Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 65
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : تو کیا تم نہیں ڈرتے
اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو (ہم نے رسول بنا کر بھیجا) آپ نے کہا ، اے میری قوم ! عبادت کرو اللہ کی ، نہیں ہے تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود کیا تم ڈرتے نہیں
ربط آیات گزشتہ رکوع سے اللہ تعالیٰ نے تاریخ انبیاء کا بیان شروع کیا ہے جس میں ان کی دعوت الی التوحید اور طریقہ تبلیغ کا ذکر ہے حضرت نوح (علیہ السلام) کی شخصیت ، آپ کی دعوت اور قوم کا جواب بیان ہوچکا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے نبی کی دعوت کا انکار کیا آپ کی نافرمانی کی اور آپ پر گمراہی کا الزام لگایا اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے چند اہل ایمان کے علاوہ پوری قوم کو غرق کردیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ساری قوم اندھی تھی یعنی دل کی بصیرت سے محروم تھی نوح (علیہ السلام) نے تبلیغ دین اور خیر خواہی کا پورا پورا حق ادا کیا قوم کو ہر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی مگر انہوں نے کوئی اثر قبول نہ کیا اور عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے۔ قوم عاد قوم عاد کا حال یہاں اس سورة کے علاوہ سورة یونس ، سورة ہود ، سورة شعراء ، سورة عنکبوت ، سورة احقاف اور بعض دیگر سورتوں میں بھی ذکر کیا گیا ہے یہ لوگ عرب کے صحرائے اعظم میں وادی دھنا میں رہتے تھے احقاف ریت کے ٹیلوں کو کہتے ہیں اور انہی کے درمیان یہ قوم آباد تھی حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد اس قوم نے دنیا میں بڑا عروج حاصل کیا ان کی بنائی ہوئی مضبوط عمارات اور خاص طور پر یمن میں تعمیر شدہ غمد ہزاروں سال تک قائم رہے اس کے کھنڈرات حضور ﷺ کے زمانہ مبارک تک بھی موجود تھے ان کی طرز تعمیل ویسی ہی تھی جیسے مصر کے اہرام آج بھی موجود ہیں یہ اہرام ساڑھے چار سو فٹ سے لے کر پانچ سو فٹ تک عبندسہ گوشہ مینار ہیں جو چھ ہزار سالہ پرانی تاریخ کے حامل ہیں مورخین کے بیان کے مطابق ان میں دوہرم حضرت شیث (علیہ السلام) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کی قبروں پر بنائے گئے ہیں باقی احرام میں بھی بعض فراعین کی لاشیں ممی کرکے رکھی گئی تھیں یہ عمارات بڑے بڑے اور مضبوط پتھروں سے اس طرح بنائی گئی تھیں کہ وہ ہر قسم کے حوادثات سے محفوظ رہیں نیز ان کے راستے اس قدر پرپیچ بنائے گئے تھے کہ جوئی ناواقف شخص اندر داخل نہ ہوسکے آج بھی لوگ جیزا کا ہرم خاص طور پر دیکھنے کے لیے جاتے ہیں ان کا شمار دنیا کے عجائبات میں ہوتا ہے ان عمارات کے بعض پتھر پچھتر پچھتر من وزنی ہیں جنہیں عجیب طریقے سے اتنی بلندی تک چڑھایا گیا اور انہیں جوڑنے کے لیے خاص ترکیب اور خاص قسم کا مصالحہ استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے یہ آج تک اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ قرآن میں اس قوم عاد کی کئی خصوصیات بیان کی گئی ہیں مثلاً یہ قوم بڑی جسیم اور طاقتور تھی تفسیری روایات میں آتا ہے کہ اس قوم کے عام آدمیوں کے قد 12 ہاتھ یعنی 18 فٹ ہوتے تیھ بعض روایات میں 80 ہاتھ یعنی 120 فٹ کا ذکر بھی آتا ہے ان لوگوں کی جسمانی طاقت کے متعلق سورة شعراء میں موجود ہے واذا بطشتم جبارین جب وہ پکڑے تھے تو ایسا کہ کوئی ان کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکتا تھا اسی غیر معمولی قوت کی وجہ سے وہ لوگ غرور میں مبتلا ہوگئے کہتے تھے من اشد مناقوۃ (حم السجدۃ) ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے ؟ حضرت ہود (علیہ السلام) اسی قوم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا آپ کا نام عابر بھی بیان کیا جاتا ہے آپ سام کے بیٹے ارم کی چھٹی پشت میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام عبداللہ یا شالخ تھا آپ کی والدہ بھی قوم عاد ہی سے تھیں جن کا نام مقعمہ تھا علامہ جلال الدین سیوطی (رح) نے اپنی تاریخ کی کتاب حسن المحاضرۃ فی احوال المصر والقاھرۃ میں لکھا ہے کہ طوفان نوح کے 2600 سال بعد مبصرین بیصر کے دور حکومت میں حضرت ہود (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی آپ 460 یا 480 سال تک زندہ رہے اور قوم میں تبلیغ کرتے رہے قوم نے انکار کیا اور سرکشی اختیار کی جس کی وجہ سے ان پر عذاب نازل ہوا دوسری سورتوں میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیز ہوا بھیج کر ساری قوم کو ہلاک کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے والی عاد اخاھم ھوداً ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) (کو رسول بنا کر بھیجا) اس آیت کا عطف گزشتہ رکوع کی ابتدائی آیت پر ہے وہاں تھا لقد ارسلنا نوحاً الی قومہ یعنی ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرب بھیجا اور یہاں پر ہود (علیہ السلام) کا اپنی قوم عاد کی طرف مبعوث ہونے کا ذکر ہے البتہ لقد ارسلنا کے الفاظ محذوف ہیں۔ یہاں پر ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہا گیا ہے قوم اور بھائی کے الفاظ عام ہیں بھائی بندی کا اطلاق کبھی نسلی لحاظ سے ہوتا ہے اور کبھی وطنیت کے اعتبار سے ہوتا ہے بعض اوقات لسانی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں اور کبھی دینی اشتراک کی وجہ سے بھائی بھائی کہلاتے ہیں یہاں پر معاملہ یہ ہے کہ قوم عاد ساری کی ساری کافر ہے اور ہود (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ نبی ہیں ظاہر ہے کہ دینی اشتراک کی بنا پر تو قوم اور ہود علیہ لاسلام کے درمیان بھائی بندی نہیں ہوسکتی البتہ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ سب لوگ ارم کی اولاد سے تھے اس لیے ایک دوسرے کے بھائی تھے بعض اوقات مختلف ادیان رکھنے والے مگر ایک وطن کے باشندے بھی ایک دوسرے کے بھائی کہلاتے ہیں وطن سے باہر جب دو آدمی ملتے ہیں تو وہ مختلف خاندان یا مختلف مذاہب رکھنے کے باوجود پاکستانی بھائی کہلاتے ہیں اسی طرح ایک زبان بولنے والے بھی لسانی بھائی کہلا سکتے ہیں غرضیکہ حضرت ہود (علیہ السلام) اور آپ کی قوم میں دینی اشتراک تو یہ تھا البتہ وہ نسلی ، وطنی اور لسانی لحاظ سے ایک دوسرے کے بھائی تھے چناچہ اسی وجہ سے اللہ نے اخاھم ھودا فرماتا ہے کہ اللہ نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا حضرت ہود (علیہ السلام) کا تعلق اسی نسل ، خاندان اور وطن سے تھا جس سے باقی قوم کا تھا لہٰذا آپ ان کے بھائی تھے۔ درس توحید بہرحال جب ہود (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوئے تو انہوں نے اپنی قوم کو سب سے پہلے توحید کا درس دیا اور فرمایا قال یقوم العبدواللہ اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو انبیاء کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں انبیاء کا اولین درس توحید ہی رہا ہے تمام نبیوں نے لوگوں کو سب سے پہلے توحید کی دعوت دی پھر تمام سلف صالحین اور مرشدان برحق بھی انبیاء کے اتباع میں سب سے پہلے توحید ہی کا سبق پڑھاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی عمل شروع کرنے سے پہلے عقیدہ کی پاکیزگی ضروری ہے اور اس کے لیے توحید و رسالت کی گواہی لازمی ہے یعنی انسان دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرے اور حضور خاتم النبیین علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لائے چناچہ دوسرا انبیاء کی طرح ہود (علیہ السلام) نے بھی یہی کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو مالکم من الہ غیرہ اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں کوئی مشکل کشا اور حاجت روا نہیں اس کے بغیر کوئی منافع اور ضار نہیں وہی قادر مطلق ہے وہی عالم الغیب ہے مافوق الاسباب ہر چیز پر اسی کا تسلط ہے لہٰذا جو ذات ان صفات کی حامل ہے اس کے سوا الٰہ بھی کوئی نہیں ہوسکتا جب یہ عقیدہ راسخ ہوجائے گا تو انسان کی فکر پاک ہوجائے گی اور پھر اس کی ہر عبادت اور ریاضت بھی ٹھکانے لگے گی اگر فکر ہی فاسد رہی تو پھر کوئی عبادت کسی کام نہ آئے گی لہٰذا سب سے پہلے توحید کے ذریعے خدا تعالیٰ کی پہچان کرنا ضروری ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت معاذ ؓ کو یمن کا گورنر بناکر بھیجا تو فرمایا وہاں پر یہود و نصاریٰ ہیں انہیں سب سے پہلے توحید و رسالت کی دعوت دینا فاذا ھم عرفو ذلک پھر جب وہ اس بات کو پہچان لیں تو پھر انہیں پانچ نمازوں ، مہینہ بھر کے روزوں ، زکوٰۃ اور حج کا حکم دینا مقصد یہی تھا کہ جب تک انہیں اللہ رب العزت کی پہچان نہ ہوجائے اس وقت تک عبادات کا کچھ فائدہ نہیں لہٰذا سب سے پہلے انہیں توحید کی دعوت دے کر ان کی فکر کو پاک کرنا اور پھر باقی احکام کی تبلیغ کرنا مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حشر کے دن خدا تعالیٰ کی مختلف تجلیات کا ظہور ہوگا مگر مومن لوگ انکار کردیں گے پھر جب مومنوں کی جانی پہچانی شکل میں تجلی ظاہر ہوگی تو وہ فوراً تسلیم کرلیں گے کہ یہ یہی ہمارا رب ہے مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اولین چیز ہے تمام انبیاء اسی کی تلقین کرتے رہے اور سب سے پہلا درس توحید کا دیتے رہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام عکاظ کی منڈی میں جا رہے تھے اور فرما رہے تھے یا یھا الناس قولو لا الا اللہ تفلحو اے لوگو ! لا الہ الا اللہ کہہ دو تو فلاح پاجائو گے پیچھے سے ایک بڑا خوبصورت اور وجیہہ آدمی پتھر مارتا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ لوگو ! اس شخص کی بات نہ سننا ، یہ دیوانہ ہے ، یہ شخص ابولہب تھا غرضیکہ حضور ﷺ نے بھی سب سے پہلے لوگوں کو توحید ہی کی دعوت دی اسی طرح ہود (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو یہی دعوت دی کہ اللہ کی عبادت کرو جس کے سوا کوئی معبود نہیں فرمایا افلا تتقون کیا تم اللہ تعالیٰ کی گرفت سے ڈرتے نہیں یاد رکھو ! اگر شرک کا ارتکاب کروگے تو ضرور پکڑے جائو گے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو قبول کرلو۔ قوم کی الزام تراشی دعوت توحید کے جواب میں قال الملا الذین کفرو من قومہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم میں سے کفر کرنے والوں کے سربرآدردہ لوگوں نے کہا انا لنرک فی سفالمۃ اے ہود (علیہ السلام) ! ہم تو تمہیں بےوقوفی میں دیکھتے ہیں (العیاذ باللہ) قوم نے دعوت توحید قبول کرنے کی بجائے الٹا اپنے نبی پر بےوقوفی کا الزام لگادیا حالانکہ اللہ کا نبی تو اعقل الناس یعنی پوری امت میں سبے زیادہ عقلمند ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بڑی فوقیت دیتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ عام انسانوں میں پانچ باطنی حواس ہوتے ہیں جب کہ نبی میں اللہ نے چھٹا حاسہ بھی رکھا ہوتا ہے جس کے ذریعے اسے وحی الٰہی کا ادراک ہوتا ہے اللہ کا نبی کمال درجے کا ذہین ، دانا اور کمال درجے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے مگر قوم کے سرداروں نے کہا کہ ہم تو تجھے بیوقوف جانتے ہیں العیاذباللہ تم بہکی بہکی باتیں کرتے ہو تم ہمیں آبائو اجداد کی رسوم سے ہٹانا چاہتے ہو تم ہمیں اسلاف کے بتوں کی پوجا سے روکنا چاہتے ہو جیسا کہ اگلے درس میں آرہا ہے کہ قوم نے کہا کہ اے ہود (علیہ السلام) ! کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک خدا کی پوجا کریں ونذر ماکان یعبد ابائونا اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ان لوگوں نے واقعی بیشمار معبود بنا رکھے تھے ہر مقصد کے لیے الگ معبود تھا کوئی بارش برسانے والا ، کوئی روزی دینے والا ، کوئی اولاد عطا کرنے والا اور کوئی بگڑی بنانے والا بھلا وہ اتنے معبودوں کو یکدم چھوڑ کر صرف ایک معبود برحق پر کیسے اکتفا کرسکتے تھے ان کی سمجھ میں ہی یہ بات نہ آتی تھی کہ جو کام اتنے سارے معبود مل کر کرتے ہیں وہ اکیلا خدا کیسے کرسکتا ہے لہٰذا انہوں نے ہود (علیہ السلام) سے کہہ دیا کہ تو بہکی بہکی اور بیوقوفی کی باتیں کرتا ہے۔ یہ سفاہت کا مسئلہ آج کل بھی بدستور چل رہا ہے آج بھی ایسے لوگ دنیا میں موجود ہیں جو حق کی بات کہنے والے پر بےوقوفی کا الزام لگاتے ہیں بڑے بڑے سرداران قوم ، دولت مند ، صاحب جاہ و اقتدار اور ملوک غریب دینداروں کو انہی القاب سے ملقب کرتے ہیں یہ مولوی اور ملا ہے بڑا نمازی اور پرہیز گار بنا پھرتا ہے داڑھی کا لیبل لگا رکھا ہے اسے کیا پتہ کہ دنیا کدھر جارہی ہے لوگ آسمانوں پر کمندیں ڈال رہے ہیں اور یہ ابھی تک پاکی پلیدی کے مسائل میں پھنسا ہوا ہے یہ بالکل وہی بات ہے جو قوم عاد نے اپنے عظیم المرتبت نبی حضرت ہود (علیہ السلام) سے کہی تھی کہ ہم تو تجھے بیوقوف سمجھتے ہیں۔ اور دوسری بات جو قم نے اپنے نبی سے کہی تھی وہ یہ تھی وانا لنظنک من الکذبین ہم تو تجھے جھوٹا خیال کرتے ہیں تم جھوٹ بولتے ہو کہ خدا نے تم پر وحی نازل کی ہے اس قسم کی لغو گوئی گزشتہ سورة میں میں گزر چکی ہے ما انزل اللہ علی بشرمن شی (الانعام) یعنی خدا تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی چیز نازل نہیں فرمائی یہ اپنی چودھراہٹ جمانے کے لیے وحی کے نزول کا دعویٰ کرتا ہے ہر نبی کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہا ہے چناچہ فرعون ، ہامان اور فارون تینوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق سحرکذاب (المومن) کہا کہ تم جادوگر ہو اور جھوٹے بھی ہو ، ابوجہل اور اس کی پارٹی نے بھی حضور ﷺ کے متعلق اہل ایمان سے کہا ” ان تتبعون الا رجلاً مسحورا (بنی اسرائیل) کہ تم تو ایک سحر زدہ آدمی کا اتباع کر رہے ہو بہرحال قوم عاد نے بھی حضرت ہود (علیہ السلام) کو بیوقوف اور جھوٹاکہا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کا جواب اس کے جواب میں حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا قال یقوم لیس بی سفاھۃ اے میری قوم کے لوگو ! میرے اندر کسی قسم کی بےعقلی کی بات نہیں ہے برخلاف اس کے ولکنی رسول من رب العلمین میں تو تمام جہانوں کے رب کا فرستادہ رسول ہوں اور میرا کام یہ ہے ابلغکم رسلت ربی میں اپنے رب کے پیغام تم تک پہنچاتا ہوں انسانیت کا ہر فرد خواہ نبی ہوا یا پیرو مرشد وہ لوگوں کی خیر خواہی کی بات کرتا ہے تاکہ وہ برائی سے بچ جائیں اور بالآخر جہنم سے خلاصی پا جائیں حضور ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ میری اور تمہاری مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص آگ جلانے اور اس پر پروانے پتنگے اکٹھے ہوجائیں پھر وہ کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح یہ کیڑے مکوڑے آگ میں جلنے سے بچ جائیں وہ انہیں آگ کے قریب آنے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ ادھر جانے سے باز نہیں آتے اور آگ میں جل مرتے ہیں فرمایا اسی طرح میں بھی تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ پکڑ کر آگ سے پیچھے ہٹاتا ہوں کہ اللہ کے بندو ! اس غلط راستے پر نہ جائو آگے جہنم ہے مگر تم میری بات نہیں مانتے اور جہنم میں جانے کی کوشش کرتے ہو فرمایا ہر نیک انسان نے لوگوں کو جہنم سے بچانے کی کوشش کی ہے مگر اکثریت ہمیشہ غلط راستے پر ہی چلی ہے شیطان کی پارٹی کو ہمیشہ عددی برتری حاصل رہی ہے فرمایا تم مجھے جھوٹا کہتے ہو مگ میں امین ہوں اللہ کے پیغام میں بال برابر بھی کمی بیشی نہیں کرتا اور من وعن تم تک پہنچا دیتا ہوں اللہ تعالیٰ کے پیغام اور اس کے احکام میں کسی قسم کی خیانت کرنا قطعی حرام ہے میں امین ہوں اور اپنے منصب کے مطابق اللہ کا حکم پہنچاتا ہوں۔ فرمایا اوعجلبتم ان جاء کم ذکرمن ربکم کیا تم اس بات میں تعحیب کرتے ہو کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آئی ہے علی رجل منکم تمہی میں سے ایک مرد پر یعنی میں تمہاری قوم اور تمہارے ہی خاندان کا ایک فرد ہوں اور اس میں تعجب کی کون سی بات ہے کہ مجھ پر اللہ کی وحی نازل ہوئی ہے جس میں تمہارے لیے نصیحت ہے میری پوری زندگی تمہارے سامنے ہے تم میرے اخلاق و کردار سے واقف ہو اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ رکھا ہے لہٰذا مجھ پر وحی نازل ہونے میں تمہیں کیا اعتراض ہے اور وحی الٰہی کا مقصد تو یہ ہے لینذر کم تاکہ اللہ کا نبی تمہیں برے انجام سے ڈرائے کسی انسان پر وحی کا نزول کوئی توہین کی بات نہیں بلکہ یہ تو اعلیٰ درجے کی فضیلت کی بات ہے۔ تذکرہ انعامات الٰہیہ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو ان پر کیے جانے والے انعامات یاد دلاتے ہوئے فرمایا واذکرو اذجعلکم خلفاء من بعد قوم نوح یاد کرو جب کہ تمہیں قوم نوح کے بعد خلیفہ بنایا درمیان میں کسی قوم کو اتنا عروج حاصل نہیں ہوا جتنا انہیں ہوا اس کے علاوہ وزادکم فی الخلق بصطۃ تمہارے جسموں کو کشادہ بنا دیا تمہارے جسموں کو مضبوط اور طاقتور بنایا ظاہری اور باطنی قوتوں سے نوازا مال و دولت اور حکومت عطا فرمائی فاذکرو الاء اللہ اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرو لعلکم تفلحون تاکہ تم صلاح پا جائو اگر ان نعمتوں کی قدر دانی کرو گے تو کامیاب ہوجائو گے ورنہ ناکام ہوگے اگر دنیا میں مصلحت خدا وندی کے تحت بچ بھی گئے تو آخرت کے عذاب سے نہیں بچ سکو گے اور اس طرح دائمی فلاح سے محروم ہوجائے گے اسی لیے فرمایا کہ خدا کی نعمتوں کو یاد کرو اور ان کا شکریہ ادا کرو سب سے بڑی شکر گزاری یہ ہے کہ اس کی وحدانیت کو تسلیم کرو ، شرک اور کفر کو اختیار نہ کرو۔ یہ ہود (علیہ السلام) کی قوم کے سامنے تقریر ہے اب اگلے درس میں قوم کے جواب کا ذکر ہوگا۔
Top