Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 65
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : تو کیا تم نہیں ڈرتے
اور اسی طرح قوم عاد کی طرف انکے بھائی ھود کو بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ بھائیوں خدا ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ کیا تم ڈرتے نہیں ؟
قولہ تعالیٰ : آیت : والی عاد اخاھم ھودا یعنی اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی حضرت ہود (علیہ السلام) کو بھیجا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے : مراد یہ ہے کہ آپ ان کے باپ کے بیٹے تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : آپ قبیلہ میں ان کے بھائی تھے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آۃ پ ان کے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک بشر ( اور انسان) تھے۔ اور مصنف ابی داؤد میں ہے کہ اخاھم ھودا کا معنی ہے ان کے ساتھ ہودعلیہ السلام ( کو ان کی طرف بھیجا) اور عاد سام بن نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے۔ ابن اسحاق نے نسب اس طرح بیان کیا ہے : عاد ھو ابن عوص بن ارم بن شالغ بن ارفخشد بن سام بن نوح (علیہ السلام) (معالم التنزیل، جلد 2، صفحۃ 489) اور حضرت ہود (علیہ السلام) کا نسب اس طرح ہے : ھود ھو ھود بن عبداللہ بن رباح بن الجلود بن عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 489) ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو عاد کی طرف نبی بنا کر بھیجا۔ آپ نسب کے اعتبار سے ان میں سے اعلیٰ اور حسب کے اعتبار سے ان سے افضل تھے۔ اور عاد کو جس نے منصرف نہیں بنایا اس نے اسے قبیلہ کا نام قرار دیا اور جس نے اسے منصرف قرار دیا ہے اس نے اسے محلے کا نام قرار دیا ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے : حضرت ابی اور حضرت ابن مسعود ؓ کے الفاظ میں ہے : عاد الاولی یہ بغیر الف کے ہے۔ اور ہود عجمی لفظ ہے اور یہ اپنے خفیف ہونے کی وجہ سے منصرف ہے، کیونکہ اس کے حروف تین ہیں۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ عربی ہو اور ھاد یھود سے مشتق ہو۔ اور اس پر نصب ( زبر) بدل ہونے کی وجہ سے ہو۔ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ حضرت ہود (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان سات آباء کا فاصلہ تھا۔ اور روایت ہے کہ عاد کے تیرہ قبیلے تھے، وہ ٹیلوں پر اترتے تھے، ان میں سے ایک عالج کا ٹیلہ تھا۔ ان کے پاس باغات، کھیتیاں اور بڑی بڑی عمارتیں تھی اور ان کے شہر بڑے سر سبز و شادات تھے، پھر اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہوگیا تو اس نے اس پر سر زمین کو جنگل بنا دیا اور یہ حضرموت کے نواح سے یمن تک تھی اور وہ بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کو ہلاک کردیا تو حضرت ہود (علیہ السلام) ان لوگوں کے ہمراہ مکہ مکرمہ میں تشریف لائے جو آپ کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ اور پھر وہ وہیں رہے یہاں تک کو وصال فرماگئے۔ آیت : انا لنرٰک فی سفاھۃ یعنی بلاشبہ ہم آپ کو نادان اور کم عقل دیکھ رہے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا ہے : مشین کما اھتزت رماح تسفھت اعالیھا مر الریاح النواسم (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 417) یہ معنی سورة البقرہ میں پہلے گزر چکا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس میں اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں رویت سے مراد رویۃ البصر ( آنکھ کی بصارت ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بھی جائز ہے کہ اس سے مراد وہ رائے ہے جو ظن غالب ہوتا ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : واذکروا اذ جعلکم خلفاء من بعد قوم نوح اس میں خلفآء مذکر اور معنی کی بنا پر خلیفہ کی جمع ہے اور لفظ کی بنا پر خلائف کی جمع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان یہ فرمایا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بعد انہیں زمین کا باسی بنا دیا۔ آیت : وزاد کم فی الخلق بسطۃ اور یہ بھی جائز ہے کہ بصطۃ صاد کے ساتھ ہو، کیونکہ اس کے بعد طا ہے، یعنی قدوقامت کے اعتبار سے طویل اور جسم کے اعتبار سے بھاری کم اور عظیم الجثہ تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ان کے ( قدوں کی) زیادہ طوالت سوذراع تھی (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 170) ۔ اور ان میں سے جو چھوٹے قد کے تھے ان کی طوالت ساٹھ ذراع تھی۔ اور یہ زیادتی ان کے آبا کی تخلیق اور قد وقامت پر تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ زیادتی حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے قدوقامت پر تھی۔ وہب نے کہا ہے : ان میں سے کئی ایک کا سر عظیم اور بڑے قبہ کی مثل تھا۔ اور آدمی کی آنکھیں اتنی بڑی تھیں کہ ان میں درندہ بچے دے سکتا تھا اور اسی طرح ان کی ناک کے نتھنے تھے (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 491) ۔ شہر بن حوشب نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ قوم عاد کا ایک آدمی پتھر سے ( دروازے کے) دو کو اڑ بناتا تھا کہ اگر اس امت کے پچاس آدمی اس پر جمع ہوجائیں تو وہ اسے اٹھانے کی طاقت نہ رکھیں اور یہ کہ اگر کوئی اپنے پاؤں کے ساتھ زمین کو زور سے دباتا تو وہ اس میں گھس جاتا۔ آیت : فازکروا الآء اللہ یعنی تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو۔ الاء کی واحد الی، الی، الو اور الی ہے، جیسا کہ آنا کی واحد انی، ان، انو اور انی ہے۔ لعلکم تفلحون یہ پہلے گزر چکا ہے۔
Top