Jawahir-ul-Quran - Al-An'aam : 27
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر (کبھی) تَرٰٓي : تم دیکھو اِذْ وُقِفُوْا : جب کھڑے کیے جائیں گے عَلَي : پر النَّارِ : آگ فَقَالُوْا : تو کہیں گے يٰلَيْتَنَا : اے کاش ہم نُرَدُّ وَ : واپس بھیجے جائیں اور لَا نُكَذِّبَ : نہ جھٹلائیں ہم بِاٰيٰتِ : آیتوں کو رَبِّنَا : اپنا رب وَنَكُوْنَ : اور ہوجائیں ہم مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور اگر تو دیکھے31 جس وقت کہ کھڑے کئے جاویں گے وہ دوزخ پر پس کہیں گے اے کاش ہم پھر بھیج دیے جاویں اور ہم نہ جھٹلائیں اپنے رب کی آیتوں کو اور ہوجاویں ہم ایمان والوں میں
31 یہ تخویف اخروی ہے۔ یٰلَیْتَنَا حرف نداء یہاں محض اظہار حسرت کے لیے ہے اس سے کسی کو خطاب مقصود نہیں۔ حرف نداء یا جس طرح نداء اور استغاثہ کے لیے آتا ہے۔ اسی طرح ندب، تعجب، شوق، حسرت اور محبت کے اظہار کے لیے بھی آتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم قبیل باب التفسیر میں ہے کہ جبحضور ﷺ مدینہ طیبیہ تشریف لے گئے تو چھوٹی بچیاں گلی کوچوں میں یا محمداہ یا محمداہ کہتی پھر رہی رہی تھیں۔ اس سے ان کا مقصد نداء اور پکار نہ تھا بلکہ وہ محض عقیدت اور محبت کے اظہار کے طور پر یہ کہہ رہی تھیں۔
Top