Kashf-ur-Rahman - An-Naml : 66
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ١۫ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا١۫٘ بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ۠   ۧ
بَلِ ادّٰرَكَ : بلکہ تھک کر رہ گیا عِلْمُهُمْ : ان کا علم فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت (کے بارے) میں بَلْ هُمْ : بلکہ وہ فِيْ شَكٍّ : شک میں مِّنْهَا : اس سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ مِّنْهَا : اس سے عَمُوْنَ : اندھے
اصل بات یہ ہے کہ قیامت کے بارے میں ان منکروں کا علم تھک کر رہ گیا بلکہ وہ آخرت کے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ وہ آخرت سے اندھے بنے ہوئے ہیں
(66) کوئی نہیں اصل بات یہ ہے کہ قیامت کے بارے میں ان کا علم و فکر تھک کرہ یا بلکہ وہ آخرت کے متعلق شک میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ وہ آخرت سے اندھے بنے ہوئے ہیں یعنی قیامت کے وقت کے تعین کا تو ایک بہانہ ہے حالانکہ عدم علم عدم وقوع کو مستلزم نہیں اگر نبی کریم ﷺ کو اس وقت کا نہیں بتایا گیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ قیامت کا وقوع بھی نہیں ہوگا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کا علم اور ان کا فکر اس بارے میں ہار گیا اور نیست و نابود ہوگیا اور ان کو اس کے وقوع کا یقین ہی نہیں بلکہ یہ آخرت کے بارے میں کوئی رائے نہیں قائم کرسکتے اور شک میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ وہ اس آخرت سے اندھے بنے ہوئے ہیں جس طرح وہ اندھا جو بتانے والے کا یقین نہ کرے اس کو صحیح راستہ نہیں مل سکتا اسی طرح یہ بھی آخرت کے دلائل پر غور نہیں کرتے اور نہ تامل سے کام لیتے ہیں آخرت کو بتانے والوں کا یقین نہیں کرتے اسی لئے آخرت کی طرف سے اور اس کے یقین سے اندھے بنے ہوئے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی نقل دوڑا کر تھک گئے آخرت کی حقیقت نہ پائی کبھی شک کرتے ہیں کبھی منکر ہوتے ہیں 12
Top