Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 2
كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَكُنْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ
كِتٰبٌ : کتاب اُنْزِلَ : نازل کی گئی اِلَيْكَ : تمہاری طرف فَلَا يَكُنْ : سو نہ ہو فِيْ صَدْرِكَ : تمہارے سینہ میں حَرَجٌ : کوئی تنگی مِّنْهُ : اس سے لِتُنْذِرَ : تاکہ تم ڈراؤ بِهٖ : اس سے وَذِكْرٰي : اور نصیحت لِلْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والوں کے لیے
یہ ایک (عظیم الشان) کتاب ہے جو اتاری گئی ہے آپ کی طرف (اے پیغمبر ! ) پس آپ کے دل میں اس کی وجہ سے کوئی تنگی نہیں ہونی چاہیے (اور اتاری اس لئے گئی کہ) تاکہ آپ خبردار کریں اس کے ذریعے اور تاکہ یہ ایک عظیم الشان نصیحت ہو ایمان والوں کے لئے1
1 قرآن حکیم ایک نہایت ہی عظیم الشان کتاب ہے : یعنی " کِتَابٌ " کی تنوین تعظیم کے لئے ہے۔ اور یہ ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ ِاس کی عظمتوں کا کوئی کنارہ نہیں۔ کہ اس جیسی دوسری کوئی کتاب نہ ہوئی ہے نہ ہوگی۔ اور یہی وہ کتاب حکیم ہے جو انسان کو اس کے آغاز و انجام، مبدا و منتہا، اس کے مقصد حیات، نظام حیات، حقوق اللہ اور حقوق العباد وغیرہ وغیرہ جملہ امور سے متعلق کامل ہدایت دیتی ہے۔ اور ان اہم بنیادی امور سے متعلق کامل، مکمل اور نہایت ہی جامع، معقول اور مبنی برحکمت تعلیمات سے نوازتی ہے۔ اور یہی وہ کتاب حکیم ہے جو وحی خدا وندی کی نعمت عظمیٰ کی امین و پاسدار ہے۔ اور ایسی کہ اس کے سوا اور کوئی ماخذ وحی خداوندی کا نہ کہیں ہے نہ قیامت تک کبھی ممکن ہی ہوسکتا ہے ۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ شَرََّفَّنَا بِہٖ وَبِالِایْمَانِ بہ والاشْتِغَالِ بِہ، اَللّٰھُمَّ فَزِدْنَا مِنْہُ وَثَبِّتْنَا عَلَیْہِ ۔ بہرکیف قرآن حکیم ایک عظیم الشان اور بےمثال کتاب ہے۔ 2 قرآن حکیم پوری ایک مُنَزَّل من اللہ کتاب ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ کتاب اتاری گئی ہے نہ کہ لکھی گئی۔ کیونکہ نبی کتاب لکھتا نہیں بلکہ اس پر کتاب اس کے رب کی جانب سے نازل کی جاتی ہے۔ اور قرآن حکیم ہی وہ واحد کتاب ہے جو پوری کی پوری منزل من اللہ کتاب ہے۔ اس میں کسی بھی انسان کی آمیزش کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اسی لیے اس کو جابجا " تنزیل " فرمایا گیا ہے جو کہ مصدر ہے۔ جس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ یہ خالصتاً نازل کردہ کتاب ہے جسکو حضرت حق ۔ جَلَّ مَجْدُہٗ ۔ نے اپنی مخلوق کی ہدایت و اصلاح کیلئے نازل فرمایا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ یہ آج تک ویسے ہی ہے جیسے کہ نازل ہوئی تھی اور قیامت تک ایسے ہی رہے گی۔ کیونکہ اس کی حفاظت اللہ نے خود اپنے ذمے لی ہے۔ سو یہ اس کی عظمت شان کے مختلف اہم پہلو ہیں ۔ والحمد للہ جل وعلا - 3 نبوت و رسالت کا شرف سب سے بڑا شرف : کیونکہ نبوت و رسالت کا شرف ہی وہ سب سے بڑا، عظیم الشان اور امتیازی شرف و وصف ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندئہ خاص کو نوازتا ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر حضرت امام الانبیائ۔ علیہ وعلیہم الصّلوۃ والسّلام ۔ کو اسی وصف سے پکارا گیا ہے۔ کہیں { یَا اَیُّہَا الرَّسُوْلُ } فرمایا گیا اور کہیں { یَا اَیُّہَا النَّبِیُّ } وغیرہ۔ اسی لئے ہم اس طرح کے خطاب کے موقع پر اسی طرح کا کوئی لفظ مقدر مانتے ہیں جبکہ بعض مدعیان عشق و محبت ایسے مواقع پر کہتے ہیں " اے محبوب " اور وہ بھی بغیر کسی فاصلہ یا بریکٹ وغیرہ کے۔ گویا کہ یہ متن قرآنی میں موجود کسی لفظ کا ترجمہ ہے۔ حالانکہ پورے قرآن حکیم میں کسی ایک مقام پر بھی آنحضرت ﷺ کو " اَیُّہَا الْمَحْبُوْبُ " جیسے کسی لفظ سے خطاب نہیں فرمایا گیا۔ حالانکہ محبوب کا لفظ بھی عربی زبان کا لفظ ہے۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ یہ ایک عظیم الشان کتاب ہے جس کو پیغمبر کی طرف اتارا گیا ہے۔ سو یہ سراسر کلام خداوندی ہے۔ 4 پیغمبر کیلئے تسکین وتسلیہ کی تعلیم و تلقین : سو پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ اس کی وجہ سے آپ کے دل میں کوئی تنگی نہیں ہونی چاہیے کہ اس کی تبلیغ پر لوگ تکذیب کریں گے وغیرہ (صفوۃ، محاسن وغیرہ) ۔ اور یہ کہ لوگ آپ کی دعوت کو قبول نہیں کرتے اور اس کے مقابلے میں طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا { وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ } (الحجر : 97) ۔ یعنی " ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ کا سینہ ان باتوں کی بنا پر گھٹ رہا ہے جو یہ لوگ بناتے ہیں "۔ سو ایسے طبعی امور سے روکنے اور منع کرنے کا مطلب پیغمبر کو تسلی دینا اور صبر و استقامت کی تلقین کرنا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ انبیاء و رسل نے کیا جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا { فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ } الآیۃ (الاحقاف : 35) ۔ سو اس ارشاد میں آنحضرت ﷺ کے لئے تسکین وتسلیہ کا سامان ہے کہ منکرین و مکذبین کی طرف سے جس تکذیب و انکار اور مذاق و استہزاء کا سامنا آج آپ کو کرنا پڑ رہا ہے یہ کوئی نئی اور انوکھی چیز نہیں۔ بلکہ ایسا پہلے سے ہوتا آیا ہے اور آپ کو بھی آج وہی کچھ کہا جا رہا ہے جو اس سے پہلے دوسرے انبیاء و رسل کو کہا گیا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا { مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَدْ قِیْلِ للرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ } الآیۃ (حٰم السجدہ : 43) ۔ 5 اِنزال کتاب کا اصل مقصود انذار و تذکیر : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ کتاب الہی کے انزال کا اصل مقصد انذار وتبشیر ہے۔ یعنی لوگوں کو خبردار کرنا ان کے انجام اور ان کے مصیر محتوم سے۔ تاکہ وہ راہ حق و صواب کو اپنا سکیں۔ اس سے پہلے کہ فرصت عمر ان کے ہاتھ سے نکل جائے ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف اس ارشاد سے پیغمبر کی اصل ذمہ داری اور اس کی حدود کو واضح فرما دیا گیا کہ آپ کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اس کتاب حکیم کے ذریعے لوگوں کو ان کے انجام سے خبردار کریں اور ان کو بتادیں کہ تکذیبِ حق کے نتیجے میں ان کو آخرت میں کیا کیا نتائج بھگتنے پڑینگے۔ آگے یہ لوگ مانتے اور ایمان لاتے ہیں یا نہیں لاتے یہ آپ کی ذمہ داری نہیں۔ بس آپ ان کو تذکیر اور یاد دہانی کرا دیں کہ انہوں نے کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے ؟ اور ایمان وانکار دونوں صورتوں میں اس کا صلہ وثمرہ کیا ہوگا۔ اور ان امور سے آگہی وحی خداوندی کے بغیر ممکن نہیں۔
Top