Tafseer-e-Madani - An-Naml : 66
بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ١۫ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا١۫٘ بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ۠   ۧ
بَلِ ادّٰرَكَ : بلکہ تھک کر رہ گیا عِلْمُهُمْ : ان کا علم فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت (کے بارے) میں بَلْ هُمْ : بلکہ وہ فِيْ شَكٍّ : شک میں مِّنْهَا : اس سے بَلْ هُمْ : بلکہ وہ مِّنْهَا : اس سے عَمُوْنَ : اندھے
بلکہ نیست ہوگیا ان کا علم آخرت کی حقیقت اور عظمت شان کے بارے میں بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ اس کے بارے میں شک میں پڑے ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ لوگ اس کے بارے میں اندھے ہیں
76{ اِدَّارَکَ علمہم } کا معنیٰ و مطلب ؟ : یعنی نیست ہوگیا ان کا علم آخرت کے بارے میں۔ اور یہ { ادارک } کا ایک معنیٰ ہے ۔ " اَیْ فنی واضمحل علمہم فی الاخرۃ " ۔ (ابن کثیر، مدارک، کبیر، جواہر، معارف وغیرہ) ۔ یعنی یہ لوگ چونکہ آخرت کے بارے میں لاپرواہ اور بےفکر ہیں اس لیے یہ اس کیلئے سوچنے اور غور کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ اور یہ بطن و فرج کی شہوات میں ایسے مشغول و منہمک ہیں کہ محض حیوان بن کر رہ گئے ہیں۔ اور بطن و فرج کی خواہشات کی تکمیل کے سوا اور کسی بات کیلئے یہ سوچنے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔ اس لیے آخرت کے بارے میں ان کا علم مٹ گیا۔ { ادارک } اصل میں " تدارک " ہے۔ جیسے " اثاقل " اصل میں " ثقاقل " ہے۔ تعلیل اور ادغام کے معروف قاعدے کے مطابق یہ " ادارک " بن گیا۔ اور " تدارک القوم " کے معنیٰ ہوتے ہیں کہ قوم کے آگے پیچھے سب ایک جگہ اکھٹے ہوگئے۔ باہم مل گئے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { حتی اذا ادارکو فیہا جمیعا } ۔ (الاعراف : 38) ۔ یعنی " یہاں تک کہ جب وہ سب اس میں ۔ یعنی دوزخ میں ۔ اکھٹے ہوجائیں گے "۔ اور یہیں سے اس میں اختلاط اور گڈمڈ ہونے کے معنیٰ پیدا ہوگئے۔ تو اس اعتبار سے معنیٰ ہوں گے کہ یہ لوگ قیامت کے بارے میں الجھن میں پڑے ہیں۔ کسی واضح عقیدے پر قائم نہیں۔ کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ اور۔ اور اس کے معنی " تَکَامَلَ وَاسْتَحْکَمَ " کے بھی کئے گئے ہیں۔ یعنی اسباب و دلائل اس کے لئے سب جمع کر دئے گئے۔ اب اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو یہ ان کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے۔ ورنہ حق پوری طرح واضح ہوگیا ہے۔ نیز ان کے پاس ایمان و یقین کا تحقق و وقوع اپنی کامل اور آخری شکل میں اس وقت ہوگا جبکہ یہ لوگ اس عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ اس لئے اس ماضی کو مضارع کے معنیٰ میں لیا گیا ہے۔ (محاسن التاویل وغیرہ) ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا ۔ { اَسْمِعْ بِہِمْ وَاَبْصِرْ یَوْمَ یَأْتُوْنَنَا } ۔ (مریم :38) یعنی " کیا ہی خوب سنتے اور دیکھتے ہوں گے یہ لوگ اس دن جس دن کہ یہ ہمارے یہاں حاضر ہوں گے "۔ مگر اس وقت کا یہ جاننا اور ماننا ان کو کچھ کام نہ دے گا۔ (جامع البیان، ابن کثیر، فتح القدیر وغیرہ) کہ وہ ایمان، ایمان بالغیب نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ ایمان بالمشاھدہ ہوگا۔ جبکہ اصل مطلوب ایمان بالغیب ہے نہ کہ علم مشاہدہ۔ 77 اِنکارِ حق کی اصل علت کی نشاندہی : سو حق سے اعراض اور اس کی تکذیب پر اصل علت کی نشاندہی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ نہیں بلکہ یہ لوگ اس سے اندھے بنے ہوئے ہیں۔ اور جس طرح اندھے کو کچھ دکھتا سوجھتا نہیں اسی طرح ان کو بھی آخرت کے بارے میں کچھ نہیں سوجھتا۔ اور حق کی صاف اور سیدھی راہ ان کو نظر نہیں آتی کہ انہوں نے اپنی آنکھوں پر ضد اور ہٹ دھرمی کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ اور حق کے سننے سے اپنے کانوں کو انہوں نے بند کر رکھا ہے جس کا لازمی اثر اور طبعی نتیجہ یہی محرومی اور اندھا پن ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور آخرت کو ماننے کے نتیجے میں چونکہ ان پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں جس کیلئے یہ تیار نہیں اس لیے یہ دلائل وبراہین میں غور و فکر سے کام لینے کی بجائے آخرت اور اس کے تقاضوں سے اندھے بن گئے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ احقاقِ حق اور اثبات باطل کے ان کھلے اور روشن دلائل کے باوجود اگر یہ لوگ حق کو ماننے اور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو اس لیے نہیں کہ ان کے لیے اس بارے کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی رہ گئی ہے۔ بلکہ یہ لوگ آخرت کے بارے میں سخت ذہنی الجھن میں مبتلا ہیں۔ بلکہ یہ اس کے بارے میں شک میں پڑے ہیں۔ بلکہ یہ اس کی طرف سے اندھے بنے ہوئے ہیں تاکہ یہ لوگ عقیدئہ آخرت کے نتیجے میں عائد ہونے والی ذمہ داریوں سے بچ کر خالص حیوانی زندگی گزار سکیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ تعالیٰ نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔
Top