Mafhoom-ul-Quran - Al-A'raaf : 65
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ : کوئی اِلٰهٍ : معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اَفَلَا تَتَّقُوْنَ : تو کیا تم نہیں ڈرتے
اور اسی طرح قوم عاد کی طرف انکے بھائی ہود کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم ! اللہ ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں کیا تم ڈرتے نہیں ؟۔
سیدنا ہود (علیہ السلام) اور قوم کی تباہی تشریح : ان آیات میں سیدنا ہود (علیہ السلام) اور قوم ہود کا مختصرقصہ بیان کیا ہے۔ ہود (علیہ السلام) ایک نبی کا نام ہے یہ نوح (علیہ السلام) کی پا نچویں نسل اور سام کی اولاد میں ہیں۔ سیدنا ہود (علیہ السلام) عاد کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے، عاد ایک بڑی زبردست طاقتور قوم کا نام ہے۔ یہ سیدنا نوح (علیہ السلام) کے پوتے ارم کی اولاد تھے اور یمن میں احقاف کے علاقے میں رہتے تھے۔ عاد کے تیرہ خاندان تھے۔ عمان سے لیکر حضرموت تک کی بستیاں آباد تھیں۔ ان کی زمینیں بڑی زرحیز اور باغات تھے۔ بڑے بڑے شاندار محلات بناتے اور ان میں خوشگوار زندگیاں گزارتے تھے، مضبوط، صحت مند، خوبصورت اور قد آور لوگ تھے۔ اللہ رب العزت نے ان کو ہر طرح سے خوش حال اور فارغ البال بنا رکھا تھا۔ مگر یہی نعمتیں، برکتیں اور رحمتیں ہی ان کے لیے وبال جان بن گئیں کیونکہ وہ لوگ اپنی دولت، عزت اور تندرستی کے نشے میں اتنے بد مست ہوئے کہ کمزوروں پر ظلم کرنا اور اللہ کی ناشکری ان کا مذہب بن چکا تھا۔ بیشمار بت بنا رکھے تھے جن کی پوجا کرتے اور شرک میں بری طرح ڈوب چکے تھے۔ اللہ رب العزت نے ان پر رحم فرمایا کہ انہی میں سے سیدنا ہود (علیہ السلام) کو ان کی اصلاح اور بےراہ روی سے بچانے کے لیے رسول بنا کر بھیجا کہ وہ لوگ گناہ سے نکل کر نیکی کا راستہ اختیار کرلیں۔ توحید کو سمجھیں اور بت پرستی کو چھوڑ کر اللہ وحدہ لاشریک کو اپنا رب سمجھیں مگر وہ لوگ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے اتنے ظالم اور مغرور ہوچکے تھے کہ کسی صورت میں بھی شرک کو چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے سیدنا ہود (علیہ السلام) نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہر طرح سے ان کو سمجھایا مگر وہ الٹا ان پر ہی الزامات لگاتے رہے۔ جیسا کہ قوم کے ساتھ ان کی بات چیت بڑی تفصیل سے آیات مذکورہ میں بیان کی جاچکی ہے۔ بلکہ یہاں [ تک قوم نے ان سے کہہ دیا کہ جو عذاب اللہ ہم پر لانا چاہتا ہے لے آئے “۔ تب اللہ رب العزت نے سیدنا نوح (علیہ السلام) کی قوم کی طرح ان پر عذاب بھیج دیا جس کا ذکر ” معارف القران “ میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب یوں بیان کرتے ہیں : ” پہلا عذاب تو یہ آیا کہ تین سال تک مسلسل بارش بند ہوگئی۔ زمینیں برباد اور باغات اجڑ گئے مگر اس پر بھی لوگ شرک و بت پرستی سے باز نہ آئے تو پھر آٹھ دن اور سات راتوں تک ان پر شدید قسم کی آندھی کا عذاب مسلط ہوا۔ جس نے ان کے رہے سہے باغات اور محلات کو زمین پر بچھا دیا ان کے آدمی اور جانور ہوا میں اڑتے اور پھر سر کے بل آکر گرتے تھے اس طرح یہ قوم عاد پوری کی پوری ہلاک کردی گئی جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ ” ان کی جڑ کاٹ دی۔ “ صرف ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ و مامون رکھا جو سیدنا ہود (علیہ السلام) پر ایمان لا کر راہ ہدایت پر چلنے لگے تھے۔ اس قصہ میں ان تمام لوگوں اور قوموں کے لیے زبردست عبرت کا سبق دیا گیا ہے جو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں برکتوں اور فضل وکرم کی قدر نہیں کرتے شکر ادا نہیں کرتے بلکہ اللہ سے بالکل غافل ہوجاتے ہیں اور شیطان کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ یا قومیں اپنی طاقت، مال و دولت اور ہتھیاروں پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں تو پھر عذاب الٰہی سے اللہ رب العزت ان کو دنیا میں نیست و نابود کردیتا ہے اور آخرت میں عذاب ان کو ملنا ہی ہے۔ مگر جو لوگ نیکی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ سورة البقرہ کی آیت 177 میں نیکی کے تصور میں چار باتوں کی تاکید کی گئی ہے۔ ا۔ ایمان، 2۔ عبادت 3۔ معاملات 4۔ صبر۔ جو لوگ نیکی کے اس تصور کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں تو اللہ ان سے راضی ہوجاتا ہے اور قدرتی آفات کی سختی سے ان کو بچالیتا ہے ورنہ یہی قدرتی آفات نافرمان لوگوں کے لیے شدید ترین عذاب کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ گویا زمین کو پاک صاف کرنے کے لیے قوم نوح (علیہ السلام) پر پانی کا عذاب آگیا اور نیک لوگ بچ گئے سیدنا نوح (علیہ السلام) اور ان کے فرمانبردار لوگوں سے دنیا دوبارہ آباد ہونا شروع گئی اس طرح قوم ہود تمام کی تمام نیست و نابود ہوگئی۔ سیدنا ہود (علیہ السلام) اور ان کے فرمانبردار لوگ اللہ کے فضل سے بچ گئے اور پھر نیک لوگوں سے آبادی بڑھنے لگی۔ یہی طریقہ ہے قدرت کے کارخانے کا۔ زمین کو گناہوں سے پاک کرنے کا پہلا طریقہ رسول بھیجنا ہے اور لوگ اس طریقہ سے فائدہ نہ اٹھائیں اور اپنی بےراہروی سے باز نہ آئیں تو پھر زمین کی صفائی کا دوسرا اور آخری طریقہ عذاب الٰہی ہی ہے۔ کچھ پریشانیاں تو خود انسان اپنے لیے پیدا کرلیتا ہے چھوٹی سی مثال ماں اور بچے کی دی جاسکتی ہے۔ جو ماں اپنے بچے کو جھوٹ بولنا سکھاتی ہے، بد عہدی بزرگوں کی بےادبی اور وعدہ خلافی غرض کوئی بھی اخلاقی برائی سکھاتی ہے تو بچہ اس بری عادت کو سب سے پہلے اپنے گھر اور اپنی ماں سے شروع کرتا ہے۔ اور یوں ماں اپنے لیے بےسکونی اور پریشانی کا دروازہ خودکھول لیتی ہے۔ پھر جب یہی بچہ بڑا ہو کر میدان عمل میں نکلتا ہے تو پھر دنیا کے لیے لوگوں کے لیے اپنے ملک اور اپنے ادارہ کے لیے ایسی ایسی پریشانیاں، تباہیاں اور مشکلات کھڑی کرتا ہے کہ شیطان بھی اس سے پناہ مانگتا ہے۔ ایسا شخص چوری، جھوٹ، غیبت، قتل، فریب کاری اور فساد سے بےسکونی کا سبب بنا رہتا ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک ماں نے خود اپنے لیے بہت بڑی مصیبت کو جنم دے دیا یعنی اپنا کھودا ہوا گڑھا اپنے ہی کام آگیا۔ اور پھر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک فرد کے گناہ نے پورے معاشرے اور پوری انسانیت کو خود اپنے ہاتھوں سے تباہیوں اور پریشانیوں کے حوالے کردیا۔ ایسے بد کردار انسان کی ماں کا حال اس دنیا میں تو جو ہوگا سو ہوگا آخرت میں بھی وہ دردناک عذاب کے سوا کچھ نہ پاسکے گی۔ قدرتی آفات سے بچنے کے لیے نیکی کی ڈھال ہر وقت تیارر کھنی چاہئے۔ مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ سیدنا نوح (علیہ السلام) اور سیدنا ہود (علیہ السلام) کو ان کے فرمابردار بندوں کو اللہ نے بچالیا جبکہ نافرمان قوم صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ اسی طرح ایک قصہ ثمود کا بیان کیا جارہا ہے ملاحظہ ہو۔
Top