Madarik-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 2
كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَكُنْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ
كِتٰبٌ : کتاب اُنْزِلَ : نازل کی گئی اِلَيْكَ : تمہاری طرف فَلَا يَكُنْ : سو نہ ہو فِيْ صَدْرِكَ : تمہارے سینہ میں حَرَجٌ : کوئی تنگی مِّنْهُ : اس سے لِتُنْذِرَ : تاکہ تم ڈراؤ بِهٖ : اس سے وَذِكْرٰي : اور نصیحت لِلْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والوں کے لیے
(اے محمد یہ) کتاب (جو) تم پر نازل ہوئی ہے اس سے تم کو تنگدل نہیں ہونا چاہئے (یہ نازل) اس لئے (ہوئی ہے) کہ تم اس کے ذریعے سے (لوگوں کو) ڈر سناؤ اور (یہ) ایمان والوں کیلئے نصیحت ہے۔
آیت 2: کِتٰبٌ (یہ ایک کتاب ہے) یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے یعنی ھُوَ کِتَابٌوہ کتاب۔ اُنْزِلَ اِلَیْکَ (جو آپ کے اوپر اتاری گئی ہے) یہ کتاب کی صفت ہے کتاب سے مراد سورت ہے۔ تسلیہ رسول اللہ ﷺ کفار کے انکار سے تنگ دل نہ ہوں : فَلاَ یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ (آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہونی چاہیے) حرج کا معنی شک ہے اور شک کو حرج سے تعبیر اس لیے فرمایا کہ شک کرنے والے کا دل تنگ ہوتا ہے جیسا کہ یقین کرنے والے کے دل میں کشائش ہوتی ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتارے جانے میں شک نہ کر۔ یا اس کی تبلیغ کے سلسلہ میں تنگی نہیں ہونی چاہیے آپ ﷺ اپنی قوم کی تکذیب اعراض و ایذاء کا خدشہ پا کر ان کے ایذاء سے دل میں تنگی محسوس کرتے تھے۔ اور دل میں اس کے متعلق نشاط پیدا نہیں ہورہی تھی۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مطمئن فرما کر اس بات کی بالکل پرواہ نہ کرنے کا حکم دیا۔ فلا یکن میں حرج ہی کی نفی فرمائی گئی۔ کیا خوب بلاغت کے ساتھ فرمایا اس کتاب کو ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے اس کے اتارے جانے کے بعد آپ دل میں تنگی محسوس نہ کریں لِتُنْذِرَبِہٖ (تاکہ اس کے ذریعہ (منکروں) کو ڈرائیں) اس میں لام انزل کے متعلق ہے تقدیر عبارت یہ ہے انزل الیک لانذارک بہ اس کتاب کو آپکی طرف اتارا گیا تاکہ آپ اس کے ذریعہ ڈرائیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ لام جو تنذر کا ہے اس کا تعلق لایکن کی نہی سے ہے کیونکہ جب آپ ان سے نہ ڈرائیں گے تو ان کو ڈرائیں گے۔ اور اسی طرح جب ان کو یقین ہوجائے گا کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو یقین آپ کو نافرمانی سے ڈرانے کے لیے جرأت مند بنا دے گا کیونکہ صاحب یقین بہادر و جراءت مند اور اپنے رب پر توکل کرنیوالا ہوتا ہے۔ نحوی تحقیق : وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ (اور اہل ایمان کیلئے یہ ایک نصیحت ہے) یہ فعل مضمر کا مفعول ہونے کی بناء پر منصوب ہے یعنی تنذربہ و تذکر تذکیرًا تاکہ تم اس کے ذریعہ ڈرائو اور نصیحت کرو خوب نصیحت کرنا۔ اَلذِکْرٰی یہ اسم ہے اور تذکیر مصدر کے معنی میں ہے۔ نمبر 2۔ کتاب پر عطف کی وجہ سے مرفوع ہے۔ یعنی ہو کتابٌ و ذکری للمؤمنین وہ کتاب اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے۔ نمبر 3۔ مبتداء محذوف کی خبر ہے یعنی وہ مؤمنوں کے لئے نصیحت ہے۔ نمبر 4۔ محل جر میں واقع ہے تنذر کے محل پر عطف کی وجہ سے تقدیر عبارت یہ ہے : للانذار وللذکرٰی انذار کے لئے اور نصیحت کے لئے۔
Top