Bayan-ul-Quran - At-Taghaabun : 15
اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ : بیشک مال تمہارے وَاَوْلَادُكُمْ : اور اولاد تمہاری فِتْنَةٌ : آزمائش ہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس اَجْرٌ عَظِيْمٌ : اجرعظیم ہے
تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے امتحان ہیں۔ اور اللہ ہی کے پاس اجر عظیم ہے۔
آیت 15{ اِنَّمَآ اَمْوَالُــکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌط } ”تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے امتحان ہیں۔“ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مال و دولت دنیا ‘ یہ رشتہ و پیوند تمہاری آزمائش کا ذریعہ ہیں : { زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَـرَۃِ مِـنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِط } آل عمران : 14 ”مزین کردی گئی ہے لوگوں کے لیے مرغوباتِ دنیا کی محبت جیسے عورتیں اور بیٹے اور جمع کیے ہوئے خزانے سونے کے اور چاندی کے اور نشان زدہ گھوڑے اور مال مویشی اور کھیتی“۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دلوں میں یہ محبتیں پیدا ہی ان کو آزمانے کے لیے کی ہیں۔ اس کا تو اعلان ہے کہ میرے جس بندے کے دل میں مجھ تک پہنچنے کی تڑپ ہے ‘ اسے ان تمام رکاوٹوں اور آزمائشوں کو عبور کر کے آنا ہوگا : ؎ انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے ! حضور ﷺ کا فرمان ہے : حُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّھَوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِہِ 1 ”جہنم کو نفس کی مرغوب چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔“ ان ناپسندیدہ چیزوں میں مال و اولاد کی محبتوں کی قربانی سرفہرست ہے۔ آج اگر کسی شخص کے بارے میں آپ یہ معلوم کرنا چاہیں کہ اس کے دل میں کتنا ایمان ہے تو یہ دیکھ لیجیے کہ وہ اپنی اولاد کو کیا بنانا چاہتا ہے۔ بظاہر ایک شخص اگر بہت بڑا عالم دین ‘ صوفی ‘ مسند نشین اور پیر طریقت ہے لیکن اپنی اولاد کو وہ ایمان وآخرت کے راستے پر ڈالنے کے بجائے پیسے بنانے والی مشین بنانے کی کوشش میں ہے تو جان لیجیے کہ اس کے باطن میں دین اور دینی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اب اس سلسلے کی تیسری بات سنیے : { وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ۔ } ”اور اللہ ہی کے پاس اجر عظیم ہے۔“ تمہارے اعمال کا اصل اجر اور بدلہ تمہیں اللہ تعالیٰ سے ملے گا ‘ لہٰذا کسی اور سے کسی اجر کی توقع نہ رکھنا۔ اولاد کے بارے میں بھی مت امید رکھنا کہ وہ تمہارے بڑھاپے کا سہارا بنے گی۔ ہوسکتا ہے یہی اولاد جس کے لیے آج تم اپنا ایمان تک دائو پر لگانے کو تیار ہوجاتے ہو ‘ بڑھاپے میں تمہیں ٹھوکریں مارے اور بعض اوقات اولاد کی زبان کی ٹھوکریں والدین کے لیے ان کی پائوں کی ٹھوکروں سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ اس تکلیف کی کیفیت اس باپ سے پوچھیں جس کا بیٹا اس کے سامنے سینہ تان کر کہتا ہے : ابا جان آپ ہمیشہ بےموقع بات کرتے ہیں ‘ اس معاملے میں آپ خاموش رہیں ‘ آپ کو کیا معلوم کہ زمانہ کہاں سے کہاں چلا گیا ہے !
Top