Bayan-ul-Quran - Faatir : 22
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ
وَمَا يَسْتَوِي : اور نہیں برابر الْاَحْيَآءُ : زندے وَلَا : اور نہ الْاَمْوَاتُ ۭ : مردے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُسْمِعُ : سنا دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ۚ : جس کو وہ چاہتا ہے وَمَآ اَنْتَ : اور تم نہیں بِمُسْمِعٍ : سنانے والے مَّنْ : جو فِي الْقُبُوْرِ : قبروں میں
اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندہ اور مردہ لوگ } یقینا اللہ سناتا ہے جس کو چاہتا ہے اور (اے نبی ﷺ !) آپ نہیں سنا سکتے انہیں جو قبروں کے اندر ہیں
آیت 22 { وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآئُ وَلَا الْاَمْوَاتُ } ”اور نہ برابر ہوسکتے ہیں زندہ اور مردہ لوگ۔“ یہاں مردوں سے مراد وہ مردے نہیں جو قبروں میں دفن ہیں ‘ بلکہ یہ ان جیتے جاگتے انسانوں کا تذکرہ ہے جن کی روحیں مردہ ہوچکی ہیں۔ اگرچہ جسمانی اعتبار سے تو ایسے لوگ زندوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ چلتے پھرتے مقبرے اور تعزیے ہیں ‘ کیونکہ ان کی انسانیت مر کر ان کے جسموں کے اندر دفن ہوچکی ہے۔ اسی طرح یہاں زندوں سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی روحیں اور جن کے دل زندہ ہیں۔ زندگی کے اس فلسفے کو میر در ؔد نے اس طرح بیان کیا ہے : ؎ مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے ! اگر کسی شخص کا دل مرگیا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ اس کی روح دم توڑ گئی تو انسانی سطح پر اس شخص کی موت واقع ہوگئی۔ اب اگر وہ زندہ ہے تو حیوانی سطح پر زندہ ہے۔ جس طرح حیوان کھاتے پیتے ہیں اور زندگی کی دوسری ضروریات و خواہشات پوری کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں اسی طرح اب وہ بھی زندگی بسر کر رہا ہے ‘ مگر یہ زندگی ایک انسان کی زندگی ہرگز نہیں ہے۔ مثلاً ابو جہل بظاہر اچھی بھلی زندگی بسر کر رہا تھا مگر اس کے اندر کا انسان چونکہ زندہ نہیں تھا اس لیے نہ تو وہ آفتابِ نبوت کو دیکھ سکا ‘ نہ اس کی تمازت محسوس کرسکا اور نہ ہی اس کی روشنی سے مستفیض ہوسکا۔ { اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُط وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْْقُبُوْرِ } ”یقینا اللہ سناتا ہے جس کو چاہتا ہے ‘ اور اے نبی ﷺ ! آپ نہیں سنا سکتے انہیں جو قبروں کے اندر ہیں۔“ قبروں میں مدفون سے مراد یہاں وہی لوگ ہیں جن کے جسم اپنی ُ مردہ روحوں کے چلتے پھرتے مقبرے بن چکے ہیں۔
Top