Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 69
وَدَّتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یُضِلُّوْنَكُمْ١ؕ وَ مَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَدَّتْ : چاہتی ہے طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَوْ : کاش يُضِلُّوْنَكُمْ : وہ گمراہ کردیں تمہیں وَمَا : اور نہیں يُضِلُّوْنَ : وہ گمراہ کرتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں سمجھتے
(اے اہل اسلام) بعضے اہل کتاب اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو گمراہ کردیں مگر یہ (تم کو کیا گمراہ کریں گے) اپنے آپ کو ہی گمراہ کر رہے ہیں اور نہیں جانتے
آیت نمبر : 69۔ یہ آیت حضرات معاذ بن جبل، حذیفہ بن یمان، اور عمار بن یاسر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بارے میں نازل ہوئی جس وقت بنی نضیر، قریظہ، اور بنی قینقاع کے یہودیوں نے انہیں اپنے دین کی طرف دعوت دی، اور یہ آیت اس قول باری تعالیٰ کی مثل ہے۔ (آیت) ” ود کثیر من اھل الکتب لویردونکم من بعد ایمانکم کفارا حسدا “۔ (البقرہ : 109) ترجمہ : دل سے چاہتے ہیں بہت سے اہل کتاب کہ کسی طرح پھر بنا دیں تمہیں ایمان لانے کے بعد کافر (انکی یہ آرزو) بوجہ اس حسد کے ہے۔ اس قول کی بنا پر من تبیعض کے لئے ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے، مراد جمیع اہل کتاب ہیں تو پھر من بیان جنس کے لئے ہوگا۔ اور (آیت) ” لویضلونکم “ کا معنی ہے وہ تمہیں دین اسلام سے رجوع اور اس کی مخالفت کے سبب معصیت اور گناہ میں مبتلا کردیں، اور ابن جریج نے کہا ہے : یضلونکم کا معنی ہے یھلکونکم، یعنی وہ تمہیں ہلاک کردیں۔ اور اسی میں اخطل کا قول ہے : کنت القذی فی موج اکدر مزید قذف الانی بہ فضل ضلالا۔ اس میں ضل ضلالا بمعنی ھلک ھلاکا ہے۔ (آیت) ” وما یضلون الا انفسھم “۔ اس میں نفی اور اثبات ہے (یعنی اوروں سے ضلال وگمراہی کی نفی ہے اور ان کی اپنی ذاتوں کے لئے اس کا اثبات ہے، یعنی وہ نہیں گمراہ کرتے مگر اپنے آپ کو) (آیت) ” وما یشعرون “۔ یعنی وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ وہ مومنین کو گمراہ کرنے کی استعداد نہیں رکھتے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ (آیت) ” وما یشعرون “ کا معنی ہے : وہ اسلام کی صحت کو نہیں جانتے حالانکہ ان پر واجب ہے کہ وہ اسے جانیں اور سمجھیں، کیونکہ اس کی براہین ظاہر اور دلائل واضح ہیں، واللہ اعلم ،
Top