Bayan-ul-Quran - Al-A'raaf : 2
كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَكُنْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ
كِتٰبٌ : کتاب اُنْزِلَ : نازل کی گئی اِلَيْكَ : تمہاری طرف فَلَا يَكُنْ : سو نہ ہو فِيْ صَدْرِكَ : تمہارے سینہ میں حَرَجٌ : کوئی تنگی مِّنْهُ : اس سے لِتُنْذِرَ : تاکہ تم ڈراؤ بِهٖ : اس سے وَذِكْرٰي : اور نصیحت لِلْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والوں کے لیے
یہ کتاب ہے (اے نبی ﷺ جو آپ پر نازل کی گئی ہے تو نہیں ہونی چاہیے آپ کے دل میں کچھ تنگی اس کی وجہ سے (یہ تو اس لیے ہے) تاکہ اس کے ذریعے سے آپ ﷺ خبردارکریں اور یہ یاد دہانی ہے اہل ایمان کے لیے
آیت 2 کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ رسول اللہ ﷺ دعوت کے لیے ہر ممکن طریقہ استعمال کر رہے تھے ‘ مگر آپ ﷺ کی سالہا سال کی جدوجہد کے باوجود مکہ کے صرف چند لوگ ایمان لائے۔ یہ صورت حال آپ ﷺ کے لیے باعث تشویش تھی۔ ایک عام آدمی تو اپنی غلطیوں کی ذمہ داری بھی دوسروں کے سر پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی کوتاہیوں کو بھی دوسروں کے کھاتے میں ڈال کر خود کو صاف بچانے کی فکر میں رہتا ہے ‘ لیکن ایک شریف النفس انسان ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ اگر اس کی کوشش کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آ رہے ہیں تو اس میں اس کی طرف سے کہیں کوئی کوتاہی تو نہیں ہو رہی۔ اس سوچ اور احساس کی وجہ سے وہ اپنے دل پر ہر وقت ایک بوجھ محسوس کرتا ہے۔ لہٰذا جب حضور ﷺ کی مسلسل کوشش کے باوجود اہل مکہ ایمان نہیں لا رہے تھے تو بشری تقاضے کے تحت آپ ﷺ کو دل میں بہت پریشانی محسوس ہوتی تھی۔ اس لیے آپ ﷺ کی تسلی کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اس قرآن کی وجہ سے آپ ﷺ کے اوپر کوئی تنگی نہیں ہونی چاہیے۔ لِتُنْذِرَ بِہٖ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ لِتُنْذِرَ بِہٖ وہی لفظ ہے جو ہم سورة الانعام کی آیت 19 میں بھی پڑھ آئے ہیں۔ وہاں فرمایا گیا تھا : وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ط اور یہ قرآن میری طرف اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تمہیں بھی خبردار کروں اور جس جس کو یہ پہنچے۔ یہاں مزید فرمایا کہ یہ اہل ایمان کے لیے ذِکْرٰی یاد دہانی ہے۔ یعنی جن سلیم الفطرت لوگوں کے اندر بالقوۃ potentially ایمان موجود ہے ان کے اس سوئے ہوئے dormant ایمان کو بیدار activate کرنے کے لیے یہ کتاب ایک طرح سے یاددہانی ہے۔ جیسے آپ کو کوئی چیز بھول گئی تھی ‘ اچانک کہیں اس کی کوئی نشانی دیکھی تو فوراً وہ شے یاد آگئی ‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کے حصول کے لیے اس کائنات کی نشانیوں کو یاد دہانی ذکریٰ بنا دیا ہے۔
Top