Tafseer-e-Majidi - An-Naml : 66
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ١۫ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا١۫٘ بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ۠   ۧ
بَلِ ادّٰرَكَ : بلکہ تھک کر رہ گیا عِلْمُهُمْ : ان کا علم فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت (کے بارے) میں بَلْ هُمْ : بلکہ وہ فِيْ شَكٍّ : شک میں مِّنْهَا : اس سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ مِّنْهَا : اس سے عَمُوْنَ : اندھے
بات یہ ہے کہ آخرت کے باب میں ان کا علم نیست ہوچکا بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں بلکہ یہ اس کی طرف سے اندھے بنے ہوئے ہیں،75۔
75۔ منکرین آخرت کے کئی طبقہ ہیں۔ قرآن نے ان کی نفسیات کی الگ الگ پوری تشریح کردی، ایک طبقہ تو وہ ہے جس کا ظاہری، سطحی، مادی وحسی علم آخرت کے باب میں جواب دے جاتا ہے اور وہ طبقہ اپنے عدم علم پر قانع ومطمئن ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ لوگ (آیت) ” بل ادرک علمھم فی الاخرۃ “۔ کے مصداق ہیں۔ دوسرا طبقہ عدم علم سے آگے قدم بڑھا کر اس عقیدہ پر جرح وقدح شروع کرتا ہے اور اس باب میں تشکیک وار تیاب میں مبتلا رہتا ہے۔ یہ گروہ (آیت) ” بل ھم فی شک منھا “ کے تحت میں آیا۔ تیسرا طبقہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنی آنکھیں دلائل و شواہد کی طرف سے بند کرلیتا ہے اور اس کے بر سرراہ آنے کی طرف سے قطعی مایوس ہوجاتی ہے۔ ایسوں کے لئے کھلی ہوئی وعید (آیت) ” بل ھم منھا عمون “ کی ہے۔
Top