Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 66
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ١۫ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا١۫٘ بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ۠   ۧ
بَلِ ادّٰرَكَ : بلکہ تھک کر رہ گیا عِلْمُهُمْ : ان کا علم فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت (کے بارے) میں بَلْ هُمْ : بلکہ وہ فِيْ شَكٍّ : شک میں مِّنْهَا : اس سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ مِّنْهَا : اس سے عَمُوْنَ : اندھے
بلکہ آخرت کے باب میں عالم الجھا ہوا ہے۔ بلکہ یہ لوگ اس کے بارے میں مبتلائے شک ہیں، بلکہ یہ لوگ اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں
ادرک دراصل تدارک ہے جو باقاعدہ ادغام ادرک ہوگیا ہے جس طرح تثاقل سے اثاقل بن گیا ہے۔ تدارک لقوم کے معنی ہوں گے قوم کے اگلے پچھلے سب ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے۔ قرآن مجید میں ہے حتی اذا دراکوا فیھما جمیعاً (یہاں تک کہ جب وہ سب اس میں اکٹھے ہو لیں گے) یہیں سے اس کے اندر اختلاط اور گڈ مڈ ہونے کا مفہوم بھی پیدا ہوگیا ہے۔ اس لئے کہ جب مختلف چیزیں کٹھی ہوجاتی ہیں تو وہ آپس میں گڈمڈ ہوجاتی ہیں۔ آخرت کے باب میں مشرکین عرب کی ذہنی الجھن یہ بات ہم اس کے محل میں واضح کرچکے ہیں کہ مشرکین عرب کا موقف آخرت کے باب میں صریح انکار کا نہیں تھا بلکہ وہ ایک قسم کی ذہن الجھن میں مبتلا تھے۔ اس کو ماننا چاہتے نہیں تھے او اس کے صریح انکار کی گنجائش پاتے نہیں تھے۔ اس وجہ یس وہ ایک قسم کی گو مگو کی حالت میں مبتلا تھے۔ بعض منہ پھٹ اور بالکل لا ابالی قسم کے لوگ اگرچہ ضد کے جوش میں اس کا انکار بھی کربیٹھے تھے لیکن عام حابت یہ نہیں تھی بلکہ جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا۔ ایک ذہنی الجھن ہی کی تھی۔ وہ اس کو نہ ماننے کی خواہش کے تحت ایک بہت ہی مستبعد بات قرار دیتے تھے کہ بھلا مر جانے اور سڑ گل جانے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا اور ساری دنیا کا حساب کتاب اور ان کی جزا و سزا کس کے بس کی بات ہے ! لیکن اس پر بھی ان کا ذہن پوری طرح مطمئن نہیں تھا اس وجہ سے اپنی تسلی کے لئے وہ یہ بھی کہتے تھے کہ بالفرض مرنے کے بعد اٹھنا ہی پڑا اور حساب کتاب کی نوبت آ ہی گی تو ہمارے دیوی دیوتا اپنی سعی و سفارش سے ہمیں بچا ہی لیں گے، اس کے لئے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآن نے ان کی اس ذہنی کشمکش کو ادرک علمھم فی الاخرۃ سے تعبیر فرمایا ہے اور یہ نہایت ہی حقیقت افروز تعبیر ہے لیکن تعجب ہوتا ہے کہ ہمارے مفسرین اس کی تاویل میں معلوم نہیں کس طرح الجھن میں پڑگئے ! یہ آیت یہاں بالک اسی محل میں ہے جس محل میں تہید کی آیت 5 ہے جس طرح وہاں فرمایا ہے کہ اگرچہ یہ قرآن بالکل واضح ہے لیکن جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ہیں اور نہ ماننا چاہتے ہی ہیں وہ اس پر ایمان نہیں لائیں اسی طرح توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال پر یہاں ناقابل انکار دلائل پیش کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ نہ خیال کرو کہ سورج کی طرح یہ روشن حقائق ان کی سمجھ میں نہیں آ رہے ہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ آخرت کے باب میں یہ سخت ذہنی الجھن میں مبتلا ہیں، اس کی طرف سے یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ اس کی طرف سے اندھے بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حقائق سے گریز و فرار کی اصلی علت آخرت سے گریز و فرار ہی ہے۔ آخرت کو مان لینے سے چونکہ انسان پر عظیم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اس وجہ سے وہ اس سے بھاگتا ہے اور فرار کے لئے چونکہ جوئی راہ نہیں ہے اس وجہ سے وہ چور دروازے تلاش کرتا ہے۔ یہ چیز اس کو ایک شدید ذہنی الجھن میں مبتلا کردیتی ہے۔ وہ حقائق سے گریز کے لئے ان کے اندر شک کے پہلو ڈھونڈتا ہے۔ یہ غیر فطری جستجو اس کو شک کا مریض بنا دیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسے صریح حقائق سے آنکھیں بند کر کے اندھا بننا پڑتا ہے۔ گویا قرآن نے اس آیت میں ان کے مرض کے تدریجی ارتقاء کو واضح فرمایا کہ انہوں نے آخرت کو نہ ماننے کی خواہش کے تحت اپنے ذہن و فکر کو مریض بنایا۔ پھر جب وہ شک کے مریض بن گئے تو انہیں آفاق وانفس کے تمام شواہد و حقائق سے آنکھیں بند کر لینی پڑیں اس لئے کہ اس میں حقائق کامواجبہہ ان کی طبیعت پر نہایت شاق گزرتا ہے۔
Top