Mualim-ul-Irfan - Al-An'aam : 27
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر (کبھی) تَرٰٓي : تم دیکھو اِذْ وُقِفُوْا : جب کھڑے کیے جائیں گے عَلَي : پر النَّارِ : آگ فَقَالُوْا : تو کہیں گے يٰلَيْتَنَا : اے کاش ہم نُرَدُّ وَ : واپس بھیجے جائیں اور لَا نُكَذِّبَ : نہ جھٹلائیں ہم بِاٰيٰتِ : آیتوں کو رَبِّنَا : اپنا رب وَنَكُوْنَ : اور ہوجائیں ہم مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور اگر آپ دیکھیں اس حالت کو جب کہ ان کو کھڑا کیا جائے گا آگ پر ‘ تو کہیں گے اے کاش ! ہم لوٹائے جاتے دنیا کی طرف اور ہم نہ جھلاتے اپنے رب کی آیات کو اور ہم ایمان والوں میں ہوتے۔
گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفر اور شرک کرنے والوں کی تردید فرمائی اور قیامت میں پیش آنے والے حالات کا تذکرہ کیا ‘ یعنی جس دن ہم سب کو اکٹھا کریں گے اور پھر مشرکین سے پوچھیں گے کہ تمہارے وہ شرکاء کہاں ہیں جن کے متعلق تم گمان کرتے تھے کہ وہ تمہیں چھڑا لیں گے۔ فرمایا اس موقع پر شرک کا انکار کردیں گے اور جھوٹ بولیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مذمت بیان فرمائی ‘ اللہ نے ان کی یہ خصلت بھی بیان فرمائی کہ جب خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہے تو یہ لوگ اس کا انکار یہ کہہ کردیتے ہیں کہ یہ تو پچھلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ یہ لوگ خود بھی قرآن پاک اور پیغمبر اسلام سے دور رہتے ہیں ‘ اور دوسروں کو بھی قریب آنے سے روکتے ہیں۔ اب آج کی آیات میں اللہ نے آخرت کا کچھ مزید حال بیان فرمایا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کی توحید ‘ رسالت اور معاد یعنی قیامت کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور قرآن کریم کا چوتھا مضمون اس کی اپنی حقانیت اور صداقت ہے ‘ یہ چاروں مضامین اللہ نے مختلف سورتوں میں احسن طریقے سے بیان فرمائے ہیں بعض سورتوں مثلاً سورة یونس میں قرآن حکیم کی حقانیت کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اسی طرح سورة یٰسین میں چاروں مضامین کو بیان فرمایا ہے ۔ چونکہ ان چاروں مضامین کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اس لئے قریب المرگ شخص کے اس کا پڑھنا مستجب ہے تا کہ اس کی فکر مستقیم ہوجائے اور وہ بہتر حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو۔ پھر سورة قصص ‘ شعرائ ‘ صفت میں رسالت کا تفصیلی بیان ہے ‘ اور اب اسی صورۃ انعام میں توحید اور شرک کی تمام اقسام کا تذکرہ ہے تاہم باقی باتیں بھی ضمناً آگئی ہیں۔ جزائے عمل جس طرح اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ایمان کا اہم جزو ہے ‘ اس کی ذات ‘ صفات ‘ اسمائے مبارکہ ‘ اس کے انبیائ ‘ کتب سماویہ ‘ قرآن پاک کی حقانیت پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح معاد یعنی قیامت کے وقوع اور جزائے عمل پر ایمان لانا ضروری ہے ‘ انسان کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اس دنیا میں جو کچھ اچھا یا برا کر رہا ہے ‘ اسے اس کا نتیجہ مل کر رہے گا۔ انسان اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے ‘ نشونما پاتا ہے ‘ کاروبار کرتا ہے ‘ اس کا ایک وجود ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ دنیا کے تمام امور انجام دیتا ہے ۔ جس طرح اسے اپنے وجود اور ہستی پر یقین ہے ‘ اسی طرح اسے جزائے عمل پر بھی یقین ہونا چاہئے۔ کہ جس اللہ تعالیٰ نے اسے اس دنیا میں اپنے احکام دے کر بھیجا ہے ‘ اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ اسے اگلے جہان میں بھی کھڑا کرے گا اور پھر اس سے اس کے اعمال کی بازپرس ہوگی۔ ہر انسان کو اس معاملہ میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ دنیا میں واپسی کی تمنا تو یہاں پر معاد کے ضمن میں کچھ حالات بیان فرمائے ہیں اور بتایا کہ اس دن مشرکین کس قسم کی کیفیت سے دوچار ہوں گے۔ ارشاد ہوتا ہے ولو تری اذا وقوفوا علی النار (اے مخاطب) جب تو دیکھے کہ ان کو کھڑا کیا آگ پر یعنی مشرکین کو دوزخ کے کنارے لا کھڑا کیا جائے گا اور وہ اپنے ٹھکانے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ یہاں پر مخاطب سے مراد سب سے پہلے حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ہے پھر صحابہ کرام ؓ اور پھر ہر شخص مخاطب ہے جس تک قرآن پاک کا پیغام پہنچے تو فرمایا جب مشرکین کو دوزخ میں ڈالنے کا وقت آئے گا اور انہیں اس کے بالکل قریب کردیا جائے گا۔ فقالوا تو اس وقت وہ کہیں گے یلیتنا نرد اے کاش ! ہم دنیا کی طرف لوٹائے جاتے تا کہ اس عذاب سے بچ سکتے۔ بڑی تمنا کریں گے کہ ہم ایک دفعہ پھر دنیا میں چلے جائیں ولا تکذب بایت ربنا تو اب ہم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو نہیں جھٹلائیں گے ‘ اس وقت تو ہم آیات ربانی کو پہلے لوگوں کی کہانیاں کہتے تھے ‘ مگر اب ہمیں یقین آ گیا ہے کہ یہ اللہ کا سچا کلام ہے ‘ لہٰذا اب ہم اس کی تکذیب نہیں کریں گے۔ ومنکون من المومنین اور ہم ایمان والے بن جائیں گے یعنی اے مولا کریم ! دنیا میں واپس جا کر ہم تیری وحدانیت پر ایمان لائیں گے ‘ تیری رسولوں اور کتابوں پر یقین کریں گے اور تیرے تمام احکام کو تسلیم کریں گے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ولو تری کی خبر مخدوف ہے اور وہ یہ ہے کہ اے مخاطب جب تو دیکھے اس حالت کو کہ مجرمین کو دوزخ کے کنارے پر کھڑا کیا جائے گا تو وہ بڑا خوفناک منظر ہوگا۔ لرایت امرا عظیماً آپ کو بڑی خوفناک چیز نظر آئے گی اور پھر جو لوگ دنیا میں واپسی کی خواہش کریں گے ان سے کہا جائے گا کہ اس وقت تمہارا تمنا کرنا کچھ مفید نہیں ہے ‘ اب اپنے کئے کا بھگتان کرو۔ تمہاری دنیا کی زندگی عمل کی دنیا تھی ‘ اس وقت کا ایمان اور عمل ہی آج کام آسکتا تھا۔ اب تمہاری خواہش پوری نہیں ہو سکتی ‘ چناچہ انہیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا ‘ اللہ فرمائے گا ‘ کہ دنیا کی زندگی ایک ہی دفعہ ہم نے دی تھی ‘ وہ دور ختم ہوچکا ‘ اب دوبارہ واپسی کا کوئی قانون نہیں ‘ لہٰذا اپنے کئے کی سزا بھگتو۔ فرمایا اس دن کفار و مشرکین کی دنیا میں دوبارہ آنے کی خواہش تو پوری نہیں ہوگی۔ بل بدالھم ما کانوا یخفون من قبل ‘ بلکہ جو چیزیں وہ اس سے چھپاتے تھے ‘ سب ظاہر ہوجائیں گی۔ پہلیآیات میں گزر چکا ہے۔ کہ قیامت کے دن ایک موقع ایسا بھی آئے گا جب مجرم لوگ کہیں گے ” واللہ ربنا ما کنا مشرکین قسم ہے اللہ کی جو ہمارا پروردگار ہے کہ ہم شرک نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے جرائم کو چھپانے کی کوشش کریں گے مگر وہ چھپ نہیں سکیں گے ‘ بلکہ ان کے اعمال نامے سامنے آجائیں گے ‘ ان کے اعضاء وجوارح ان کے خلاف گواہی دیں گے بلکہ جس خطہ ارضی پر جرم کیا گیا ‘ وہ زمین بول اٹھے گی لہٰذا وہ لوگ اپنے کرتوتوں پر پردہ نہیں ڈال سکیں گے ‘ بلکہ سب کچھ ظاہر ہوجائے گا ۔ کیونکہ اس دن کا خاصہ یہ ہوگا یوم تبدلی السرائر (الطارق) اس دن تمام بھید ظاہر ہوجائیں گے۔ یومند تعرضون لا تخفی منکم خافیہ (الحاقۃ) اس دن تم پیش کئے جائو گے اور تمہاری کوئی پوشیدہ بات چھپی نہیں رہے گی۔ امام مبرد (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں بدالھم اور ما کے درمیان وبال کا لفظ مخدوف ہے اور اس طرح پوری قرات اس طرح بنتی ہے بل بدالھم و بال ما کانوا یخفون من قبل یعنی اس دن ان کے سامنے اس چیز کا وبال ظاہر ہوجائے گا جس کو وہ اس سے پہلے چھپاتے تھے منافقوں کے متعلق تو یہ بات واضح ہے کہ وہ بظاہر کلمہ پڑھتے تھے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوتے تھے مگر دل میں نفاق چھپا رکھا تھا۔ اس دن ان کا نفاق یہ اس کا وبال کھل کر سامنے آجائے گا۔ یا اس جملے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بڑے لوگ چھوٹے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے حقیقت حال کو واضح نہیں ہونے دیتے تھے بلکہ چھپا جاتے تھے ‘ جیسا کہ سورة احزاب میں ہے وقالوا ربنا انا اطعانا سائوتنا وکبراء نا فاضلونا السبیلا وہ لوگ کہیں گے۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کا کہنا مانا تو انہوں نے ہمیں گمراہ کردیا مگر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اگر تمہیں اپنے مستقبل کی فکر ہوتی تو اپنے ڑوں کی اطاعت کرنے سے پہلے اچھی طرح غور کرلیتے ‘ اب گمراہ کرنے والے اور گمراہ ہونے والے سب جہنم میں داخل کئے جائیں گے۔ کفر و شرک پراسرا اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے ایک اور بات بھی فرمائی ہے کہ ان لوگوں نے اپنی استعداد کو خراب کرلیا تھا ‘ لہٰذا ولوردوا لما دوالما انا سنہ اگر بالفرض ان کی خواہش کے مطابق ان کو دنیا میں واپس بھی بھیج دیا جائے تو پھر بھی وہی باتیں کریں گے جن سے انہیں منع کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ علیم بذات الصدور ہے اور ہر شخص کی اندرونی باتوں کو بھی جانتا ہے کہ ان کی ساخت کس قسم کی ہے اور ان کے تصورات کیسے ہیں ‘ یہ خوف اور دہشت کی وجہ سے ایسی باتیں کر رہے ہیں مگر ان کی فطرت نہیں بدلے گی ‘ دنیا میں واپس جا کر یہ پھر کفر ‘ شرک ‘ ظلم ‘ نفاق الحاد اور معصیت کا ارتکاب ہی کریں گے۔ فرمایا وانھم لکذبون ۔ اللہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں کیونکہ دنیا میں ان کا حال یہی رہا ہے وقالو ان ھی الا حیاتنا الدنیا کہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے اسی دنیا کی زندگی ہے۔ اس کے بعد کچھ نہیں ہوگا۔ مرنے کے بعد ہمیں کون زندہ کرے گا اور کون حساب کتاب لے گا ‘ آج تک ہم نے کسی مردہ کو زندہ ہوتے نہیں دیکھا۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں کہ قیامت برپا ہوگی ‘ سب مردہ زندہ ہوجائیں گے ‘ اعمال نامے ملیں گے ‘ پھر حساب کتاب ہوگا اور دوزخ یا جنت میں جانا ہوگا۔ ان چیزوں میں کچھ صداقت نہیں۔ یہ تو زمانے کا چکر ہے ‘ لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں اور مرتے رہتے ہیں اس کے بعد کچھ نہیں ہوگا یہ لوگ دنیا کی زندگی میں اس قسم کے فاسد عقیدہ میں مبتلا ہوتے ہیں اور معاد کا انکار کرتے ہیں اور بعض بدبخت کہتے ہیں۔ ” ربنا عجل لنا قطنا قبل یوم الحساب “ اے اللہ ! ہمیں جو کچھ دینا ہے اسی دنیا میں دے دے۔ ہمیں قیامت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد بھی کوئی بازپرس ہوگی لا بعث ولا حساب ولا نار ولا جنتہ شیطان نے ایسی پٹی پڑھا رکھی ہے کہتے ہیں کوئی دوبارہ زندگی نہیں ‘ نہ حساب کتاب ہے اور نہ دوزخ جنت ہے بس جو کچھ ہے یہی دنیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم اٹھا کر کہا ہے کہ معاد برحق ہے ” وعدا علینا ط انا کنا فعلین “ (سورۃ الانبیائ) ہمارا وعدہ بالکل سچا ہے۔ ہم قیامت ضرور برپا کریں گے۔ پھر ہر شخص سے باز پرس ہوگی اور اس کے لئے جزاء یا سزا کا فیصلہ ہوگا۔ یہ ہمارا اٹل فیصلہ ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ اللہ کے حضور پیشی پھر فرمایا کہ یہ کہتے ہیں وما نحن بمبعوثین ہم دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے مگر اے مخاطب ولو تریٰ ذوقضوا علی ربھم جب تو دیکھے اس حالت کو جب انہیں اپنے رب کے سامنے کھڑا کیا جائے گا تو اس وقت ان مکذبین کی کیا حالت ہوگی۔ بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اپنے سامنے کھڑا کر کے اللہ تعالیٰ ہر شخص سے براہ راست باز پرس کرے گا اور درمیان میں کوئی مترجم بھی نہیں ہوگا۔ لہٰذا ہر سوال کا جواب خود ہی دینا پڑے گا۔ سورة نحل میں آتا ہے تاتی کل نفس تجادل عن نفسھا ہر جان کو اپنی طرف سے خود ہی جوابدہی کرنا ہوگی۔ اس دنیا کی طرح کسی وکیل یا بیرسٹر کی خدمات حاصل نہیں ہوں گی جو مجرمان کی طرف سے جواب ‘ دعویٰ داخل کرے گا۔ فرمایا جب ان کو حق تعالیٰ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا قال تو اللہ تعالیٰ پوچھیں گے الیس ھذا بالحق کیا یہ حق نہیں ہے ؟ کیا معاد اور بعث بعدالموت واقع نہیں ہوا ؟ اب جب کہ تم اپنے پروردگار کے روبرو کھڑے ہو ‘ اب بتائو کہ میرے انبیاء نے جو تمہیں بتایا تھا کیا وہ سچ نہیں تھا ؟ اس وقت کہیں گے قالوا بلیٰ وربنا ہمارے پروردگار کی قسم یہ تو بالکل برحق ہے ہم نے غلطی کی اور ہم دھوکے میں مبتلا رہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا قال فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون اب اپنے کفر و شرک کا مزہ چکھو۔ تم نے معاد کا انکار کیا۔ اللہ کی توحید اور رسالت کا انکار کیا۔ قرآن کی صداقت کو تسلیم نہ کیا ‘ اس کا بدلہ اب پا لو۔ معاد کا مزید ذکر آگے بھی آ رہا ہے۔
Top