Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 2
كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَكُنْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ
كِتٰبٌ : کتاب اُنْزِلَ : نازل کی گئی اِلَيْكَ : تمہاری طرف فَلَا يَكُنْ : سو نہ ہو فِيْ صَدْرِكَ : تمہارے سینہ میں حَرَجٌ : کوئی تنگی مِّنْهُ : اس سے لِتُنْذِرَ : تاکہ تم ڈراؤ بِهٖ : اس سے وَذِكْرٰي : اور نصیحت لِلْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والوں کے لیے
(اے محمد یہ) کتاب (جو) تم پر نازل ہوئی ہے اس سے تم کو تنگدل نہیں ہونا چاہئے (یہ نازل) اس لئے (ہوئی ہے) کہ تم اس کے ذریعے سے (لوگوں کو) ڈر سناؤ اور (یہ) ایمان والوں کیلئے نصیحت ہے۔
کتب۔ خبر ہے۔ جس کا مبتدا محذوف ہے یعنی ھو کتاب۔ کتب سے مراد یہاں القران ہے۔ صدرک۔ تیرا سینہ۔ صدر سے۔ مضاف۔ ک ضمیر واحد مذکر حاضر۔ مضاف الیہ۔ واحد صدور۔ جمع۔ بعض حکماء کے نزدیک قرآن میں جہاں کہیں قلب کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں صرف علم و عقل کی طرف اشارہ ہے۔ جیسے فرمایا ہے ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب (50:37) جو شخص دل آگاہ رکھتا ہے اس کے لئے اس میں نصیحت ہے۔ اور جہاں صدر۔ استعمال ہوا وہاں علم و عقل کے علاوہ شہوت۔ ہوائے نفس اور غضب وغیرہ قوی نفسانیہ کی طرف بھی اشارہ ہے۔ چناچہ رب اشرح لی صدری (20:25) میں نفسانی قوی کی اصلاح کا سوال ہے۔ حرج۔ تنگی۔ مضائقہ ۔ شک۔ گناہ۔ تنگ۔ اصل میں حرج کے معنی اشیاء کے مجتمع یعنی جمع ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ اور جمع ہونے میں چونکہ تنگی کا تصور موجود ہے اس لئے تنگی اور گناہ کو بھی حرج کہا جاتا ہے۔ چناچہ اور جگہ آیا ہے ثم لا یجدوا فی انفسہم حرجا (4:25) اور ۔۔ پھر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں (نہ محسوس کریں) کبیدہ خاطر نہ ہوں۔ فلا یکن فی صدرک حرج منہ۔ پس نہ چاہیے کہ نہ ہو تیرے سینہ میں کوئی شک یا تنگی خاطر اس سے۔ تقدیر کلام یوں ہے ۔ ھذا کتب انزل الیک لتنذر بہ وذکری للمؤمنین فلایکن فی صدرک حرج منہ۔ یہ کتاب (القرآن) ہے ۔ جو نازل کی گئی ہے تیری طرف تاکہ تو ڈرائے (لوگوں کو) اس (کی نواہی سے پرہیز نہ کرنے کی عاقبت) سے اور یہ ایک نصیحت ہے مومنوں کے لئے۔ پس چاہیے کہ تیرے سینہ میں اس (کی تبلیغ) کے متعلق کوئی تنگی و شک و شبہ نہ ہو۔ یعنی آپ بلا جھجک اور بےدھڑک اس کی تبلیغ فرمادیں۔ مخالفین کی تکذیب اور تنقید کا کوئی ڈر دل میں نہ رکھیں۔ کیونکہ تیرے اللہ کی طرف سے یہ حق و صداقت پر مبنی کتاب ہے۔ ذکری۔ نصیحت کرنا۔ بہت ذکر کرنا۔ یاد۔ پندو نصیحت۔ موعظت۔ ذکر ٰذکر (نصر) کا مصدر ہے۔ کثرت ذکر کے لئے ذکری بولا جاتا ہے۔ یہ ذکر سے زیادہ بلیغ ہے۔ ذکری کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں۔:۔ (1) یہ بحالت نصب ہے اضمار فعل کے ساتھ ای لتنذر بہ وتذکر تذکیرا۔ اس صورت میں الذکری بمعنی التذکیر ہے۔ (2) یہ بحالت رفع ہے۔ اور اس کا عطف کتب پر ہے۔ ای ھو کتب وذکر للمؤمنین۔ (3) یہ بحالت جر ہے۔ والعطف علی محل لتنذر بمعنی للانذار ارد للذکری ڈرانے کے لئے اور نصیحت کے لئے۔
Top