Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 65
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : تو کیا تم نہیں ڈرتے
اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو (بھیجا) اس نے کہا اے قوم ! اللہ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں پھر تم کیوں نہیں ڈرتے۔
ترکیب : ھودا بدل ہے اخاھم سے جو مفعول ہے فعل مخدوف کا ‘ اے ارسلنا ان جاء کم تبادیل مصدر مفعول ہے عجبتمکا من ربکم ذکر کی صفت یا حال علی رجل حال بھی ہوسکتا ہے اے نازلا علی رجل او جاء کم سے علی المعنی متعلق بھی ہوسکتا ہے لا نہ فی المعنی نزل الیکم وفی الکلام حذف مضاف اے علی قلب رجل او علی لسان رجل فی الخلق زاد کم سے متعلق وحدہ مصدر حال ہے اللّٰہ سے اے مفرد ایا فاعل لنعبد سے ای موحدین لہ ونذر معطوف ہے نعبد پر جو منصوب ہے ان مقدرہ سے ماکان الخ نذر کا مفعول۔ تفسیر : قوم عاد کا تذکرہ : یہاں سے دوسرا قصہ قوم عاد کا شروع ہوتا ہے یہ ایک قوم بعد طوفان نوح کے ملک عرب کے جنوبی حصہ میں آباد تھی۔ یہ لوگ عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں سے تھے۔ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پیشتر تھا۔ عرب کا وہ جنوبی حصہ کہ جس میں ان کی سکونت تھی یمن کہلاتا ہے اور یمن میں اس کا مسکن بمقام احقاف تھا کماقال تعالیٰ واذکر اخا عاد اذ انذر قومہ بالاحقاف وقد خلت النذر اور یہ ایک ریگستان ہے جس کو رمل عالج کہتے ہیں ان کی وسعت آبادی عمان سے لیکر حضرموت تک تھی۔ لیکن یہ قوم نہایت شہ زور اور قد آور اور سرکش تھی کما قال تعالیٰ واذکر اذ جعلکم خلفاء من بعد قوم نوح و زادکم فی الخلق بسطۃ اس لیے ان کی حکومت عرب کے اکثر حصوں پر تھی اس قوم کو عاد اولیٰ بھی کہتے ہیں یہ قوم بت پرست تھی جن بتوں اور دیوتائوں کی یہ پرستش کرتے تھے منجملہ ان کے ایک کا نام صدی تھا اور ایک کا ہرد اور ایک کا ہباد اس قوم کی ہدایت کے لیے خدا تعالیٰ نے انہیں کی قوم میں سے حضرت ہود (علیہ السلام) کو نبی کرکے بھیجا جو عبداللہ بن رباح بن خلود بن عاد کے بیٹے تھے انہوں نے سب سے اول اپنی قوم کو توحید کی تعلیم کی قال یا قوم اعبدواللّٰہ مالکم من الہ غیرہ اس بد بخت اور متکبر قوم نے ان کو دیوانہ بتایا اور جھوٹا ٹھہرایا اور کہا کہ کیا تیرے کہنے سے ہم اپنے سب معبودوں کو چھوڑ کر اکیلے خدا کی پرستش کرنے لگیں گے اور اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ دیں گے ؟ اس پر ہود (علیہ السلام) نے ان کو عذاب الٰہی سے خوف دلایا اور بہت کچھ سمجھایا مگر وہ کب ماننے والے تھے آخر یہی کہہ دیا کہ جس عذاب وقہر کا تو وعدہ کرتا ہے اسے لا تو سہی۔ اول بار خدا تعالیٰ نے ان پر تین برس کا قحط شدید ڈالا جس سے وہ عاجز آگئے مگر ایمان تب بھی نہ لائے۔ اس عہد میں عرب کی قوموں کا یہ دستور تھا کہ جب ان پر کوئی سخت مصیبت آتی تو اپنے چند لوگوں کو مکہ میں خدا سے دعا کرنے کو بھیجتے تھے اس مقدس جگہ میں اکثر دعا قبول ہوجاتی تھی۔ اس لیے اس قوم نے بھی قیل بن غز اور لقیم بن ہزال اور عبیل بن ضد اور مرثد بن سعد کو (یہ شخص در پردہ حضرت ہود (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا تھا) مکہ بھیجا کہ وہاں جا کر اللہ سے دعا کریں۔ یہ لوگ مکہ میں آکر ایک شخص معاویہ بن بکر کے گھر پر ٹھہرے جو ان کی قوم کا بھانجا اور نواسا تھا۔ اس نے ان کی خاطر تواضع کی مہینوں اس کے گھر پر کھانے کھاتے ‘ شراب پیتے رہے اس کی دو چھوکریاں گاناگانے والیاں تھیں ان کا خوب ناچ دیکھتے رہے۔ دعا وعاسب بھول گئے۔ وہاں یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے ایک روز سیاہ ابر نمودار کیا جس کو وہ ریگستان کے قحط زدہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ ھذا عارض ممطرنا اس ابر سے ضرور پانی برسے گا اور ابر کیا تھا قہر الٰہی تھا ایک سخت سیاہ آندھی اٹھی ہوئی آتی تھی بل ھو ما استعجلتم بہ فیھا عذاب الیم تد مرکل شیء بامر ربہا جب نزدیک آئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ آدمی اور اونٹ اور بڑے بڑے درخت چیلوں کی طرح آسمان میں اڑ رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر اپنے مکانوں اور امن کی جگہوں کی طرف دوڑے مگر قہر الٰہی سے کوئی کہاں بچ سکتا ہے چھپر اور مکان اڑنے لگے ‘ چھتیں اڑ گئیں ‘ دیواریں گر پڑیں۔ کچھ تو وہیں تمام ہوئے اور جو گھبرا کر باہر نکلا تو آندھی کے طوفانِ نے بہت بلند اٹھا کر پتھر یا زمین پردے مارا گرتے ہی چور چور ہوگیا یہ طوفان عظیم الشان سات رات آٹھ دن بررہا کما قال اللہ تعالیٰ فسخرھا علیہم سبع لیال وثمانیۃ ایام حسوماً (ای دائمۃ متتابعۃ) فترالقوم فیہا صرعیٰ کا نہم اعجاز نخل خاویۃ پھر تو وہ قوم عاد کے طویل القامت لوگ زمین پر کھجور کے پیڑوں کی طرف پچھڑے پڑے ہوئے تھے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) اور وہ لوگ جو ان پر ایمان لائے تھے ایک جگہ محفوظ رہے اس تمام قوم کو اللہ نے ہلاک کردیا البتہ وہ لوگ جو اطراف مکہ میں تھے بچ رہے۔ جن کو عاد الاخرۃ کہتے ہیں (کذاقال العلامۃ الثعلبی 1 ؎ 1 ؎ ھو الامام العلامۃ ابن اسحاق بن محمد بن ابراہیم الثعلبی۔ 12 منہ فی العرائس) اس کے بعد ایک شخص نے مکہ میں اس واقعہ کی خبر دی وہ لوگ معاویہ کے پاس کھانا کھا رہے تھے اور باتیں کررہے تھے کہ چاندنی رات میں شتر سوار آتا ہوا دکھائی دیا جس نے آکر یہ جانکاہ حادثہ سنایا انہوں نے پوچھا ہود کہاں ہے اس نے کہا وہ اور جو اس پر ایمان لائے تھے زندہ وسالم سمندر کے کنارہ پر رہتے ہیں۔ قیل نے سن کر کہا کہ اب میں زندہ رہ کر کیا کروں گا جبکہ میری قوم ہی زندہ نہ رہی اور مرثد نے اپنا ایمان ظاہر کردیا اور یہ شعر کہے۔ عصت عاد رسولہم وفامسوا عُطاشا ما تبلہم السماء وسیرو قد ھم شہر الیسقو فارو فہم مع العطش العناء بکفر ھم بربہم جہاراً علی آثارھم عاد الغفار اس کے بعد وہ بھی حضرت ہود (علیہ السلام) سے جا ملا بعض علماء کہتے ہیں اس کے بعد ہود مکہ میں آرہے تھے ڈیڑھ سو برس کی عمر میں یہیں انتقال ہوا۔ مطاف کعبہ میں مدفون ہیں۔ اطراف یمن میں اب تک سیاحوں کو پرانے آثار عبرت خیز دکھائی دیتے ہیں جو اس برباد شدہ قوم کی یاد گار خیال کئے جاتے ہیں۔
Top