Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 2
كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْكَ فَلَا یَكُنْ فِیْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ
كِتٰبٌ : کتاب اُنْزِلَ : نازل کی گئی اِلَيْكَ : تمہاری طرف فَلَا يَكُنْ : سو نہ ہو فِيْ صَدْرِكَ : تمہارے سینہ میں حَرَجٌ : کوئی تنگی مِّنْهُ : اس سے لِتُنْذِرَ : تاکہ تم ڈراؤ بِهٖ : اس سے وَذِكْرٰي : اور نصیحت لِلْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والوں کے لیے
یہ کتاب اتری ہے تجھ پر سو چاہئے کہ تیرا جی تنگ نہ ہو اس کے پہنچانے سے تاکہ ڈرائے اس سے اور نصیحت ہو ایمان والوں کو
معارف و مسائل
پوری سورة پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورة کے مضامین زیادہ تر معاد، یعنی آخرت اور نبوت و رسالت کے متعلق ہیں، چناچہ ابتداء سورة سے چھٹے رکوع تک تقریباً مضمون معاد و آخرت کا بیان ہوا ہے، پھر آٹھویں رکوع سے اکیسویں رکوع تک انبیاء سابقین کے حالات اور ان کی امتوں کے واقعات ان کی جزاء و سزا اور ان پر آنے والے عذابوں کا مفصل تذکرہ ہے۔
(آیت) فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ پہلی آیت میں رسول کریم ﷺ کو خطاب فرما کر یہ ارشاد کیا گیا ہے کہ یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے جو آپ ﷺ کے پاس بھیجی گئی ہے، آپ ﷺ کو اس کی وجہ سے دل تنگی نہ ہونی چاہئے، دل تنگی سے مراد یہ ہے کہ قرآن کریم اور اس کے احکام کی تبلیغ میں آپ ﷺ کو کسی کا خوف مانع نہ ہونا چاہئے کہ لوگ اس کو جھٹلا دیں گے اور آپ ﷺ کو ایذاء دیں گے، (کذاروی عن ابی العالیة، مظہری)
اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جس نے آپ ﷺ پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے اس نے آپ ﷺ کی امداد و حفاظت کا بھی انتظام کردیا ہے، اس لئے آپ ﷺ کیوں دل تنگ ہوں، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس جگہ دل تنگی سے مراد یہ ہے کہ قرآن اور احکام اسلام سن کر بھی جو لوگ مسلمان نہ ہوتے تھے تو یہ آنحضرت ﷺ پر بوجہ شفقت کے شاق ہوتا تھا، اسی کو دل تنگی سے تعبیر کیا گیا، اور یہ بتلایا گیا ہے کہ آپ ﷺ کا فرض منصبی صرف تبلیغ و دعوت کا ہے، جب آپ ﷺ نے یہ کام کرلیا تو اب یہ ذمہ داری آپ کی نہیں کہ کون مسلمان ہوا کون نہیں ہوا، پھر آپ ﷺ کیوں بلا وجہ دل تنگ ہوں۔
Top