Tafseer-e-Baghwi - An-Naml : 66
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ١۫ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا١۫٘ بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ۠   ۧ
بَلِ ادّٰرَكَ : بلکہ تھک کر رہ گیا عِلْمُهُمْ : ان کا علم فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت (کے بارے) میں بَلْ هُمْ : بلکہ وہ فِيْ شَكٍّ : شک میں مِّنْهَا : اس سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ مِّنْهَا : اس سے عَمُوْنَ : اندھے
بلکہ آخرت (کے بارے) میں ان کا علم منتہی ہوچکا ہے بلکہ وہ اس سے شک میں ہیں بلکہ اس سے اندھے ہو رہے ہیں
66۔ بل ادرک علمھم، ابوجعفر ابن کثیر اور ابوعمرو نے ، ادرک بروز افعل، پڑھا ہے۔ اس کا معنی ہے بلغ بالحق، جیسا کہ کہاجاتا ہے ، ادر کہ علمی، جب اس سے ملاقات کی اور اس کو پہنچے۔ اس سے مراد وہ دنیا میں جو جہالت چھوڑ کر آئے اور اس کا علم ان سے ساقط ہوجائے۔ اس کا علم ان کو معلوم نہیں۔ ) تو آخر ت میں ان کو معلوم ہوجائے گا، مجاہد کا قول ہے کہ ان کے علم کا ادراک ہوجائے گا، فی الاخرہ، اور اپنی آنکھوں سے معائنہ کرنے کے بعد پہچان لیں گے۔ جب اس وقت ان کا علم ان کو نفع نہیں دے گا، مقاتل کا بیان ہے کہ بلکہ وہ قیامت کے دن آنکھوں سے دیکھ کر معائنہ کرلیں گے اور اس وقت دنیا میں کیے ہوئے اعمال پرشکوہ بھی نہیں کرپائیں گے۔ بل ھم فی شک منھا، یعنی ان کو قیامت کے دن کے بارے میں شک ہے۔ دوسرے قراء نے بل ادارک موصولا مشدودا، ، الف کے ساتھ پڑھا ہے۔ جب وہ آخرت کے دن تدارک اور تتابع کرلیں گے بعض نے کہا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ ان کا علم مجمتع ہوجائے گا، جب قیامت کے دن معائنہ کرلیں گے۔ اس وقت ان کو شک ہوگا، اس صورت میں پہلے کے معنی میں ہے۔ بعض نے کہا کہ یہ بطور استفہام کے طریقے پر ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ قیامت کے دن یہ اپنے اعمال کا تدارک کرلیں گے۔ کیا ان کو علم قیامت کے معاملہ میں مکمل ہوگیا ہے ان کا پوراپورا علم حاصل ہوگیا۔ ایسان ہیں بلکہ قیامت کا علم ان کو حاصل نہیں ہوا۔ ابھی یہ علم قیامت تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ قیامت کا وجود ان کی علمی رسائی سے خارج ہے۔ اس مطلب کی تائید حضرت ابن عباس ؓ کی قرات سے ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کی قرات میں بھی، ادراک ، آیا ہے یعنی بل کی جگہ بلی، کلمہ ایجاب اورادارک ، ہمہز استفہام آیا ہے جس کو وصل کے بعد، بل ادارک ، پڑھا ہے۔ اور حضرت ابی کی قرات میں ، ام تدرک آیا ہے۔ عرب بل کی جگہ ام کو اورام کی جگہ بل کو استعمال کرتے ہیں۔ اللہ نے ارشاد فرمایا، کہ جب ان کو قیامت کے دن اٹھایاجائے گا، ان کا آخرت کے بارے میں علم برابر ہوگا، اور نہ ہی ان کے لیے ثواب وغیرہ کا وعدہ کیا گیا ۔ اگرچہ ان کے علوم دنیاوی اعتبار سے مختلف تھے علی بن عیسیٰ اور اسحاق نے کہا کہ اس جگہ ، بل بمعنی لو کے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو علم آخرت میں ان کو ہونا ہے ، اگر وہ دنیا ہی میں ہوجاتا تو شک نہ کرتے اب ان کو یقین نہیں ہے بلکہ وہ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ بل ھم منھاعمون، عمی کی جمع ہے اور بینائی سے مراد دل کی نابینائی ہے ۔ کلبی کا بیان ہے کہ وہ اس دن سے جاہل ہیں۔
Top