Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 27
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر (کبھی) تَرٰٓي : تم دیکھو اِذْ وُقِفُوْا : جب کھڑے کیے جائیں گے عَلَي : پر النَّارِ : آگ فَقَالُوْا : تو کہیں گے يٰلَيْتَنَا : اے کاش ہم نُرَدُّ وَ : واپس بھیجے جائیں اور لَا نُكَذِّبَ : نہ جھٹلائیں ہم بِاٰيٰتِ : آیتوں کو رَبِّنَا : اپنا رب وَنَكُوْنَ : اور ہوجائیں ہم مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور اگر تم اس وقت کو دیکھ پاتے ‘ جب یہ دوزخ کے کنارے پر کھڑے کئے جائیں گے پس کہیں گے کہ کاش ! ہم پھر واپس کئے جائیں کہ مانیں اور اپنے رب کی آیات کی تکذیب نہ کریں اور ایمان والوں میں سے بنیں
وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ بَلْ بَدَالَھُمْ مَّا کَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ ط وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُھُوْا عَنْہٗ وَاِنَّھُمْ لَکٰذِبُونَ ۔ (الانعام : 27۔ 28) (اور اگر تم اس وقت کو دیکھ پاتے ‘ جب یہ دوزخ کے کنارے پر کھڑے کیے جائیں گے۔ پس کہیں گے کہ کاش ! ہم پھر واپس کیے جائیں کہ مانیں اور اپنے رب کی آیات کی تکذیب نہ کریں اور ایمان والوں میں سے بنیں۔ بلکہ یہ تو ان پر وہی حقیقت ظاہر ہوئی ہے ‘ جو وہ اس سے پہلے اپنے دل میں چھپاتے تھے اور اگر یہ لوٹائے جائیں تو وہی کریں گے ‘ جس سے روکے گئے ‘ یہ بالکل جھوٹے ہیں) تبلیغ کے کام کو یکسر روک دیا جائے تو اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے اس آیت کریمہ میں دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ لوگ جس طرح آج آپ سے اور مسلمانوں سے سلوک کر رہے ہیں ‘ آپ اس سے بددل نہ ہوں۔ یہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود آپ کا راستہ نہیں روک سکیں گے۔ البتہ اپنے کرتوتوں سے اپنی عاقبت ضرور تباہ کرلیں گے اور دوسری بات جو سمجھ میں آتی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ نے افہام و تفہیم کے جتنے اسالیب ممکن ہوسکتے تھے ‘ اور تبلیغ و دعوت کے جو طریقے موثر ہوسکتے تھے ان میں سے ہر طریقہ اور ہر اسلوب اپنے مخاطبین کو ہدایت کی طرف لانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس آیت میں جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے ‘ اسے آخری طریقہ کہنا چاہیے۔ نصیحت اور استدلال کے تمام مروجہ اسالیب اور طریقوں کو آزمانے کے بعد ‘ اس آخری طریقے کو آزمایا جا رہا ہے کہ شاید وہ لوگ اسی طریقے سے راہ راست پر آسکیں۔ یعنی اگر وہ بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو ہوسکتا ہے کہ انھیں اپنے انجام کا خوف سوچنے پر مجبور کر دے کیونکہ یہ بات وہ لوگ جانتے تھے کہ حضور اکرم ﷺ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ وہ قرآن کریم کو بیشک اللہ کی کتاب نہ مانتے ہوں ‘ لیکن حضور کی زبان سے نکلنے والی خبر کا انکار کرنا ان کے لیے آسان نہ تھا۔ اس لیے جب حضور ﷺ انھیں اس طرح کی آیات پڑھ کر سناتے تھے تو یقینا ایک دفعہ تو ان کے دل ہل جاتے ہوں گے کیونکہ اس میں جس طرح ان کے ہولناک انجام کو بیان کیا گیا ہے ‘ کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ اثر انداز ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور مزید یہ بات بھی کہ آدمی چاہے کیسا گیا گزرا بھی کیوں نہ ہو ‘ وہ کبھی نہ کبھی اپنی عاقبت کے بارے میں ضرور سوچتا ہے۔ جب ان لوگوں کو اپنی عاقبت کے حوالے سے اسطرح کی باتیں سننے کو ملتی تھیں تو یا تو وہ اس پر بھڑکتے اور مسلمانوں کی دشمنی پر تل جاتے تھے اور یا وہ سوچنے پر مجبورہو جاتے تھے۔ آخرت میں ان کے ساتھ جو کچھ گزرنے والی ہے اس کا پورا منظر ان کے سامنے لاکھڑا کیا گیا ہے کہ ایک طرف دہکتا ہوا جہنم ہے ‘ جس کی ہولناکی الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی اور دوسری طرف ان کی بےبسی ہے کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں ہماری بداعمالیوں کی پاداش میں ایسے جہنم میں پھینکا جائے گا جس سے بچ نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ آخری کوشش کے طور پر وہ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ کاش ! ہمیں واپس لوٹا دیا جائے تو ہم ایمان لائیں گے اور کبھی اللہ کی آیات کی تکذیب نہیں کریں گے۔ اس میں آئندہ بہتر اور فرمانبردار زندگی کی ضمانت بھی دی جا رہی ہے اور ساتھ ساتھ اپنے گناہوں کا اعتراف بھی ہو رہا ہے کہ ہم آج تک آیات خداوندی کی تکذیب کرتے رہے اور ایمان کے کبھی قریب نہیں پھٹکے ‘ لیکن اب ہم ایسا نہیں کریں گے۔ اس کے جواب میں پروردگار ارشاد فرما رہے ہیں کہ تم اب جو بات کہہ رہے ہو کوئی نئی بات نہیں ‘ اس لیے کہ جہاں تک رسول اللہ ﷺ اور ان کی دعوت کے حق ہونے کا تعلق ہے ‘ یہ تم دنیا میں بھی جانتے تھے کیونکہ تمہیں یقین تھا کہ حضور نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور قرآن کریم اپنی اعجازی صفات کے ساتھ ناقابل انکار ہے۔ تم اپنے دل میں اس کی صداقت کے قائل تھے ‘ لیکن تم نے اس سچائی کو زبان پر لانا کبھی گوارا نہ کیا۔ آج تم نے چونکہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اور پھر یہ کہ سب کچھ اپنے ہولناک انجام سے ڈر کر رکہہ رہے ہو ‘ اس لیے اس ایمان کا کیا بھروسہ اور اس ایمان کی کیا قدر و قیمت اور مزید یہ کہ جب تم پہلے دل میں ایمان رکھتے ہوئے محض غرور نفس اور حب دنیا کی وجہ سے اس کا اظہار نہ کرسکے اور برابر جھوٹ بولتے رہے تو اب اگر تمہیں واپس دنیا میں بھیج دیا جائے تو اس وقت تو تم خوف کی گرفت میں ہونے کی وجہ سے ایمان کا یقین دلا رہے ہو لیکن جب تم واپس جاؤ گے تو اپنے جھوٹ کی عادت بد کی وجہ سے اور اپنے پندارنفس کے باعث پھر وہی کفر کا رویہ اختیار کرو گے ‘ جو پہلے کرتے رہے ہو۔ رسول اللہ ﷺ اور قرآن کریم کے انکار کی پاداش میں قیامت کے دن ان کے ساتھ جو گزرے گی اس کا ذکر کرنے کے بعد یہ بتایا جا رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی رسالت اور قرآن کریم کی حقانیت پر نہایت محکم دلائل کے باوجود یہ لوگ ایمان نہ لا کر قیامت کے دن جس انجام کو پہنچیں گے ‘ اس کی وجہ اصل میں کیا ہے اور پھر یہ وجہ ان کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ پوری انسانی تاریخ میں حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے بھی اور آج تک بھی انسانی بگاڑ کا سب سے بڑا سبب یہی ہے ‘ جس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں کیا جا رہا ہے۔
Top