Kashf-ur-Rahman - Faatir : 22
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ
وَمَا يَسْتَوِي : اور نہیں برابر الْاَحْيَآءُ : زندے وَلَا : اور نہ الْاَمْوَاتُ ۭ : مردے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُسْمِعُ : سنا دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ۚ : جس کو وہ چاہتا ہے وَمَآ اَنْتَ : اور تم نہیں بِمُسْمِعٍ : سنانے والے مَّنْ : جو فِي الْقُبُوْرِ : قبروں میں
اور نہ زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں اللہ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے اور اے پیغمبر آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون ہیں
(22) اور نہ زندے اور مردے دونوں برابر ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی سب خلق برابر نہیں جن کو ایمان دیا ہے انہی کو ملے گا تو بہتیری آرزو کرے تو کیا ہوتا ہے اور یہ جو فرمایا اندھیرا نہ اجالا یعنی نہ اندھیرا برابر اجالے کے اور نہ اجالا برابر اندھیرے کے اور فرمایا تو نہیں سناتا قبروں میں پڑوں کو۔ حدیث میں آیا ہے کہ مردوں سے سلام علیک کرو وہ سنتے ہیں اور بہت جگہ مردے کو خطاب کیا ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ مردے کی روح سنتی ہے اور قبر میں پڑا ہے دھڑ وہ نہیں سن سکتا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین اور منکرین کے فہم اور ادراک کا فرق اور دونوں کے انجام اور ثمرات کا فرق بیان فرمایا منکر کو اندھا اور مؤمن کو بصیر فرمانے میں یہ بات ظاہر فرمائی کہ اس نے خداداد فہم سے اسلام کی حقیقت کو سمجھ کر اسے قبول کرلیا اور منکر کا فہم اندھوں کی طرح ٹٹولتا رہا اور اسلام کی حقانیت کو نہ معلوم کرسکا۔ اسی طرح منکر کفر کی تاریکیوں میں مبتلا رہا اور مومن نے اپنی بصارت سے حقیقی نور اور روشنی پا لی۔ پھر دونوں کے انجام اور ثمرات کا فرق بیان فرمایا کہ سایہ اور ٹھنڈک اور بادسموم اور گرم لوئیں برابر نہیں یعنی جنت جو ایمان کا ثمرہ ہے اور جہنم جو انکار کا ثمرہ ہے، دونوں برابر نہیں۔ پھر منکر کو روحانیت سے خالی ہونے کی بنا پر مردہ اور مومن چونکہ اسلام کی روحانی سے مستفید ہے۔ اس کو زندہ فرمایا پھر نبی کریم ﷺ کو تسلی اور اطمینان دلایا کہ جن کے دل اور جن کا صحیح فہم مردہ ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ان کو سننے کی توفیق عطا کرسکتا ہے اور سننے کے ساتھ قبول کرنے کی توفیق بھی عطا کرسکتا ہے۔ ورنہ آپ ان لوگوں کو جو قبروں میں پڑے ہوئے ہیں یعنی مردہ ہوچکے ہیں ان کو نہیں سنا سکتے یعنی ان کو مردہ سمجھو جس طرح مردے میں سننے کی صلاحیت نہیں اسی طرح یہ بھی صحیح سماع سے محروم ہیں تو آپ ان کے سننے نہ سننے کی فکر نہ کیجئے۔
Top