آیت نمبر 30, 29, 28, 27
تفسیر : (ولو تریٰ اذ وقفوا علی النار) کہا گیا ہے کہ آگ پر پیش کیے جائیں گے اور ’ د لو “ کا جواب محذوف ہے مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ان کو اس حالت میں دیکھیں تو بڑا عجیب منظر دیکھیں گے ( فقالوا لیتا نرد) دنیا کی طرف لولا لکذب بایت ربما ونکون من المومنین)
(بل بدالھم) یعنی معاملہ ویسا نہیں جیسا یہ کہتے ہیں کہ اگر ان کو وہاں بھیج دیا جائے تو وہ ایمان لائیں گے بلکہ ظاہر ہوگیا ان کے لیے (ما کانوا یحفون من قبل) دنیا میں اپنا کفر اور گناہ ( ولو ردرا) دنیا میں ان کے کفر اور معصیت کی طرف اور ماکانو یحفون سے مراد ہیں رسول اللہ ﷺ کے وہ خصوصی اوصاف جو اہل کتاب جانتے تھے مگر ان صفا تکو چھپاتے تھے۔ مبرو کا قول ہے کہ مالکانو یخفون کو مبتدا متصمن شرط اور برالھم کو خبر متمصن جزا کے ہے۔ لضر بن شمیل نے کہا یدلھم کا معنی ہے ہذا عنھم پھر فرمایا ( ولوردوا) یعنی لوٹا دیئے جاتے ۔ دنیا کی طرف ( لعادو الماض تو وہ لوٹ آئے جس سے ان کو روکا گیا ( لھوا عنہ) یعنی کفر ( وانھم لکلمون) اس قول میں کہ اگر ہمیں دوبارہ بھیج دیا جائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں گے اور ایمان لائیں گے۔
(وقالو انھی الا حیاتنا الدنیا وما نحن بمبعوثین) یہ ان کے مرنے کے بعد جی اٹھنے کے انکار کی خبردی۔
(ولو تری ادوقفوا علی ربھم) اس کے حکم پر اور اس کے فیصہل پر اور بعض نے کہا کہ اپنے رب پر یش کیے جائیں گے (قال) ان کو اور کہا گیا ہے کہ جہنم کے دراوغہ کے حکم سے یہ کہیں گے ( الیس ھذا بالحق ) یعنی دوبارہ اٹھنا اور عذاب حق نہیں ہے ؟ ( قالوا بلی وربنا) کہ یہ حق ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ قیامت میں کئی جگہ مجلس لگے گی، ایک مجلس میں اقرار کریں گے دوسری میں انکار کریں گے ان کا یہ قول ایک مجلس میں ہوگا اور ” واللہ ربنا ماکنا مشرکین “ والا قول دوسری مجلس میں ہوگا۔ ( قال فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون)