Urwatul-Wusqaa - At-Taghaabun : 15
اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ : بیشک مال تمہارے وَاَوْلَادُكُمْ : اور اولاد تمہاری فِتْنَةٌ : آزمائش ہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس اَجْرٌ عَظِيْمٌ : اجرعظیم ہے
بلاشبہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے اور اللہ کے پاس (اس کا) بہت بڑا اجر ہے
مال و اولا کو آزمائش سمجھو اور انکے فرائض پورے کرتے ہوئے اللہ سے اجر کے طلب گار بنو 15 ؎ مال اور اولاد کی محبت انسان کی محبت میں داخل ہے بلکہ اس کو یوں کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ ہر حیوان کی فطرت میں اولاد کی محبت موجزن ہے اور انسان تو ایک اشرف المخلوقات ہے اور اس میں مال اور اولاد کی محبت کا ہونا لوازمات زندگی میں سے ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ جب مال و اولاد کی محبت میں ایسا وارفتہ ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں غفلت کرنے لگے اور احکام اسلام کی پابندی میں تساہل برتنے لگے۔ اسلام اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ ایک پکے اور سچے مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ( اشد حب اللہ) کا ثبوت فراہم کرے ۔ اس کی وضاحت چاہتے ہوں تو عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة البقرہ کی آیت 165 کی تفسیر دیکھیں ۔ اولاد کی صحیح اور درست پرورش لزومات اسلام میں سے ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لیے بھی مال ضروری ہے لہٰذا ہر ضرورت کو اس کی حد تک رکھنا اسلام ہے ۔ ایک ضرورت کو اتنا اوپر لے جانا کہ دوسری ضرورتوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلی جائیں یہ وہ فتنہ ہے جس سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اولاد دی اور کوئی شخص اس اولاد کی محبت میں ایسا پھنسا کہ دوسرے حقوق کی طرف سے منہ پھیرلیا تو ظاہر ہے کہ وہ اولاد اس کے لیے فتنہ و آزمائش بن گئی ۔ یہ حقوق و فرائض کیا ہیں ؟ یہ محض انسان کی آزمائش کے لیے ہیں ، پھر ان کا خیال کس طرح رکھا جاسکتا ہے ؟ اس طرح کہ حقوق کے معاملہ میں انسان دوسروں کے حقوق کو سمجھے اور ان کو پورا کرے اور ایک کے حق کو دوسرے کے حق میں ضائع نہ کر دے مثلاً اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اللہ کے رسول ﷺ کا حق ہے ، والدین کا حق ہے ، اولاد کا حق ہے ، بیوی کا حق ہے ، عزیز و اقارب کا حق ہے ، معاشرے کے حقوق ہیں ۔ پہلے انسان ان سارے حقوق کو سمجھنے کی کوشش کرے پھر ان سب کو اپنے اوپر فرض سمجھ کر پورا کیا جائے اور سب حقوق الگ الگ ادا کیے جائیں ۔ کسی ایک یا دوسرے حق کو ادا کرتے ہوئے چھوڑ نہ دیا جائے یا اس میں کمی بیشی نہ ہوجائے اور پھر اس سے بھی بھڑ کر یہ کہ ان سب پر جو اس کے حقوق بنتے ہیں ان کے ساتھ اپنے حقوق کو مشروط نہ کیا جائے کہ وہ میرے حقوق ادا کریں گے تو میں ان کے کروں گا ۔ نہیں ! اس سے فساد پیدا ہو گا جو زندگی کو خراب کر دے گا اور حقوق کی ادائیگی میں غفلت ہوگی ۔ اگر اس طرح جائز اور صحیح ہوتا تو غور کرو کہ تمہاری زندگی آج کتنی اجیرن ہوتی مثلاً آج کل غور کرو کہ جو حق اللہ کے اپنے بندوں پر ہیں اس کو کون پورا کر رہا ہے ؟ بڑے غور و فکر سے آپ جواب دیں تو شاید کوئی ایک بھی آپ کی نظر میں ایسا نہ دکھائی دے پھر اگر اللہ تعالیٰ پر جو بندوں کے حقوق ہیں اگر وہ ان کو روک لے تو انجام کیا ہو ؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس طرح کسی ایک انسان کے حق کو روکا ہے ؟ نہیں ! اور بلا شبہ نہیں تو اس لیے ہم نے یہ کہا کہ ہر شخص کو حق ہے کہ وہ اپنے اوپر جو جو دوسروں کے حقوق ہیں ان کا خیال کرے اور ہر ممکن ان کو پورا کرنے کی کوشش کرے لیکن جو دوسروں پر اس کے حقوق نکلتے ہیں ان کا خیال نہ کرے۔ جو شخص یہ اصول اپنی زندگی پر لا گو کرتے سمجھ لو کہ بحمد اللہ زندگی کی حقیقت کو سمجھ لو ۔ بد قسمتی سے آج اہم اس معاملہ میں بہت تساہل برت رہے ہیں اور شاید ہی کوئی ہوگا جو اپنے فرائض میں میانہ روی سے کام لے رہا ہو اور ان کی ادائیگی کے لیے مستعد ہو ۔ اگر ایک طرف وہ خیال رکھتا ہے تو دوسری طرف سے غفلت ہوجاتی ہے اور اس طرح ہر طرف تجاوز ہی تجاوز ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر اپنے اموال اور اپنی اولاد کے سلسلہ میں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے انجام دو گے تو اللہ رب کریم سے تم پر مزیدفضل و احسان کی بارش ہوگی اور تمہارے اس عمل شکر گزاری کے باعث تم پر مزید انعامات کی بارش ہوگی اور تمہاری آخرت بھی یقینا سنورے گی۔
Top