Anwar-ul-Bayan - An-Naml : 66
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ١۫ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا١۫٘ بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ۠   ۧ
بَلِ ادّٰرَكَ : بلکہ تھک کر رہ گیا عِلْمُهُمْ : ان کا علم فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت (کے بارے) میں بَلْ هُمْ : بلکہ وہ فِيْ شَكٍّ : شک میں مِّنْهَا : اس سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ مِّنْهَا : اس سے عَمُوْنَ : اندھے
بلکہ آخرت (کے بارے) میں ان کا علم منتہی ہوچکا ہے بلکہ وہ اس سے شک میں ہیں بلکہ اس سے اندھے ہو رہے ہیں
(27:66) بل۔ حرد اضراب ہے۔ ادراک : تدرک سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے۔ اصل میں تدرک تھا۔ تا کا دال میں ادغام کیا پھر ابتداء بالسکون کی دشواری کی وجہ سے شروع میں ہمزہ وصل لائے۔ ادراک ہوگیا۔ تدرک کے معنی ہیں (لوگوں کا) باہم آملتا۔ (غلطی کی بہتری سے) اصلاح کرنا۔ گزری ہوئی بات کی) تلافی کرنا۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں کہ :۔ کہ اس کا معنی انتہاء کو پہنچا۔ فنا ہوجانا ہے۔ جب پھل پک جاتا ہے اور توڑ لینے کے قابل ہوجاتا ہے تو عرب کہتے ہیں ادرکت الثمرۃ پھل نے اپنی پختگی کی نہایت کو پالیا ہے۔ اس کے بعد اسے توڑ لیا جاتا ہے اور پھر وہ اپنی شاخ پر لٹکتا ہوا نظر نہیں آتا۔ نیز جب کوئی قوم یکے بعد دیگرے لقمہ اجل بن جائے برباد ہوجائے تو کہا جاتا ہے تدرک بنوفلان اذا تتابعوا فی الہلال یعنی جب ایک خاندان کے لوگ پے در پے ہلاک ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو کہتے ہیں تدرک بنو فلان فلاں خاندان کے لوگ پے در پے ہلاک ہوگئے۔ یہاں ادرک بمعنی فنا ہوگیا۔ اسی محاورہ سے ماخوذ ہے۔ پس بل ادرک علیہم فی الاخرۃ کا مطلب ہے کہ آخرت کے متعلق ان کا علم فناء ہوچکا ہے۔ یعنی عقل دوڑا کر تھک گئے آخرت کی حقیقت نہ پائی کبھی شک کرتے ہیں کبھی منکر ہوتے ہیں (موضح القرآن از شاہ عبد القادر (رح)) اور بعض مفسرین نے یوں تقریر کی ہے کہ آخرت کے ادراک تک ان کی رسائی نہ ہوئی اور نہ عدم علم کی وجہ سے صرف خالی الذہن رہے بلکہ اس کے متعلق تردد میں پڑگئے اور نہ صرف شک و تردد بلکہ ان شواہد و دلائل سے آنکھیں بند کرلیں جن میں غوروتامل سے ان کا شک رفع ہوسکتا تھا۔ فی شک منھا۔ میں ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع الاخرۃ ہے۔ عمون ۔ یہ بحالت رفع عم کی جمع ہے عم عمی مصدر سے بروزن فعل صفت مشبہ کا صیغہ ہے یہ اصلی میں عمی تھا۔ چونکہ ناقص یائی میں صفت مشبہ کا یا حذف ہوجاتا ہے اس لئے یاء حذف ہوگئی عم رہ گیا۔ عمی یعمی عمی باب سمع بمعنی نابینا ہونا۔ اندھا ہونا۔ اور بطور استعارہ کور دل ہونا۔ فائدہ : آیت ہذا میں بل بطور حرف اضراب کے استعمال ہوا ہے ۔ قرآن مجید میں یہ دو صورتوں میں آیا ہے :۔ (1) ماقبل سے اعراض کے لئے برائے تدارک یعنی اصلاح۔ (2) پہلے حکم کو برقرار رکھ کر اس کے مابعد کو اس حکم پر اور زیادہ کرنے کے لئے۔ یہاں اس آیت میں اس کا استعمال (2) کی صورت میں ہے اس کے متعلق مولنا عبد الماجد اپنی تفسیر ماجدی میں یوں رقمطراز ہیں :۔ منکرین آخرت کے کئی طبقہ ہیں قرآن نے ان کے نفسیات کی الگ الگ پوری تشریح کردی ہے۔ ایک طبقہ تو وہ ہے جس کا ظاہری ، سطحی، مادی وحسی علم آخرت کے باب میں جواب دے جاتا ہے اور وہ طبقہ اپنے عدم علم پر قانع اور مطمئن ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ لوگ بل ادراک علمہم فی الاخرۃ کے مصداق ہیں۔ دوسرا طبقہ عدم علم سے آگے قدم بڑھا کر اس عقیدہ پر جرح وقدح شروع کردیتا ہے اور اس باب میں تشکیک و ارتبات میں مبتلا رہتا ہے یہ گروہ بل ہم فی شک فیہا کے تحت میں آیا۔ تیسرا طبقہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنی آنکھیں دلائل و شواہد کی طرف سے بند کرلیتا ہے اور اس کے برسر راہ آنے کی طرف سے قطعی مایوسی ہوجاتی ہے ایسوں کے لئے کھلی ہوئی وعید بل ہم منھا عمون ۔ کی ہے۔ اس کی اور مثال 21:5 میں ملاحظہ ہو ارشاد ہے بل قالوا اضغاث احلام بل افترہ بل ہو شاعر۔ نہیں بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ (یہ قرآن) پریشان خیالات ہیں نہیں بلکہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے نہیں بلکہ وہ تو ایک شاعر ہے۔ مطلب یہ کہ ایک تو قرآن کو پریشان خیالات کہتے ہیں پھر مزید اسے افتراء بتلاتے ہیں اور اسی پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ نعوذ باللہ آپ کو شاعر سمجھتے ہیں۔
Top