Mufradat-ul-Quran - Al-A'raaf : 65
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : تو کیا تم نہیں ڈرتے
تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے کہنے لگے کہ تم ہمیں احمق نظر آتے ہو اور ہم تمہیں جھوٹا خیال کرتے ہیں۔
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖٓ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْ سَفَاہَۃٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ۝ 66 كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( کر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ سفه السَّفَهُ : خفّة في البدن، ومنه قيل : زمام سَفِيهٌ: كثير الاضطراب، وثوب سَفِيهٌ: ردیء النّسج، واستعمل في خفّة النّفس لنقصان العقل، وفي الأمور الدّنيويّة، والأخرويّة، فقیل : سَفِهَ نَفْسَهُ [ البقرة/ 130] ، وأصله سَفِهَتْ نفسه، فصرف عنه الفعل نحو : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها [ القصص/ 58] ، قال في السَّفَهِ الدّنيويّ : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء/ 5] ، وقال في الأخرويّ : وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن/ 4] ، فهذا من السّفه في الدّين، وقال : أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة/ 13] ، فنبّه أنهم هم السّفهاء في تسمية المؤمنین سفهاء، وعلی ذلک قوله : سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة/ 142] ( سہ ) السفۃ اس کے اصل معنی جسمانی ہلکا پن کے ہیں اسی سے بہت زیادہ مضطرب رہنے والی مہار کو زمام سفیہ کہا جاتا ہے اور ثوب سفیہ کے معنی ردی کپڑے کے ہیں ۔ پھر اسی سے یہ لفظ نقصان عقل کے سبب خفت نفس کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے سفہ نفسہ جو اصل میں سفہ نفسہ ہے پھر اس سے فعل کے نسبت قطع کر کے بطور تمیز کے اسے منصوب کردیا ہے جیسے بطرت معشیتہ کہ یہ اصل میں بطرت معیشتہ ہے ۔ اور سفہ کا استعمال امور دنیوی اور اخروی دونوں کے متعلق ہوتا ہے چناچہ امور دنیوی میں سفاہت کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء/ 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال ۔۔۔۔۔۔ مت دو ۔ اور سفاہت اخروی کے متعلق فرمایا : ۔ وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن/ 4] اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتے ہیں ۔ یہاں سفاہت دینی مراد ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة/ 13] تو کہتے ہیں بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں : ۔ میں ان سفیہ کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ ان کا مؤمنین کو سفھآء کہنا بنا بر حماقت ہے اور خود ان کی نادانی کی دلیل ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة/ 142] احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلہ پر ( پہلے چلے آتے تھے ) اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ۔ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔
Top