Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 65
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : تو کیا تم نہیں ڈرتے
اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو بھیجا تو انہوں نے فرمایا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق سو کیا تم ڈرتے نہیں ؟
رکوع نمبر 9 ۔ آیات 65 ۔ تا۔ 72 اسرار و معارف : توحید : اسی طرح زمین پر آباد ہونے والے لوگ پھلے پھولے اور پھر سے آبادی بڑھی تو نوح (علیہ السلام) کی پانچویں پشت میں عاد جو ان کے بیٹے سام کی اولاد میں سے تھا معروف آدمی گذرا حتی کہ اس کی پوری قوم عاد کہلائی اسی کے دوسرے بھائی کی اولاد ثمود یا عاد ثانی کہلائی مورخین کی مطابق عاد کے دادا کا نام ارم تھا لہذا انہیں عاد ارم بھی کہا گیا ہے جب یہ لوگ خوب آباد ہوگئے اور زمین سونا اگلنے لگی ہر طرح کی فصلیں اور پھل کثرت سے پیدا ہونے لگے پھر یہ تنومند اور بہت قد آور اقوام تھیں غرض ہر طرح کی شان و شوکت نصیب ہوئی تو اللہ کریم سے غافل ہوگئے اور اپنی طاقت اور دولت کے نشے میں بد مست ہو کر کفر و شرک میں مبتلا ہوگئے۔ ان کی باطنی تباہی رحمت ربوبیت کا تقاضا کرتی تھی لہذا اللہ نے ان ہی کے قومی بھائی حضرت ہود (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز فرمایا حضرت ہود (علیہ السلام) بھی سام کی اولاد میں سے تھے یوں تو نبو تانسانیت ہی کا تاج ہے اور کسی دوسری مخلوق کو یہ نعمت نصیب نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ انسان اپنی ہی جنس سے مستفید ہوسکتا ہے مگر یہاں یہ نعمت بھی تھی کہ حضرت ہود (علیہ السلام) قوم عاد ہی سے تھے اور ان کے قومی بھائی بھی تھے لہذا انہوں نے برملا اعلان فرمایا کہ اے میری قوم صرف اللہ کی عبادت کرو اس لیے حقیتاً اس کے علاوہ کوئی بھی تمہارا معبود نہیں توحید باری تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام نے سب سے پہلے بیان فرمائی اور یہ ہر دین کی بنیاد ہے یاد رہے توحید سے مراد مرکز امید کا واحد ہونا ہے ورنہ اقرار محض تو صورت توحید ہی کا ہی ہوگا فرمایا تمہارا تعلق اس قدر بگڑ چکا ہے کہ اب تمہیں اللہ سے حیا نہیں آتی یعنی توحید کا مدار تعلق قلبی پر ہے جسے تقوی کہا گیا ہے اگر یہ ٹوٹ جائے تو انسان کوئی معبود مان لیتا ہے خواہ زبان سے اقرار نہ بھی کرے۔ سرداران قوم ایسے لوگ جنہوں نے مذہب کے نام پر اپنی سرداریاں قائم کر رکھی تھیں تڑپ اٹھے اور کہنے لگے تمہاری باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ تم بیوقوف ہو جن باتوں پہ ہمارے باپ دادا عمل کرتے تھے اور ہماری مشکلات انہی سے حل ہوتی تھیں بیماریاں دور ہوجاتی تھیں سب کام ہو رہے تھے تم نے کہہ دی ا کہ یہ سب غلط ہے یہ تو بہت بڑی جہالت ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر یقیناً تم جھوٹ بول رہے ہو اور محض اپنا کوئی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہو۔ آپ نے فرمایا میں ہرگز پاگل نہیں ہوں بھلا جو میں کہتا ہوں کیا یہ بات بجز نبی کسی کے احاطہ علمی میں آسکتی ہے ہرگز نہیں دنیا بھر کے حکما ، فلاسفر اور دانشور مل کر بھی ذات وصفات باری سے آگاہی نہیں پا سکتے ہاں یہ مقام نبوت ہے کہ انبیاء کو اللہ کریم خود تعلیم فرما دیتے ہیں اور میں بھی اللہ کا رسول ہوں اس اللہ کا جو تمام جہانوں کا خالق اور پروردگار ہے میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا صرف وہ باتیں جو اللہ کریم تم سے کرنا چاہتے ہیں مجھے ارشاد فرما دیتے ہیں اور میں تمہیں پہنچا دیتا ہوں نیز صرف بات ہی پہنچانا میرا مقصد نہیں مجھے تم سے پوری ہمدردی بھی ہے میں تمہارے دکھ سکھ کو محسوس بھی کرتا ہوں اور تمہاری بہتری چاہتا ہوں پورے خلوص کے ساتھ کہ میں امین بھی ہوں یعنی انبیاء ہر طرح سے امانتدار ہوتے ہیں بات پہنچانے محنت کرنے اور خلوص دل سے لوگوں کی اصلاح کی تمنا کرنے وغیرہ۔ سب امور میں۔ اب رہی یہ بات کہ تم حیران ہو اللہ کو اگر رسول بنانا تھا تو کسی فرشتے کو بناتا یا ہم ےس کوئی بڑا آدمی ہی بنا دیتا قو م میں سے ایک عام آدمی کو نبوت سے سرفراز کردیا اب وہ ہمیں ہمارے اعمال کے نتائج سے مطلع کر رہا ہے تو اپنے سے پہلے دور کو یاد کرو کیا نوح (علیہ السلام) اسی طرح مبعوث نہ ہوئے تھے کیا ان کی تعلیمات یہی نہ تھیں لوگوں نے انکار کیا تو تباہ ہوگئے او سب کو مٹا کر تمہیں ان کے بعد پھر سے زمین پہ آباد کردیا بلکہ تمہیں جسمانی اعتبار سے ان سے بہت مضبوط اور طاقتور بنا دیا اگر تم سوچنا شروع کرو تو دیکھ تم پر کس قدر انعامات فرمائے ہیں جسمانی طاقت اقتدار مال و دولت اولاد شادابی اور پھلوں کی کثرت اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرو کہ تمہارا بھلا اسی میں ہے تو کہنے لگے آپ کی سب باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ ہم ایک اللہ کی بندگی کریں اور جس قدر معبود ہمارے باپ دادوں نے اختیار کیے تھے سب کو چھوڑ دیں یہ نہیں ہوگا اگر اس پہ خفا ہو کر اللہ عذاب نازل کرنا چاہتا ہے اور آپ ہمیں اس عذاب سے ڈرا رہے ہیں تو آپ اسے آنے دیں دیکھا جائے گا مگر ہم کسی عذاب سے ڈر کر رسومات کو ترک نہیں کریں گے۔ اللہ کے غضب کی دلیل : آپ نے فرمایا جب گناہ ایک خاص حد سے بڑھ جاتے ہیں اور اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے تو اس کی دلیل یہی ہے کہ توبہ کی توفیق چھن جاتی ہے انسان برائیوں پر شرمندہ ہونے کی بجائے فخر کرنے لگتا ہے یہ نہ صرف غضب ہے بلکہ عذاب کی ایک قسم ہے یعنی یہ صورتحال بجائے خود ایک عذاب ہے جس میں تم لوگ مبتلا ہوچکے ہو۔ کیا یہ عذاب الہی نہیں کہ مفروضہ ناموں کو اپنا حاجت روا ثابت کرنے کے لیے پوری قوت صرف کر رہے ہو نہ کوئی آسمانی کتاب اس کی شہادت دیتی ہے نہ کسی نبی اور رسول نے ایسا کرنے کا حکم دیا محض اپنے اوہام کی بنیاد پر چند دیوی دیوتا یا حاجت روا مقرر کرکے اب تعلیمات نبوت کو بدلنا چاہتے ہو اپنی رسوم کو نہیں بدلتے تو انتظار کرو کیا نتیجہ سامنے آتا ہے میں بھی منتظر ہوں۔ اور پھر وہی ہوا نور نبوت ٹوٹ کے برسا مگر روشنی انہی کو دلوں کو نصیب ہوئی جن میں استعداد باقی تھی جن کی زمین گناہ کے باعث شور ہوچکی تھی وہ تباہ و برباد کردئیے گئے قوم عاد پر ہوا کو ہی بطور عذاب مسلط کردیا گیا جو باعث حیات تھی وہی موت اور تباہی کا سبب بن گئی یہ لوگ بہت بڑے بڑے قد آور اور ان کے مکانات محلات کی صورت میں تھے مگر ہوا نے سب کچھ اکھاڑ پچھاڑ کر تباہ کردیا درخت اکھڑ گئے مکان تباہ ہوگئے اور انسان اور جانور ہوا میں اڑ اڑ کر زمین پر گرتے اور ٹوٹ پھوٹ جاتے تھے ہوا سخت تیز اور چیختی ہوئی تھی مگر جن کے دل روشن تھے حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان کے لیے ایک گھیرا سا بنا دیا اس کے اندر موسم معتدل رہا اور ہوا رحمت باری کی نوید سناتی رہی وہی ہوا جو دائرے سے باہر غضب الہی کا مظہر تھی۔ یہ عذاب ان پر اس وقت آیا جب انہوں نے مسلسل نافرمانی کرکے اپنے قلوب کو ایمان قبول کرنے کی استعداد سے محروم کرلیا اس قدر سیاہی اور تاریکی دلوں پر چھا گئی کہ وہ رحمت باری سے محروم ہو کر غضب کی لپیٹ میں آگئے اسی لیے فرمایا۔ وماکانوا مومنین۔ یعنی وہ ایمان لانے والے تھے ہی نہیں۔
Top