Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 69
وَدَّتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَوْ یُضِلُّوْنَكُمْ١ؕ وَ مَا یُضِلُّوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَدَّتْ : چاہتی ہے طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَوْ : کاش يُضِلُّوْنَكُمْ : وہ گمراہ کردیں تمہیں وَمَا : اور نہیں يُضِلُّوْنَ : وہ گمراہ کرتے اِلَّآ : مگر اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ وَمَا يَشْعُرُوْنَ : اور وہ نہیں سمجھتے
اہل کتاب میں سے ایک گروہ پسند کرتا ہے کہ وہ تم کو گمراہ کریں اور وہ نہیں گمراہ کرتے مگر اپنی جانوں کو اور وہ نہیں سمجھتے۔
ربط آیات : گذشتہ درس میں تذکرہ ہوچکا ہے ، کہ یہود و نصاریٰ کا آپس میں جھگڑا یہ تھا کہ یہود کہتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نصرانی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں گروہوں کی تردید فرمائی۔ اور فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نصاری کہتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی تھے بلکہ وہ تو حنیف اور مسلمان تھے۔ یہودیت اور نصرانیت نام کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ بلکہ یہ تورات اور انجیل کی بگڑی ہوئی شکل کا نام ہے۔ اہل کتاب نے تورات او انجیل میں تحریف کرکے اصل دین کو بگار دیا۔ کفر اور شرک دونوں گروہوں میں قدر مشترک ہے۔ دوسری طرف مشرکین بھی اپنا تعلق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے جوڑنے کا دعوی کرتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے مختلف مقامات پر ان کے دعویٰ کے بھی تردید فرمائی ہے۔ نیز یہ بھی واضح فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ نسبت وہ لوگ رکھتے ہیں۔ جنہوں نے آپ کے دور میں آپ کا اتباع کیا۔ اور اس دور میں خاتم النبیین ﷺ کا اتباع کیا۔ اور جو حقیقی معنوں میں اسلام میں داخل ہوئے۔ اہل کتاب کا منصوبہ : اب اہل کتاب کے پیشواؤں کی گمراہی کا ذکر ہورہا ہے۔ یہ لوگ بھٹک کر ایسے دور نکل گئے ہیں اور ان کے دل ضلالت میں اس قدر سخت ہوچکے ہیں کہ اب یہ کفر کے امام بنے ہوئے ہیں۔ یعنی جو شخص ایمان قبول کرکے صحیح راستے پر چلتا ہے۔ یہ لوگ اسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ ودت طائفۃ من اھل الکتب۔ اہل کتاب کا ایک گروہ آرزو کرتا ہے۔ لو یضلونکم۔ کہ وہ کسی نہ کسی طرح تم کو گمراہ کریں گذشتہ چودہ سو سال کے عرصہ میں اہل کتاب یہی کچھ کرتے آئے ہیں کہ کسی طرح مسلمانوں کو ان کے دین سے متنفر کردیں۔ دوسرے مقام پر فرمایا کہ یہ لوگ خواہش کرتے ہیں۔ کہ تم گمراہ ہو کر ان کے ساتھ برابر ہوجاؤ۔ فتکونون سواٗ ۔ کے الفاظ آئے ہیں۔ مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ عیسائیوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو ان کے مرکزی نقطہ سے ہٹا دیا جائے۔ تاکہ وہ بھی گمراہ ہو کر ان ہی کے ساتھ آ ملیں۔ اگرچہ ان کو جزوی کامیابی ہوئی ہے۔ مگر مجموعی طور پر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں وعدہ کر رکھا ہے۔ کہ سچا دین ہمیشہ قائم رہے گا۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب مسلمان قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل پیرا رہیں۔ حضرت عثمان ؓ کے زمانے تک مسلمان اپنے دین پر بالکل متفق رہے اور ایک نقطے پر قائم رہے۔ آپ کے زمانے میں یہودی سازشیں کرنے لگے۔ عبداللہ ابن سبا یمنی یہودی تھا ، جو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا۔ مگر مسلمانوں میں فرقہ بندی کی وباء پیدا کردی۔ شیعہ اسی کو مانتے ہیں۔ نصاری بھی مسلمانوں کے ساتھ برابر ٹکر لے رہے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا وروم ذوات القرون ، یعنی عیسائی قرن ہا قرن تک قائم رہیں گے حتی کہ مسیح ابن مریم نازل ہوجائیں۔ کبھی عیسائیوں کو غلبہ ہوگا۔ اور کبھی مسلمانوں کو۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان صلیبی جنگیں صدیوں جاری رہیں۔ گذشتہ دو سو سال میں بھی عیسائیت کا بڑا عروف رہا ہے۔ اس عرصہ میں برطانیہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت تسلیم کی جاتی تھی اور برطانیہ کو برطانیہ عظمی کہا جاتا تھا۔ یہ سب عیسائی ہی تو تھے۔ آج اگرچہ امریکہ بڑی طاقت ہے۔ مگر یہ تو کل کا بچہ ہے۔ یہ بھی برطانیہ سے بھاگے ہوئے انگریز ہیں جنہوں نے نیا بر اعظم دریافت کیا۔ اور پھر وہیں آباد ہوگئے۔ تاہم مسلمانوں کو کمزور کرنے والے برطانوی عیسائی ہی تھے۔ جن کی سازش کافی حد تک کامیاب ہوئی۔ مستشرقین کی سازش : امیر شکیب ارسلان شام کے باشندے تھے اور وہاں کے جاگیردار تھے جنگ عظیم میں سلطنتِ ترکیہ کے ہسپتالوں کے انچارج تھے۔ آپ انگریزوں کے خلاف جہاد میں بالفعل شریک ہوئے۔ جب انگریزوں نے ان کے علاقوں پر قبضہ کیا تو ان کی جاگیریں بھی ضبط کرلیں۔ آپ بیس سال تک یورپ میں بھی مقیم رہے ہیں۔ جنگ عظیم کے بعد ایک امریکی نے مسلمانوں کی حالت زار پر انگریزی زبان میں کتاب لکھی۔ اس کا عربی ترجمہ کسی مصری عالم نے کیا۔ یہ کتاب امیر شکیب (رح) کے پاس پہنچی تو انہوں نے اس کا مقدمہ لکھا اصل کتاب ایک جلد میں ہے۔ مگر اس کا مقدمہ تین جلدوں پر پھیل گیا۔ امیر شکیب (رح) نے دیکھا کہ اس کتاب میں جہاں مسلمانوں کے متعلق بعض صحیح باتیں لکھی گئی ہیں۔ وہاں کچھ غلط چیزیں بھی شامل ہوگئی ہیں۔ اس لیے آپ کو اتنا لمبا مقدمۃ لکھنا پڑا۔ آپ نے پورے عالم اسلام کی سیاسی اقتصادی ، تمدنی حالت پر سیر حاصل بحث کی۔ اور تمام ممالک اسلامیہ کی مردم شماری بھی پیش کی۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیانی عرصہ میں یہ بڑی اہم کتاب تصور کی جاتی تھی۔ مجموعی حالات کے لحاظ سے عالم اسلام پر اس سے بہتر اور کوئی کتاب نہ تھی۔ آپ نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ یورپ کے یہودی اور عیسائیوں نے گذشتہ زمانے میں حضور خاتم النبیین ﷺ کے خلاف کم و بیش چھوٹی بڑی چھ لاکھ کتابیں لکھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کتابوں میں ان لوگوں نے مسلمانوں اور ان کے پیغمبر اعظم ﷺ کے خلاف کس قدر طوفان اٹھایا ہوگا۔ مشرقی علوم کے ماہر انگریز اور یورپین لوگ مستشرق کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے ہمدرد بن کر اسلامی علوم کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اور پھر اسے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنرل ایوب کے زمانے میں فضل الرحمن اسی قبویل سے تھا۔ وہ بھی مستشرقین کا شاگرد ہی تھا۔ جس نے کہا تھا کہ قرآن پاک کا کچھ حصہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور کچھ حصہ میں حضور ﷺ کے اقوال بھی ہیں۔ اس نے بظاہر خدمت اسلام کے جذبہ سے کتاب لکھی مگر اس میں اس قسم کا طوفان باندھا۔ پاکستان میں اس کے خلاف شور برپا ہو تو فضل الرحمن کو اس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ۔ یہ اور اس قسم کے دوسرے لوگ مسلمانوں کو دین سے بد ظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ یہود و نصاری اور مستشرقین کا مشترکہ نصب العین ہے ان کی خواہش اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح مسلمان اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور قرآن پاک سے متنفر ہوجائیں۔ یہ لوگ ایسے ایسے اعتراضات اٹھاتے ہیں کہ بعض لوگ شک میں پڑجاتے ہیں۔ ان کے حملہ سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ کہ مسلمان اپنے مرکزی عقیدہ اور قرآن کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط رکھیں۔ اگر مسلمان ان دو چیزوں کا دامن چھوڑ بیٹھے تو پھر گمراہی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ آپ دیکھ رہے ہیں۔ کہ مخالفین اسلام کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ پورے عالم اسلام میں کہیں بھی مسلمان اپنے دین پر قائم نہیں رہ سکے ان کے عقیدے بگڑ چکے ہیں اور نظریات فاسد ہوگئے ہیں۔ آج کی دنیا میں مسلمانوں نے بھی انہی نظریات کو اپنا لیا ہے ، جو غیر مسلمانوں نے اختیار کر رکھے ہیں۔ آج کے اکثر نام نہاد اعلی تعلیم یافتہ فاسد خیالات کا شکار ہیں۔ انگریزی تعلیم کے پروردہ ہونے کی بنا پر قرآن پاک کی تعلیمات کو توڑ موڑ کر پیش کرتے ہیں۔ فن اور فحاشی : آج کھیل تماشے ، عریانی ، فحاشی اور ایسی ہی دیگر قباحات کو فن کا نام دے دیا گیا ہے۔ اور پھر دعوی یہ ہے کہ اسلام ان کی مخالفت نہیں کرتا۔ گانا بجانا ، راگ رنگ ، فلم اور ڈرامہ فن ہے اور اس میں حصہ لینے والے فنکار ہیں۔ یہ لوگ اپنے نام نہاد فن کے ذریعے ملک کی بہت بڑی مفید خدمت کر رہے ہیں۔ ان کا دعوے ہے کہ وہ عوام الناس کو سستی تفریح مہیا کرتے ہیں۔ جگہ جگہ فن کے مظاہرے ہوتے ہیں۔ بلکہ غیر ممالک کے طائفوں سے تبادلہ ہوتا ہے ، اور اس طرح دنیا بھر کی قباحتیں تبادلہ میں ملتی رہتی ہیں۔ اب یہ چیزیں ہر گھر میں اس کثرت سے جاری ہیں کہ ان کی قباحت کا احساس تک باقی نہیں رہا۔ یہ سب یہود و نصاریٰ کا اثر ہے۔ تصویر سازی کا فن بھی عیسائیوں کا یجاد کردہ ہے۔ اور اب مسلمانوں کی زندگی کا بھی لازمی حصہ ہے ، حالانکہ اسلام میں تصویر کشی بالکل حرام ہے۔ لعن اللہ المصورین۔ تصویر بنانے والوں پر اللہ کی لعنت اور پھٹکار ہے۔ آج دنیا کے کسی مملک میں بھی مسلمان اسلام پر مکمل طور پر کاربند نہیں ہیں۔ اہل کتاب نے انہیں شکوک شبہات میں مبتلا کردیا ہے۔ ان کے عقیدے بگاڑ دیے ہیں اور نظریات فاسد کردیے ہیں یہ سب فحش چیزیں ہیں۔ قل ان اللہ لا یامر بالفحشاء۔ اللہ تعالیٰ تو تمہیں بےحیائی اور فواحش کا حکم نہیں دیتا۔ مگر آج انہی قبیح چیزوں کو فن کا نام دے کر جائز قرار دے دیا گیا ہے۔ ان تمام لغویات کا علاج قرآن و سنت پر استقامت میں ہے۔ مگر اس دور میں دنیا بھر کے مسلمان یہودیت اور نصرانیت کا شکار ہیں۔ مشنری اداروں کا جال : دنیا بھر میں پھیلے ہوئے عیسائیوں کے مشنری ادارے بھی مسلمانوں کو ان کے دین سے گمراہ کرنے کا فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ گرجے ، سکو۔ ل ، ہسپتال سب گمراہی کے اڈے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کو انجیل کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ جب مریض تندرست ہو کر باہر نکلتا ہے۔ تو آدھا عیسائی ہوچکا ہوتا ہے۔ یہی حال مشنری سکولوں کا ہے۔ جہاں بائبل کی تعلیم لازمی ہے ۔ ان مشنری اداروں کو چلانے والے امریکہ ، کینیڈا ، برطانیہ اور جرمنی کے عیسائی ہیں۔ انہوں نے مشرقی ممالک پر یلغار کی ہوئی ہے تاکہ مسلمان اپنے اسلام سے بیگانہ ہو کر ان کے مشن کو اپنا لیں۔ آج کی دنیا میں عالمی خبریں تمام کی تمام یہود و نصاری کے توسط سے آتی ہیں اور وہ انہیں اپنی مرضی کے مطابق توڑ موڑ کر اخبارات میں پیش کرتے ہیں۔ تاکہ مسلمانوں کے خلاف یہود و نصاری کو تقویت حاصل ہو۔ پوری دنیا میں کوئی مسلمان خبر ایجنسی نہیں جو ان تک صحیح خبریں پہنچائے۔ لوگ غلط ملط خبریں پڑھ کر یقین کرلیتے ہیں حالانکہ ان میں بیشتر من گھڑت ہوتی ہیں ، ان کا مقصد محض یہ ہے کہ تمہیں اپنے اصل نظریات سے متنفر کرکے باطل نظریات کی طرف راغب کریں تاکہ قرآن کے ساتھ تمہارا تعلق منقطع کردیں۔ فرمایا حقیقت یہ ہے۔ کہ اگر مسلمان اپنے مرکزی عقیدہ اور قرآن پر قائم رہیں گے تو وما یضلون الا انفسہم نہیں گمراہ کرسکیں گے۔ مگر اپنی ہی جانوں کو۔ ان کی پھیلائی ہوئی گمراہی کا وبال انہیں پر پڑے گا بشرطیکہ مسلمان اپنے صحیح عقیدہ پر قائم رہیں۔ آگے قیامت کا محاسبہ آنے والا ہے۔ ان کو معلوم ہوجائے گا کہ گمراہی پھیلانے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ وما یشعرون وہ اس وقت نہیں سمجھتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ یا اھل الکتب لم تکفرون بایات اللہ۔ اے اہل کتاب ! اللہ کی آیتوں کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو۔ یعنی ان کو کیوں جھٹلاتے ہو۔ حضور نبی کریم ﷺ کو اللہ کا سچا نبی کیوں نہیں مانتے۔ قرآن پاک کے احکام پر عمل کیوں نہیں کرتے۔ وانتم تشھدون۔ حالانکہ تم گواہ ہو۔ یعنی تم جانتے ہو کہ قرآن پاک اللہ کی سچی کتاب ہے۔ اور اس کے لانے والے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ کے سچے نبی ہیں ، جن کے متعلق اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ بنی اسماعیل میں سے تمہارے جیسا نبی برپا کروں گا ، اور اس کے منہ میں اپنا کلام ڈالوں گا۔ قرآن پاک وہی کلام ہے۔ اور محمد ﷺ وہی نبی ہیں۔ یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم۔ جنہیں تم اسی طرح جانتے پہچانتے ہو جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے سورة اعراف میں فرمایا ہے۔ یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل۔ اہل کتاب حضور خاتم النبین ﷺ کی صداقت کے متعلق تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ مگر اپنی ضد ، عناد ، حسد اور ذہنی فساد کی وجہ سے ان پر ایمان لانے کے لیے تیار ہیں۔ اللہ مالک الملک نے فرمایا۔ یا اھل الکتب لم تلبسون الحق بالباط۔ اے اہل کتاب ! حق کو باطل کے ساتھ کیوں ملاتے ہو۔ اللہ کی نازل کردہ کتابوں میں تحریف کے مرتکب کیوں ہوتے ہو۔ اس کے احکام کو کیوں بدلتے ہو۔ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ تمہاری کتابوں میں نبی آخر الزمان کی کیا علامتیں ہیں تو اصل علامات کی بجائے غلط ملط علامتیں بتا دیتے ہو۔ و تکتمون الحق اور تم حق بات کو چھپا جاتے ہو۔ ۔ وانتم تعلمون۔ حالانکہ تم اچھی طرح جانتے ہو۔ یہود و نصاری کو حق و باطل کے امتیاز میں کوئی شبہ نہیں مگر یہ لوگ دانستہ کتمان حق اور کذب بیانی کرتے ہیں۔ مشرکین تو لاعلمی اور اشتباہ کی وجہ سے گمراہی میں پھنسے ہوئے تھے ، ان کے پاس کوئی کتاب نہیں تھی ، مگر تم جان بوجھ کر گمراہی میں پڑے ہوئے ہو تمہارا کوئی علاج ممکن نہیں۔ جب یہ لوگ مکہ میں آتے تو مشرکین ان سے دریافت کرتے کہ ہمارا مذہب اچھا ہے یا مسلمانوں کا تو کہتے تمہارا دین صحیح ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ یہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہو۔ یہ اہل کتاب ہیں۔ انبیاء کی تاریخ سے واقف ہیں مگر اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مسلمانوں کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت ساری دنیا میں یہود و نصاریٰ کی سازش پھیلی ہوئی ہے۔ مگر بہت تھوڑے مسلمان اس سازش کو پہچانتے ہیں۔ اور اپنے دین پر قائم ہیں۔ ورنہ اکثریت ان کے جال میں پھنس چکی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ ترقی یافتہ لوگ ہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں ، درست کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ حق و باطل کی پہچان کی توفیق عطا فرمائے۔
Top