Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 65
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : تو کیا تم نہیں ڈرتے
اور عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھی (ہم نے رسول بنا کر بھیجا)4 تو اس نے بھی یہی کہا کہ اے میری قوم تم بندگی کرو اللہ کی، کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، تو کیا تم لوگ ڈرتے نہیں ؟
89 پیغمبر کے اپنی قوم کے بھائی ہونے کی تصریح : یعنی انکے قومی بھائی کہ آپ (علیہ السلام) تھے تو اسی قوم میں سے۔ پس معلوم ہوا کہ اس طرح کے اعتبارات سے پیغمبر کو بھائی کہنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ قرآن و سنت کی نصوص صریحہ سے ثابت ہے۔ سو ایسا کہنا اور ماننا نہ برا ہے نہ ممنوع۔ اور قرآن و سنت کی دوسری بہت سی نصوص بھی اس کی شاہد و موید ہیں، جیسا کہ ہمارے حضور۔ (علیہ الصلوۃ والسلام) ۔ نے اپنے لئے خود یہ لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اور کئی مواقع پر فرمایا ہے۔ جیسا کہ مختلف احادیث میں موجود ہے۔ پس ایسی ہی ایک حدیث کے ترجمہ و تشریح کرنے پر اہل بدعت نے حضرت شاہ اسماعیل شہید ۔ (رح) ۔ پر جو بہتان طرازی کی اور جس یا وہ گوئی سے انہوں نے کام لیا ہے وہ باطل و مردود اور ان لوگوں کی جہالت و ہٹ دھرمی کا شاخسانہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف پیغمبر کے اپنی قوم میں سے ہونے میں اس قوم کیلئے اللہ تعالیٰ کا خاص انعام و احسان ہے تاکہ وہ لوگ اس کی بات کو سمجھ سکیں اور اس سے پوری طرح استفادہ کرسکیں۔ (تفسیر المراغی وغیرہ) ۔ اسی لیے قرآن حکیم میں قدرت کے اسی انعام و احسان کو جابجا " مِنْکُمْ " " تم ہی سے " اور " مِنْہُمْ " ’ ’ انہی میں سے " وغیرہ جیسے کلمات کریمہ سے واضح فرمایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود کتنے ہی اہل زیغ ایسے ہیں جو اس حقیقت صادقہ کو ماننے اور تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اور وہ اس طرح کی نصوص صریحہ اور کلمات کریمہ میں طرح طرح کی تاویلات اور تحریفات سے کام لیتے ہیں۔ اور اس طرح وہ اپنے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے جاہلوں کی گمراہی اور ان کے انحراف کا سامان کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ 90 معبود برحق اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے : اور جب اس وحدہ لاشریک کے سوا اور کوئی معبود سرے سے ہے ہی نہیں تو پھر اس کے سوا کسی اور کے لئے عبادت و بندگی کی کسی بھی شکل و صورت کے جائز اور روا ہونے کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے ؟ پس عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل و صورت اسی معبود برحق کا خاصہ اور اسی کا حق ہے۔ خواہ وہ بدنی ہو یا مالی یا کوئی اور قسم۔ لہذا قیام و رکوع اسی وحدہ لاشریک کے لئے، سجدہ و طواف اسی کے لئے، نذر و نیاز اسی کے لئے اور غائبانہ صدا و پکار اسی کے لئے کہ حاجت روائی و مشکل کشائی اسی کی شان اور اسی کا اختصاص ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ ان میں سے کسی بھی قسم کو اور کسی بھی شکل و صورت میں کسی اور ہستی کو شریک ماننا شرک اور ظلم ہوگا جو کہ نہایت سنگین و ہولناک گناہ اور ناقابل معافی جرم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اسی لئے حضرات انبیائے کرام میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی امت کو سب سے پہلے توحید کے اسی عقیدئہ صافیہ کی دعوت دی۔ اور حضرت امام الانبیاء ۔ علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام ۔ نے تو توحید کی اس دعوت کو کمال توضیح اور بِمَا لَا مَزِیْدَ عَلَیْہ صراحت و وضاحت کے ساتھ پیش فرمایا۔ مگر افسوس کہ اس کے باوجود آج کتنے ہی جاہل مسلمان ایسے ہیں جو طرح طرح کی شرکیات میں پڑے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ انہوں نے کتنی ہی خودساختہ سرکاریں بنا رکھی ہیں، جہاں وہ سجدے کرتے، سر ٹیکتے، جھک جھک کر سلام کرتے، ان کو مافوق الاسباب طور پر اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کیلئے پکارتے، ان کے نام کی نذریں مانتے، نیازیں دیتے، چڑھاوے چڑھاتے، دیگیں پکاتے، پھیرے مانتے اور چکر لگاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر بھی دعویٰ ہے کہ ہم مسلمان اور پکے توحیدی ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اگر ایسے کھلے شرکیہ امور کا ارتکاب بھی شرک نہیں تو پھر شرک اور کس بلا کا نام ہے ؟ کیا اس کے سر پر کوئی سینگ ہوتے ہیں ؟ ۔ والعیاذ باللہ -
Top