Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 65
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : تو کیا تم نہیں ڈرتے
اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو، تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کیا تم ڈرتے نہیں
(1) امام ابن منذر نے کلبی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والی عاد اخاھم ھودا “ یعنی وہ ان کے دین کے بھائی نہیں تھے لیکن وہ ان کے نسبی بھائی تھے کیونکہ ھود (علیہ السلام) ان میں سے نہ تھے۔ اس لئے آپ کو ان کا بھائی کہا گیا۔ (2) امام اسحاق بن بشیر اور ابن عساکر نے شرفی بن قطامی (رح) سے روایت کیا کہ ھود کا نام عابر بن شالح بن ارفشخد بن سام بن نوح تھا۔ (3) امام ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ وہ لوگ گمان کرتے تھے کہ ھود (علیہ السلام) کا تعلق ایک قبیلہ بنی عبد الخضم سے تھا۔ (4) امام اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے عطاء کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ھود پہلے آدمی تھے جو عربی میں بات کرتے تھے اور ھود (علیہ السلام) کے چار لڑکے تھے قحطان، مقحط، قاحط اور فالغ اور یہی ابو مضر ہیں اور قحطان ابو الیمن تھے اور باقیوں کی نسل نہیں چلی۔ (5) امام اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے مقاتل کے طریق سے ضحاک سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جو ابن اسحاق کی سند سے مخصوص افراد سے اور کلبی کی سند سے نقل کیا ہے ان سب نے فرمایا کہ عاد بت پرست تھے جو ان کی عبادت کرتے تھے۔ انہوں نے بت بنائے ہوئے تھے مثل ود، سواع، یغوث اور نسر کے۔ انہوں نے ایک بت بنایا ہوا تھا جس کو صمود کہتے تھے اور ایک بت بنایا ہوا تھا جس کو الھتار کہتے تھے ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ہود کو بھیجا اور ھود ایک قبیلہ میں سے تھا جس کو خلود کہتے تھے۔ آپ نسب کے اعتبار سے شریف اور شکل و صورت کے اعتبار سے انتہائی حسین تھے۔ آپ جسمانی اعتبار اے اپنے زمانے کے لوگوں کی نسبت سفید جسم رکھتے تھے باریش تھے اور داڑھی مبارک خاصی لمبی تھی۔ آپ نے ان کو اللہ کی طرف بلایا اور ان کو حکم دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کریں اور لوگوں پر ظلم کرنے سے رک جانے کا حکم دیا۔ اور ان کے علاوہ ان کو کوئی حکم نہ دیا۔ ان کو شریعت کی طرف یا نماز کی طرف نہیں بلایا۔ انہوں نے اس کا انکار کردیا اور آپ کو جھٹلا دیا اور قوم نے کہا ہم سے کون زیادہ قوت والا ہے اور بہادر ہے ؟ اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” والیٰ عاد اخاھم ھودا “ یہ ان کی قوم میں سے تھے ورنہ دین کے اعتبار سے ان کے بھائی نہ تھے۔ لفظ آیت ” قال یقوم اعبدوا اللہ “ یعنی ایک اللہ کو مانو ” ولا تشرکوا بہ شیئا “ تم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ ” مالکم من الہ غیرہ، افلا تتقون “ یعنی کیوں تم نہیں ڈرتے ہو۔ ” وذکروا اذ جعلکم خلفاء “ یعنی تم ٹھہرایا ” فی الارض من بعد قوم نوح “ سو کس طرح تم عبرت حاصل نہیں کرتے ہو۔ کہ تم ایمان لے آؤ حالانکہ تم نے جان لیا جو کچھ قوم نوح پر عذاب نازل ہوا جب انہوں نے نافرمانی کی۔ ” فاذکروا الاء اللہ “ یعنی ان نعمتوں کو یاد کرو ” لعلکم تفلحون “ شاید کہ تم فلاح کو پہنچ جاؤ۔ ان کے گھر ریت کے بنے ہوئے تھے۔ اور احقاف ایک ریت ہے اور وہ یمن میں عمان اور حضرموت کے درمیان آباد تھے اور اس کے باوجود انہوں نے ساری زمین میں فساد کیا اور زمین کے رہنے والوں پر اپنی وافر قوت کے سبب غلبہ پالیا۔ جو ان کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی۔ (6) امام ابن ابی حاتم نے ربیع بن خثیم (رح) سے روایت کیا کہ قوم عاد یمن اور شام کے درمیان مثل چونٹنی کے تھے۔ (7) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ بلاشبہ قوم عاد یمن میں ریت کے گھروں میں آباد تھے اور احقاف سے مراد ہے ریت اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول لفظ آیت ” واذکروا اذ جعلکم خلفاء من بعد قوم نوح “ فرمایا اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم کو ختم کیا۔ ” واستخلفکم من بعد قوم نوح وزادکم فی الخلق بصطۃ “ اور ان کے بعد تمہیں ان کا جانشین بنایا اور جسمانی لحاظ سے قدوقامت میں تم کو زیادہ کردیا۔ قوم عاد کی جسمانی قوت (8) امام ابن عساکر نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ عاد میں سے ایک آدمی ساٹھ ہاتھ لمبا تھا ان ہاتھوں کے مطابق اور آدمی کے کھوپڑی بڑے قبہ کی طرح تھی۔ اور آنکھیں اتنی بڑی تھیں کہ اس میں درندے بچے جن سکتے تھے اور اسی طرح ان کے ناک کے نتھنے تھے (9) امام عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” وزادکم فی الخلق بصطۃ “ کے بارے میں فرمایا ہم کو یہ بات کی گئی کہ وہ لوگ بارہ باہ ہاتھ لمبے تھے۔ (10) امام ابن مردویہ نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی تم سے پہلے لوگوں میں سے (اتنا بڑا تھا) کہ ان کے دونوں کندھوں کے درمیان میل کا راستے تھا۔ (11) امام حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی پیدائش میں اسی باع (یعنی دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر تھا۔ اور ان میں گندم کا ایک دانہ گائے کے گردے کی طرح تھا اور ایک انار (اتنا بڑا تھا) کہ اس کے چھلکے میں دس آدمی بیٹھ سکتے تھے۔ (12) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وزادکم فی الخلق بصطۃ “ سے مراد ہے ” شدۃ “ یعنی قوت اور طاقت۔ (13) امام عبد اللہ بن احمد نے زوائد الزھد میں اور ابن ابی حاتم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ قوم عاد میں سے ایک آدمی پتھر کو کواڑ بنا لیتا تھا۔ اگر اس پر اس امت کے پانچ سو آدمی جمع ہوجائیں تو اس کو (دوسری جگہ) منتقل نہیں کرسکتے اگر ان میں سے کوئی آدمی اپنا قدم زمین میں داخل کرنا چاہے تو وہ اس کو داخل کر دے۔ (14) امام زبیر بن بکار نے موفقیات میں ثور بن زید دیلمی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ایک کتاب پڑھی (اس میں یہ لکھا ہوا تھا) کہ میں شداد بن عاد ہوں میں وہ ہوں جس نے بلند وبالا عمارتیں بنائیں میں وہ ہوں جس نے چودھویں کے چاند کو بطن وادی سے روک دیا اور میں ہوں کہ جس نے سمندر میں ایک خزانہ جمع کیا ہے تو ہاتھ پر نہیں نکالے گی اس کو مگر محمد ﷺ کی امت۔ (15) امام ابن بکار نے ثور بن زید (رح) سے روایت کیا کہ میں یمن آیا اچانک میں ایک ایسے آدمی کے پاس تھا کہ میں نے کبھی اتنا لمبا آدمی نہیں دیکھا میں نے (دیکھ کر) تعجب کیا لوگوں نے کہا تو اس سے تو تعجب کرتا ہے ؟ میں نے کہا اللہ کی قسم میں نے اس جیسا لمبا آدمی کبھی نہیں دیکھا۔ لوگوں نے کہا اللہ کی ہم نے پایا ایک پنڈلی کو یا ذراع کو تو ہم نے اس ذراع کے ساتھ اس کا ناپا تو ہم نے اس کا پایا سولہ ذراع۔ (16) امام زبیر بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ پہلے زمانہ میں چار سو سال گزر جاتے تھے کہ اس میں کسی جنازہ (کے بارے میں) نہیں سنا جاتا تھا۔ (17) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” الاء اللہ “ سے مراد ہے اللہ کی نعمتیں اور جس سے مراد ہے غصہ۔ (18) امام ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” قد وقع علیکم من ربکم “ کے بارے میں فرمایا کہ ان کے پاس اس میں عذاب آیا اور قرآن میں رجس سے مراد عذاب ہے۔ (19) امام طستی نے ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ نافع بن ازرق نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (حسن و غضب) کے بارے میں بتائیے انہوں نے فرمایا کہ رجس سے مراد ہے لعنت اور غضب سے مراد ہے عذاب پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے شاعر کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا : اذا سنۃ کانت بنجد محیطۃ وکان علیہم رجسھا وعذابھا ترجمہ : جب خشک سالی نجد کو گھیرے ہوئے تھی اور ان پر اس کا غصہ اور اس کا عذاب تھا۔
Top