Madarik-ut-Tanzil - An-Naml : 66
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ١۫ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا١۫٘ بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ۠   ۧ
بَلِ ادّٰرَكَ : بلکہ تھک کر رہ گیا عِلْمُهُمْ : ان کا علم فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت (کے بارے) میں بَلْ هُمْ : بلکہ وہ فِيْ شَكٍّ : شک میں مِّنْهَا : اس سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ مِّنْهَا : اس سے عَمُوْنَ : اندھے
بلکہ آخرت (کے بارے) میں ان کا علم منتہی ہوچکا ہے بلکہ وہ اس سے شک میں ہیں بلکہ اس سے اندھے ہو رہے ہیں
66: بَلِ ادّٰرَکَ (بلکہ پورا ہوگیا) ۔ قراءت : أدرک مکی ٗ بصری ٗ یزید و مفضل نے پڑھا ہے۔ اس کا معنی پورا ہوا اور مکمل ہوا لیا ہے اس صورت میں ادرکت الفاکہۃ سے لیا گیا ہے یعنی پک کر تیار ہوگیا۔ اعشیٰ نے بل ادرک بروزن افتعل پڑھا ہے۔ دیگر قراء نے بل ادارک پڑھا جس کا معنی استحکم اور اس کی اصل تدارک ہے۔ تاء کو دال میں ادغام کیا گیا اور الف وصل کو بڑھا دیا تاکہ پڑھ سکیں۔ عِلْمُہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ (ان کا علم آخرت کے متعلق) ۔ آخرت اور اس کے متعلقہ چیزوں کے متعلق۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے وقوع پر مستحکم و مضبوط دلائل قائم ہوچکے اور ان کے سامنے آچکے اور ان کی پہچان بھی ان کو میسر آچکی ہے مگر ان کا حال یہ ہے کہ یہ اس سے جہالت کا اظہار کرتے اور اس میں شک کرنے والے ہیں اور اس کا تذکرہ اس ارشاد میں فرمایا۔ بَلْ ہُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْہَا بَلْ ہُمْ مِّنْہَا عَمُوْنَ (بلکہ وہ اس کے متعلق شک میں مبتلا ہیں بلکہ وہ اس کے متعلق اندھے ہوچکے ہیں) تین مرتبہ بل لا کر اضراب و اعراض ان کے احوال کے مطابق علی سبیل الترقی اور ان کے جہل کو اور زیادہ پختہ کرنے کے لئے ہے اولاً فرمایا۔ نمبر 1۔ کہ ان کو بعث کے وقت کا شعور نہیں۔ نمبر 2۔ پھر فرمایا وہ نہیں جانتے کہ قیامت قائم ہونے والی ہے۔ نمبر 3۔ پھر فرمایا وہ شک وریب میں ٹامک ٹویاں مارنے والے ہیں۔ مگر اس کو زائل نہیں کرتے حالانکہ ازالہ ان کی طاقت میں ہے۔ پھر جو اس سے بدتر حالت (عمیٰ ) اندھا پن اس کو ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت کو ان کے اندھے پن کا مبدأو منشأ قرار دیا۔ اسی لئے تو عن کی بجائے من سے متعدی بنایا۔ کیونکہ تدبر و تفکر سے باز رہنے کا اصل سبب جزاء و انجام کا انکار ہے۔ اس آیت کے مضمون میں کفار کو ملامت کی گئی جس کی وجہ ماقبل کا مضمون ہے۔ کفار کو منکرین بعث قرار دیا گیا باوجودیکہ علم کے اسباب مضبوط اور دلائل سے اس کی پہچان پختہ ہوچکی۔ اور وہ مضمون اللہ تعالیٰ کا علم غیب کے ساتھ مختص ہونا ہے۔ اور بندوں کو کچھ علم نہ ہونا۔ جب یہ بیان کردیا کہ بندے غیب کو نہیں جانتے تو ان کی عاجزی کا اظہار ہے اور ان کے قصور علم کا بیان ہے۔ تو اس کے ساتھ ملا کر یہ بات کہہ دی گئی کہ ان کا عجز تو اس سے بہت ہی بڑھ کر ہے۔ وہ اس طرح کہ وہ قطعی طور پر ہونے والی چیز کو جس کا واقع ہونا یقینی ہے اور وہی ان کے اعمال کی جزاء کا وقت ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ آئے گی نہیں۔ حالانکہ اس کے واقعہ ہونے کی پہچان کے پختہ اسباب ان کے ہاں موجود ہیں۔ نمبر 2۔ اور یہ بھی جائز ہے۔ ان کے علم کا استحکام ٗ تکامل بطور استہزاء کے ہو جیسا کہ سب سے بڑے جاہل کو کہیں مَا اعلمک۔ تو کتنا بڑا علامہ ہے اور اس تہکم کی وجہ ان کا قیامت کے متعلق شک اور اس کے اثبات سے اندھا پن اختیار کرنا ہے۔ جس کے لئے عمل کی شارع موجود ہے۔ اس کی بجائے وہ اس کا وقت معلوم کرنا چاہتے ہیں جس کو جان لینے کا کوئی راستہ نہیں۔ نمبر 3۔ اور أدرک انتہاء اور فناء کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے یہ ادرکت الثمرۃ سے ہو۔ پھل فناء ہوا۔ کیونکہ اس کی وہ غایت ہے جس پر وہ معدوم کردی جائے گی۔ حسن بصری (رح) کا قول : ادّارک علمہم۔ اے اضمحل علمہم فی الاخرۃ آخرت کے متعلق ان کا علم مضمحل ہوچکا اور تدارک یہ تدارک بنو فلان سے ماخوذ ہے جبکہ وہ پے درپے ہلاک ہوں۔
Top