اللہ (درمنثور ص 46 ج 2 ( صحیح بخاری میں طرق متعدد سے مروی ہے کہ ابن عباس ؓ یہ فرماتے ہیں۔ یا معشر المسلمین کیف تسالون اھل الکتب عن شئی و کتاب اللہ الذی انزلہ علی نبیہ احدث اخبار اللہ تقرء و نہ غضا لم یشب وقد حدثکم اللہ تعالیٰ ان اھل الکتاب قد بدلوا کتاب اللہ وا غیروہ وکتبوا بایدیھم الکتاب وقالوا ھو من عنداللہ لیشتروا بہ ثمنا قلیلا افلا ینھاکم ما جاء کم من العلم عن مسئلتھم ولا واللہ ما راینا منھم احدا قط سالکم عن الذی انزل علیکم کذا فی تفسیر ابن کثیر تحت تفسیر قولہ تعالیٰ فویل للذین یکتبون الکتاب بایدیھم (الخ طبع بیروت ص 117 ج 1) اے گروہ مسلمین تم اہل کتاب سے کیسے پوچھتے ہو حالانکہ اللہ کی وہ کتاب جو اس نے اپنے نبی پر اتاری ہے وہ سب سے نئی اور آخری کتاب ہے جس کو تم تروتازہ پڑھتے ہو اور اس میں کسی دوسری چیز کا ذرہ برابر شائبہ بھی نہیں یعنی بعینہ اللہ کی کتاب پڑھتے ہو اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے تم کو بتلا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتاب میں یعنی توریت وغیرہ میں تغیر وتبدل کرلیا ہے اور بہت سی چیزیں اپنے ہاتھ سے لکھ کر اس میں شامل کردی ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس سے کچھ دنیا کا فائدہ حاصل کریں کیا جو صحیح اور تازہ علم تمہارے پاس آیا ہے وہ تم کو اہل کتاب سے سوال اور استفادہ سے منع نہیں کرتا یعنی صحیح علم کے ہوتے ہوئے محرف کتاب کی طرف کیوں نظر کرتے ہو علاوہ ازیں تمہارا اہل کتاب سے سوال کرنا غیرت کے بھی خلاف ہے، اس لیے کہ خدا کی قسم ہم نے تو اہل کتاب کو کبھی نہیں دیکھا کہ وہ تمہاری کتاب یعنی قرآن کے متعلق تم سے کچھ سوال کرتے ہوں پھر تم کیوں ان سے سوال کرتے ہو (رواہ البخاری) ۔ اور تفسیر کبیر ص 502 ج 2 و تفسیر نیسا بوری ص 228 ج 3 میں ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ یہ آیت ان یہود کے بارے میں نازل ہوئی جو کعب بن اشرف یہودی کے پاس توریت کا ایک نسخہ لے کر آئے جس میں نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی ان صفات اور علامات کو بدل دیا تھا جو توریت میں آئی تھی بنی قریظہ نے ان کی لکھی ہوئی کتاب کو لیا اور اپنی کتاب میں اس کو ملا لیا۔ اور قفال مروزی اس آیت کی تفسیر اس طرح فرماتے ہیں لیا بالسنتھم سے یہ مراد ہے کہ یہود بعض الفاظ کی حرکات اعرابیہ کو زبان موڑ کر اس طرح پڑھتے تھے کہ جس سے لفظ کے معنی کچھ کے کچھ ہوجاتے تھے جیسے راعنا کے معنی یہ ہیں کہ آپ ہماری رعایت فرمائیے لیکن یہود جب اس لفظ کو زبان موڑ کر پڑھتے تو یہ لفظ راعینا بن جاتا جس کے معنی ہمارے چرواہے کے ہیں جو سراسر تحقیر ہے یا یہ کہ بعینہ یہی لفظ عبرانی اور سریانی زبان میں گالی تھا۔ نقل عن ابن عباس انہ قال ان النضر الذین لا یکلمہم اللہ یوم القیامۃ ولا ینظر الیھم کتبوا کتبا شوشوا فیہ نعت محمد ﷺ وخلطوہ بالکتاب الذی کان فیہ نعمت محمد ﷺ ثم قالوا ھذا من عنداللہ تفسیر کبیر ص 502 ج 2) خلاصہ کلام۔ جمہور مفسرین کے نزدیک جن میں عبداللہ بن عباس اور مجاہد اور قتادہ وغیرھم بھی ہیں لیا بالسنتہم سے کتاب خداوندی میں لفظی تحریف کرنا اور اپنی طرف سے کسی چیز کا کتاب الٰہی میں ملا لینا مراد ہے اور قفال مروزی کے نزدیک لیا بالنستہم سے حرکات اعرابیہ کو اس طرح توڑ موڑ کر پڑھنا مراد ہے کہ جس سے معنی بدل جائیں اور مطلب کچھ کا کچھ بن جائے جاننا چاہیے کہ ان دونوں معنوں میں کوئی تضاد اور منافات نہیں اس لیے کہ لی کے معنی پھیرنے اور موڑنے کے ہیں یعنی زبان کلام الہی اور کتاب خداوندی کو اس طرح مروڑے کہ وہ کلام راستی سے ہٹ کر کجی کی طرف آجائے اور اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ کتاب کی اصل عبارت ہی کو مسخ کردیا جائے یعنی اس کے حروف اور الفاظ میں تغیر وتبدل کردیا جائے یا اس میں کوئی دوسری چیز ملا لی جائے جیسا کہ علماء یہود قریظہ کی نسبت ابن عباس ؓ سے منقول ہوا اور یہ صریح تحریف لفظی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ الفاظ کی حرکات اعرابیہ کو اس طرح موڑ توڑ کر پڑھا جائے کہ معنی بدل جائیں اور کلام اصل معنی اور اصل حقیقت سے دور جا پڑے یہ دوسرے درجہ کی تحرف ہے اور یہود میں دونوں طرح کی تحریف شائع تھی کبھی اصل لفظ ہی کو بدل ڈالتے اور کبھی تلفظ اور قرائت میں ایسا تغیر وتبدل کرتے کہ جس سے لفظ کے معنی بدل جائیں۔ اور حق جل شانہ کا یہ ارشاد لتحسبوہ من الکتاب اور پھر وما ھو من عنداللہ ویقولون ھو من عنداللہ وما ھو من عنداللہ۔ ویقولون علی اللہ الکذب وھم یعلمون۔ یہ تاکید در تاکید اس امر کی صریح دلیل ہے کہ مقصود یہ بتلانا ہے کہ یہود تحریف میں اس قدر جری اور دلیر ہیں کہ بےخوف وخطر اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور بےباکی کا یہ عالم ہے کہ تعریض اور کنایہ پر کفایت نہیں کرتے بلکہ صراحت کے ساتھ تحریفیں کرتے ہیں اور علانیہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور بہتان لگاتے ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں اور یہ تحریف کرنے والے ایہام اور تعریض پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ صراحت کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے ہے حالانکہ وہ بالکل اللہ کی طرف سے نہیں نہ صراحۃً نہ اشارۃً نہ کنایۃً نہ تاویلاً نہ استنباطاً نہ لفظاً نہ معنیً اور یہ لوگ بڑے ہی ڈھیٹ ہیں کہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں اور حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم اللہ پر جھوٹ بول رہے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ یہ ہمارا ملایا ہوا ہے اللہ کی طرف سے بالکل نہیں۔ مسئلہ تحریف : کتب سابقہ کی تحریف کے بارے میں جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ ان میں تحریف لفظی ہوئی اور بعض شاذونادر علماء اس طرف گئے ہیں کہ ان میں صرف تحریف معنوی ہوئی ہے کہ کتب سماویہ کے اصل حروف والفاظ بعینہ محفوظ ہیں۔ جیسا کہ حضرت وہب بن منبہ سے منقول ہے کہ توریت وانجیل اسی طرح محفوظ ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو اتارا تھا لیکن یہود تاویلات فاسدہ کے ذریعہ سے گمراہ کرتے ہیں ( روح المعانی ص 182 ج 3) علماء محققین سب اس طرف ہیں کہ توریت وانجیل میں تحریف لفظی بھی ہوئی ہے اور تحرف معنوی بھی اور اہل کتاب نے فقط تراجم میں نہیں بلکہ اصل کتاب میں تغیر اور تبدل کیا ہے کمی بھی کی ہے اور زیادتی بھی۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ وہب بن منبہ کا یہ قول اگر ان سے صحیح اور ثابت بھی ہجوجائے تو یہ محض ان کی رائے اور گمان ہے جو ناتمام استقراء اور ناقص تتبع سے ناشی ہوا ہے حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور یہ امر بدیہی ہے کہ کتب الہیہ میں بہت کچھ تغیر وتبدل ہوا ہے اور آج وہ اس طرح موجود نہیں جیسا کہ نزول کے وقت تھیں اور پھر علامہ آلوسی نے اس کے دلائل اور شواہد بیان کیے ہیں ( روح المعانی ص 182 ج 3) حافظ ابن کثیر وہب بن منبہ کے قول کو نقل کر کے فرماتے ہیں کہ معلوم نہیں کہ وہب بن منبہ کے اس قول سے کہ اللہ کی کتابیں محفوظ ہیں ان میں تغیر وتبدل نہیں ہوسکتا۔ کیا مراد ہے اگر ان کتابوں سے وہ کتابیں مراد ہیں جو فی الحال ان کے ہاتھ میں موجود ہیں تو ان میں تو بلاشبہ تحریف اور تبدل اور کمی اور زیادتی سب موجود ہے جس کا انکار ممکن نہیں اور اگر ان کتابوں کے تراجم مراد ہیں تو ان میں جو غلطیاں اور زیادتی اور کمی اور اوھام فاحشہ موجود ہیں تو وہ اس قدر کثیر ہیں کہ بیان سے باہر ہیں بلکہ اکثر بلکہ سب کا فہم ان تراجم کے بارے میں فاسد اور کا سد ہے اور اگر اس سے اللہ کی وہ کتابیں مراد ہیں جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں تو بیشک ان کو محفوظ کہا جاسکتا ہے مگر اب ان کا کہیں نام ونشان نہیں اور نہ ان میں کلام ہے انتہی کلام ابن کثیر محصلاً (ص 376 ج 1) قال وھب بن منبہ ان التوراۃ والانجیل کما انزلھما اللہ تعالیٰ لم یغیر منھا حرف ولکنھم یضلون بالتحریف والتاویل وکتب کانوا یکتبونھا من عند انفسہم ویقولون ھو من عنداللہ وما ھو من عنداللہ فاما کتب اللہ فانھا محفوظۃ ولا تحول رواہ ابن ابی حاتم۔ (روح المعانی ص 182 ج 3 و تفسیر ابن کثیر ص 386 ج 1) اصل عبارت یہ ہے کہ واما کتب اللہ فنھا محفوظۃ ولا تحول (ابن کثیر ص 376 ج 1) اخرج ابن جریر عن عثمان بن عفان عن رسول اللہ ﷺ فی قولہ فویل لھم مما کتبت ایدیھم قال الویل جبل فی النار وھو الذی انزل فی الیھود ولانھم حفروا التوراۃ زادوا فیھا مااحبوا ومحوا منھا ما یکرھون ومحوا اسم محمد ﷺ من التوراۃ (تفسیر در منثور ص 82 ج 1) حضرت عثمان غنی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فویل لھم مما کتبت ایدیھم کی تفسیر میں فرمایا کہ ویل جہنم میں ایک پہاڑ ہے اور یہ فرمایا کہ یہ آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی اس لیے کہ یہود نے توریت میں تحریف کی توریت میں جس چیز کا اضافہ پسند کیا اس کو توریت سے مٹا دیا اور محمد ﷺ کا نام بھی توریت سے مٹا دیا۔ اور ایک اور حدیث میں ہے۔ لا تصدقوا اھل الکتاب ولا تکذبوھم وقولوا امنا باللہ وما انزل الایۃ (بخاری) اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب اور یہ کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس چیز پر جو اللہ کی طرف سے پیغمبروں پر اتاری گئی۔ اس لیے کہ ان کی کتاب محرف ہے اور حق اور باطل مخلوق ہے یہ متعین نہیں کہ کونسا حصہ اللہ کا اتارا ہوا ہے اور کون سا حصہ ان محرفین کی طرف سے ملایا ہوا ہے لہذا اہل کتاب کی مطلقاً تصدیق مت کرو مبادا کہ اس سے ان کی تحریف اور ملاوٹ کی تصدیق ہوجائے اور نہ مطلقاً اس کی تکذیب کرو ممکن ہے کہ وہ بات اللہ کی طرف سے ہو تو اس تکذیب سے اللہ کی بات کی تکذیب لازم آئے گی اجمالی طور پر یہ کہو کہ ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ نے جو اپنے پیغمبروں پر اتارا اس پر ایمان رکھتے ہیں اگر وہ حق ہوگا تو ما انزل اللہ میں داخل ہوگا ورنہ نہیں باقی جو کتابیں اہل کتاب کے ہاتھ میں موجود ہیں ان میں چونکہ کمی اور زیادتی اور تغیر وتبدل سب کچھ ہوچکا ہے اور حق و باطل کا کوئی تمیز نہیں اس لیے ہم نہ ان کی تصدیق کرسکتے ہیں اور نہ تکذیب اس لیے تمام علماء محققین کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے کہ موجودہ توریت اور انجیل محرف ہے جس میں ہر قسم کی تحریف ہوئی ہے کمی بھی ہوئی ہے اور زیادتی بھی ہوئی اور خود علماء توریت وانجیل کو بھی اس کا اعتراف اوراقرا رہے۔ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ اس امر کا ذکر ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی صفت اور نعت توریت اور انجیل میں مذکور ہیں۔ کما قال تعالیٰ محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم ترھم رکعا سجدا یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود۔ ذلک مثلہم فی التوراۃ ومثلھم فی الانجیل۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ صحابہ کرام کی یہ صفات توریت اور انجیل میں مذکور ہیں مگر موجودہ توریت وانجیل میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ پس اگر توریت وانجیل کو تحریف لفظی سے محفوظ مانا جائے تو ان آیات قرآنیہ کی تکذیب لازم آتی ہے۔ اور قرآن کریم میں جابجا کتب سابقہ میں تحریف کی خبر دی گئی وہاں سب جگہ تحریف لفظی ہی مراد ہے کیونکہ تحریف معنوی تو قرآن کریم میں بھی ہوئی ہے بلکہ ملاحدہ اور زنادقہ قرآن کی تاویلات باطلہ میں یہود اور نصاری سے بھی سبقت لے گئے۔ سرسید علیگڑھی اور غلام احمد قادیانی کی تحریفات اور تاویلات کو دیکھ لیجئے یہود اور نصاری کے بھی کان کتر لیے ہیں۔ حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے۔ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔ الحمد للہ قرآن کریم جس طرح تحریف لفظی سے محفوظ ہے اسی طرح تحریف معنوی سے بھی محفوظ ہے اس لیے کہ احادیث نبویہ اوراقوال صحابہ وتابعین کے بعد قرآن کریم کی مراد اس درجہ واضح ہوگئی ہے کہ اب اس میں کسی ملحد زندیق کی تاویل کی گنجائش باقی نہیں رہی فللہ الحمد والمنۃ۔ اطلاع۔ جس شخص کو کتب سابقہ کی تحریف لفظی ومعنوی کی پوری تفصیل درکار ہو تو وہ ازالۃ الشکوک اور ازالۃ الاوہام اور اظہار الحق ہر سہ مصنفہ حضرت مولانا رحمۃ اللہ کیرانوی کی مراجعت کرے۔ ایک ضروری تنبیہ : عبداللہ بن عباس اور امام بخاری کی طرف یہ منسوب ہے کہ وہ تحریف معنوی کے قائل ہیں اس لیے کہ صحیح بخاری میں ہے۔ قال ابن عباس یحرفون ویزیلون ولیس احد یزیل لفظ کتاب من کتب اللہ ولکھم یحرفونہ ویتاولونہ علی غیر تاویلہم۔ ابن عباس ؓ یحرفون الکلم عن مواضعہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں یہود تحریف کرتے ہیں اور کتاب الٰہی کے الفاظ کو اپنی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور کسی مخلوق کی یہ مجال نہیں کہ اللہ کی کسی کتاب کے کسی لفظ کو زائل اور فنا کر دے لیکن کتاب الٰہی میں تحریف اور اس کی غلط تاویل کرتے ہیں۔ اس عبارت سے بعض لوگوں کو یہ گمان ہوگیا کہ عبداللہ بن عباس تحریف لفظی کے منکر ہیں اور اسی کو امام بخاری نے اختیار کیا ہے۔ یہ صحیح نہیں اس لیے کہ عبداللہ بن عباس ؓ سے بطرق کثیرہ یہ منقول ہے کہ اہل کتاب نے توریت میں جو نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی صفات مذکور تھیں ان میں بڑا تغیر اور تبدل اور ردو بدل کردیا تھا یہ روایتیں تفسیر در منثور ص 82 ج 1 وغیرہ میں مذکور ہیں۔ وہاں دیکھ لی جائیں۔ لہذا یہ کیس کہا جاسکتا ہے کہ عبداللہ بن عباس کتب سماویہ میں تحریف لفظی کے منکر ہیں خصوصا جب کہ صحیح بخاری میں متعدد جگہ ابن عباس سے یہ منقول ہے کہ اے گروہ مسلمین تم اہل کتاب سے کیوں دریافت کرتے ہو حالانکہ تمہاری کتاب (قرآن) ابھی خدا کی طرف سے تازہ بتازہ نازل ہوی ہے اور خالص ہے اور اس میں ذرہ برابر کوئی آمیزش نہیں ہوئی اور تحقیق اللہ نے تم کو خبر دے دی ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتاب کو بدل ڈالا ہے اور وہ اپنے ہاتھ سے لکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کتب سابقہ میں بہت سی چیزیں ملاوٹ کی ہیں اور قرآن کریم خالص دودھ ہے جس میں ذرہ برابر کسی قسم کی ملاوٹ نہیں۔ امام بخاری نے ابن عباس کے قول کو ایک دوسری غرض سے نقل کیا ہے وہ یہ کہ اللہ کا کلام قدیم اور غیر مخلوق ہے کسی مخلوق سے اس کا زائل کرنا اور فنا کرنا ممکن نہیں البتہ بندہ اس میں تاویل اور تحریف کرسکتا ہے اور بندہ کا یہ فعل تاویل اور عمل تحریف حادث اور مخلوق ہے اس لیے کہ بندہ کے تمام افعال مخلوق اور حادث ہیں۔ امام بخاری نے کتاب التوحید میں اسی غرض کے لیے متعدد تراجم اور ابواب رکھے ہیں سب سے مقصد یہی ہے کہ اللہ کا کلام قدیم اور غیر مخلوق ہے اور بند کا جو فعل کلام خداوندی سے متعلق ہو یعنی بندہ کا تلفظ اور اس کی قرائت اور اس کی تلاوت اور اس کی کتابت یہ سب مخلوق اور حادث ہیں۔ یعنی کلام ملفوظ اور مقرؤ اور کلام متلو قدیم اور غیر مخلوق ہے اور بندہ کا تلفظ اور قرائت اور کتابت سب حادث ہے اسی طرح بندہ کا یہ عمل یعنی تحریف اور تاویل فاسد بھی مخلوق اور حادث ہوگا۔ اہل کتاب کا حضرات انبیاء پر افتراء اور اس کی تردید گزشتہ آیت میں یہ ذکر تھا کہ اہل کتاب اللہ کی کتاب میں تحریف کرتے ہیں اور اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں اب اس آیت میں حضرات انبیاء پر ان کی افتراء پردازی کا بیان کرتے ہیں کہ اہل کتاب یہ کہتے ہیں۔ معاذا للہ۔ حضرات انبیاء نے ابنیت اور الوہیت کے عقیدہ کی تعلیم دی ہے چناچہ عیسائی الوہیت مسیح اور تثلیث کے مسئلہ میں جب دلیل اور برہان کے پیش کرنے سے عاجز ہوتے تو یہ کہنے لگتے ہیں کہ ہم کیا کریں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہم کو ایسا ہی حکم دے گئے ہیں خود حضرت مسیح نے اپنے کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا ہے اور اس قسم کے اور کلمات کا بھی ذکر کرتے ہیں جن سے اپنے زعم میں حضرت عیسیٰ اور روح القدس کا شریک الوہیت ہونا ثابت کرتے ہیں آئندہ آیت یعنی ماکان لبشر ان یوتیہ اللہ الکتاب الخ ان کی تردید اور جواب میں نازل ہوئی جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو کتاب اور حکمت دے کر بھیجتے ہیں وہ خدا پرستی ہی کی دعوت دیتا ہے یہ ناممکن ہے کہ وہ نبی لوگوں کو اپنی بندگی کی طرف بلائے اور توریت وانجیل میں صدہا مقامات پر خدا پرستی کی صریح تعلیم موجود ہے لہذا تمہارا یہ کہنا کہ حضرت مسیح نے اپنے آپ کو خدا اور خدا کا بیٹا کہا ہے صریح کذب اور افتراء ہے اور ان کی تصریحات کے صڑیح خلاف ہے بلکہ حضرت مسیح نے توحید کے بعد تم سے اس بات کا بھی عہد اور اقرار لیا تھا کہ جب تم نبی آخر الزمان کا زمانہ پاؤ تو ضرور بالضرور ان کی تصدیق کرنا اور ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت اور اعانت کرنا اور ان کا وہی دین ہوگا جو تمام انبیاء ومرسلین کا دین ہے یعنی دین اسلام چناچہ فرماتے ہیں کسی بشر کے لیے بشر ہوتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو کتاب اور شریعت اور نبوت عطا فرمائیں باوجود اس کے پھر وہ لوگوں سے کہے اللہ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ اس لیے کہ بشر کے سامنے اپنی بشریت کی عاجزی اور درماندگی ظاہر ہوگی اور عاجزی اور درماندگی کے ہوتے ہوئے ادنیٰ عقل والا بھی اپنی الوہیت کا گمان تک نہیں کرسکتا۔ اور پھر جس کو کتاب و حکمت اور نبوت عطا ہوگی وہ وہی شخص ہوگا جو لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کی دعوت دے بعثت کا مقصد ہی توحید و تفرید ہے جس کا امر بالشرک کے ساتھ جمع ہونا ناممکن اور محال ہے اور لیکن وہ نبی تو یہ کہتے گا کہ تم اللہ والے ہوجاؤ یعنی ایک خدا کی محبت اور اطاعت میں فنا ہوجاؤ اس لیے کہ تم دوسروں کو اللہ کی کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور اس وجہ سے بھی کہ تم خود بھی اس کتاب الٰہی کو پڑھتے رہتے ہو جو توحید و تفرید کی تعلیم سے بھری پڑی ہے اور نہ یہ ممکن ہے کہ وہ نبی تم کو ربانیت کے حکم کے بعد یہ حکم دے کہ تم فرشتوں کو اور پیغمبروں کو پروردگار ٹھہراؤ۔ فرشتے اور پیغمبر معاذ اللہ خدا اور پروردگار نہیں بلکہ پروردگار تک پہنچنے کا واسطہ اور راستہ ہیں اور انبیاء، کفر اور شرک کے مٹانے کے لیے مبعوث ہوے ہیں کیا وہ نبی تم کو کفر اور شرک کی طرف لوٹنے کا حکم دے گا بعد اس کے کہ تم اسی کی تعلیم وتلقین سے مسلمان اور موحد ہوچکے ہو۔ ابن اسحاق اور بیہقی نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جب وفد نجران رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ نے ان کو اسلام کی دعوت دی تو ابو رافع قرظی یہودی نے کہا کہ اے محمد ﷺ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی ایسی ہی پرستش کرنے لگیں جیسے نصاریٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پرستش کرتے ہیں آپ نے فرمایا معاذ اللہ اور اس پر ماکان لبشر سے مسلمون تک آیت نازل ہوئی۔ شاہ صاحب موضح القرآن میں فرماتے ہیں یہود مسلمانوں سے کہتے تھے کہ تمہارا نبی ہم کو کہتا ہے کہ بندگی کرو اللہ کی ہم تو آگے سے اسی کی بندگی کرتے ہیں مگر وہ یعنی تمہارا نبی چاہتا ہے کہ میری بندگی کرو سو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس کو اللہ نبی کرے اور وہ لوگوں کو کفر سے یعنی غیر اللہ کی عبادت سے نکال کر مسلمانی میں لاوے پھر ان کو کیونکر کفر سکھا دے مگر تم کو (اسے اہل کتاب) یہ کہتا ہے کہ تم میں جو آگے دینداری تھی کتاب کا پڑھنا اور سکھانا وہ اب تم میں باقی نہیں رہی اب میری صحبت میں وہی کمال حاصل کرو۔ انتہی۔ یعنی اب میری صحبت میں قرآن پڑھو اور پڑھاؤ اور سیکھو اور سکھاؤ اور عالم ربانی اور عارف یزدانی بنو۔ ف۔ عبادت اور بندگی تو اللہ ہی کی ہے مگر اطاعت اور پیروی نبی کی بھی ضروری اور لازم ہے شاید اس معترض نے عبادت اور اطاعت میں فرق نہ کیا اور اعتراض کردیا کہ معاذ اللہ حضور پرنور ﷺ لوگوں سے اپنی بندگی چاہتے ہیں یہ اعتراض بالکل لغو اور مہمل تھا عبادت اور اطاعت میں زمین و آسمان کا فرق ہے عبادت خالص اللہ کا حق ہے اور بےچون چرا اطاعت اور پیروی نبی کا حق ہے۔
Top