Dure-Mansoor - Ibrahim : 24
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا كَيْفَ : کیسی ضَرَبَ اللّٰهُ : بیان کی اللہ نے مَثَلًا : مثال كَلِمَةً طَيِّبَةً : کلمہ طیبہ (پاک بات) كَشَجَرَةٍ : جیسے درخت طَيِّبَةٍ : پاکیزہ اَصْلُهَا : اس کی جڑ ثَابِتٌ : مضبوط وَّفَرْعُهَا : اور اس کی شاخ فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی وہ مثال کلمہ طیبہ کی ہے جو شجرہ طیبہ کی طرح سے ہے اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخیں بلندی میں ہیں
1:۔ امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے ” الاسماء والصفات “ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الم ترکیف ضرب اللہ مثلا کلمۃ طیبۃ “ سے مراد ہے ” لا الہ اللہ “ کی گواہی (آیت) ” کشجرۃ طیبۃ “ سے مراد ہے مومن ” اصلھاثابت “ یعنی وہ کہتا ہے ‘ الا الہ الا اللہ “ ثابت (یعنی وہ مضبوط ہے) مومن کے قول میں (آیت) ” وفرعھا فی السمآء “ یعنی اس کے ذریعے مومن کا عمل بلند ہوتا ہے آسمان کی طرف (آیت ) ” ومثل کلمۃ خبیثۃ “ سے مراد ہے شرک اور ” کشجرۃ خبیثۃ “ سے مراد ہے کافر ،” اجتثت من فوق الارض مالھا من قرار “ یعنی شرک ایسا ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں کہ جس کو کافر پکڑتا ہے نہ اس کی کوئی دلیل ہے اور نہ اللہ تعالیٰ شرک کے ساتھ کسی عمل کو قبول فرماتے ہیں۔ پاکیزہ اور خبیث درخت : 2:۔ امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے ” الم ترکیف ضرب اللہ مثلا “ کے بارے میں روایت کیا کہ پاکیزہ درخت سے مراد ہے مومن اور اس کی جڑمضبوط ہے زمین میں اور اس کی شاخیں میں آسمان میں مومن زمین میں عمل کرتا ہے اور بات کرتا ہے اس کا عمل اور اس کی بات آسمان میں پہنچتی ہے حالانکہ کہ وہ زمین پر ہوتا ہے (آیت ) ” توتی اکلھا کل حین باذن ربھا “ یعنی وہ رات اور دن میں ہر وقت اللہ کا ذکر کرتا ہے (آیت) ” ومثل کلمۃ خبیثۃ “ یعنی اللہ تعالیٰ خبیث درخت کی مثال بیان فرماتے ہیں جیسے مثال ہے کافر کی اور فرماتے ہیں کہ یہ خبیث درخت (آیت) ” اجتثت “ (اکھاڑلیا جائے) زمین کے اوپر سے ” مالھا من قرار “ یعنی کافر کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہوتا ہے اس کا کی کوئی جڑ نہیں جو مضبوط ہو زمین میں اور نہ کوئی اس کی شاخ آسمان میں کہتے ہیں۔ اس کا کوئی نیک عمل نہیں ہے دنیا میں اور نہ آخرت میں ہوگا۔[ 3:۔ امام ابن جریر نے ربیع بن انس (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ومثل کلمۃ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت “ کہ وہ یہ آیت پڑھتے تھے اور فرماتے یہ مومن کی مثال ہے (پھر) فرمایا اخلاص اس ایک اللہ کے لئے اور اسی کی عبادت ہے کہ اس کا کوئی شریک نہیں (آیت) ” اصلھا ثابت “ یعنی اس کے عمل کی جڑ مضبوط ہے زمین میں (آیت ) ” وفرعھا فی السمآء “ یعنی اس کا ذکر ہے آسمان میں (آیت) ” توتی اکلھا کل حین “ یعنی اس کا عمل اوپر اٹھایا جاتا ہے دن کے اول میں اور اس کے آخر میں (آیت ) ” ومثل کلمۃ خبیثۃ “ یہ مثال ہے کافر کی اس کا کوئی عمل نہیں ہوتا زمین میں اور اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا آسمان میں (آیت) ” من فوق الارض مالھا من قرار “ یعنی ان کے اعمال (گویا) کہ وہ اٹھائے ہوئے ہیں اپنے گناہوں کو اپنی پیٹھوں پر۔ 4:۔ امام ابن جریر نے عطیہ عوفی (رح) سے روایت کیا کہ مثلا (آیت) ” ومثل کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ “ یعنی یہ مثال ہے مومن کی جو بھی پاکیزہ بات اس کے منہ سے نکلتی ہے اور اس کا نیک عمل بلند ہوتا ہے۔ (آیت) ” ومثل کلمۃ خبیثیۃ کشجرۃ خبیثۃ “ یعنی یہ مثال ہے کافر کی نہ اس کی پاکیزہ بات اور نہ اس کا نیک عمل بلند ہوتا ہے۔ 5:۔ امام ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” کشجرۃ طیبۃ “ سے لے کر توتی اکلھا کل حین “ یعنی ہر وقت اس کا پھل جمع کیا جتا ہے اور یہ مومن کی اور وہ ہر وقت عمل کرتا ہے اور وہ ہر گھڑی دن میں اور رات میں عمل کرتا ہے اور سردی میں اور گرمی میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ عمل کرتا ہے (پھر فرمایا) اور اللہ تعالیٰ نے کافر کی مثال بیان فرمائی (آیت) ” کشجرۃ خبثۃ اجتثت من فوق الارض مالھا من قرار “ یعنی نہ اس کی کوئی جڑ ہے اور نہ اس کی کوئی شاخ ہے اور نہ اس کا کوئی پھل ہے اور نہ اس میں کوئی نفع ہے اسی طرح کافر ہے جو خیر کا عمل نہیں کرتا اور نہ کوئی خیر کی بات کہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے نہ اس میں کوئی برکت رکھی ہے اور نہ اس کے لئے کوئی نفع ہے۔ عمل میں اخلاص ہونا ضروری ہے : 6:۔ امام ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کو نور بنایا ہے اور اپنی نافرمانی کو اندھیرا بنایا ہے کہ دنیا میں ایمان ہی وہ نور ہوگا قیامت کے دن، پھر کافر کے نہ خیر ہے اس بات میں اور نہ عمل میں نہیں ہے، اس کی کوئی اصل اور نہ فرع اور تحقیق یہ ایمان کی مثال بیان کی گئی اور فرمایا (آیت) ” الم ترکیف ضرب اللہ مثلا کلمۃ طیبۃ “ سے لے کر ” وفرعھا فی السمآء “ تک اور یہ مثالیں ہیں ایمان کی اور کفر کی ذکر کیا گیا کہ مخلص مومن بندہ وہ ایک درخت ہے کہ اس کی جڑ مضبوط ہے زمین میں اور اس کی شاخ پہنچ ہے آسمان میں اس لئے جڑ مضبوط ہے ( گویا) اخلاص ہے اس ایک اللہ کے لئے اور اخلاص ہے اس کی عبادت میں کہ اس کا کوئی شریک نہیں پھر شاخ وہ نیکی ہے پھر اس کا عمل بلند ہوتا ہے دن کے اول میں اس کے آخر میں (یعنی صبح وشام) اور وہ (آیت) توتی اکلھا کل حین باذن ربھا “ پھر وہ چار اعمال ہیں جب ان کو بندے نے جمع کردیا یعنی اخلاص ہے ایک اللہ کے لئے اور اس کی عبادت ہے کہ (اس میں) اس کا کوئی شریک نہیں اور اس کا خوف اور اس کی محبت اور اس ذکر جب بندہ ان کو جمع کرتا ہے تو اس کو کوئی فتنہ ضرر نہیں دے گا۔ 7:۔ امام ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! مال والے اجر لے اڑے آپ ﷺ نے فرمایا بتاؤ اگر ایک آدمی دنیا کے سامان کی طرف ارادہ کرے پھر بعض ان کا بعض کی طرف سوار ہو کرجاتا ہے تو کیا ان کا یہ عمل آسمان کی طرف بلند ہوتا ہے ؟ کیا میں تم کو خبر نہ دوں ایسے عمل کے ساتھ کہ اس کی جڑ زمین میں اور اس کی شاخ آسمان میں ہے تو کہتا ہے ” لا الہ الا اللہ “ اللہ اکبر، سبحان اللہ اور الحمد للہ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ یہی وہ عمل ہے جس کی جڑ زمین ہے اور اس کی شاخ آسمان میں ہے۔ 8:ـ۔ امام ترمذی، نسائی، بزار، ابویعلی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن حبان، حاکم اور ابن مردویہ نے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کھجوروں کا ایک طشت لایا گیا جو کھجوروں کی شاخوں سے بنا ہوا تھا اور فرمایا (آیت) ” مثل کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ “ یہاں تک کہ (آیت) ” توتی اکلھا کل حین باذن ربھا “ تک پہنچے پھر فرمایا کہ یہ پاکیزہ درخت کھجور سے اور (آیت) [’ ومثل کلمۃ خبیثۃ کشجرۃ “ یہاں تک کہ ” مالھا من قرار “ تک پہنچے پھر فرمایا کہ خبیث درخت تو رتماں (ایلوا) کا ہے۔ 9:۔ امام عبدالرزاق، ترمذی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، اور رامھر مزی نے الامثال میں شعیب بن حجاب (رح) سے روایت کیا کہ ہم انس ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ہمارے پاس ایک تھال لایا گیا کہ اس کے اوپر پکی کھجوریں تھیں انس ؓ نے ابو عالیہرحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا اے ابوعالیہ کھاؤ یہ وہ درخت ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ( یعنی فرمایا) (آیت) ضرب اللہ مثل کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلھا “ راوی نے کہا اس دن انس ؓ نے اس کو اسی طرح پڑھا تھا امام ترمذی فرماتے ہیں یہ موقوف اصح ہے۔ 10:۔ امام احمد اور ابن مردویہ نے سند جید کے ساتھ ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (آیت) ” کشجرۃ طیبۃ “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد کھجور کا درخت ہے کہ جس کے پتے کم ہوتے ہیں۔ 11:۔ امام بخاری، ابن جریر وابن منذر ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ ﷺ نے فرمایا مجھے ایسے درخت کے بارے میں بتاؤ جو مسلمان آدمی کی طرح ہے اس کے پتے نہیں گرتے اور وہ ہر وقت پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے، عبداللہ ؓ نے فرمایا کہ میرے دل میں یہ بات آئی کہ وہ (درخت) کھجور کا ہے میں نے ارادہ کیا کہ میں کہہ دوں کہ یہ درخت کھجور کا ہے چونکہ میں عمر میں سب سے چھوٹا تھا اور وہاں ابوبکر وعمر ؓ (بھی موجود) تھے جس ان دونوں نے کوئی بات نہیں کی تو رسول اللہ ﷺ نے (خود ہی) فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ 12:۔ امام ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ (آیت) ضرب اللہ مثل کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کی یہ درخت کون سا ہے۔ ؟ صحابہ کرام ؓ نے فرمایا میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ پر حق کے ساتھ کتاب کو نازل فرمایا میرے دل میں یہ بات واقع ہوئی تھی کہ وہ درخت کھجور کا ہے لیکن میں صحابہ میں سب سے چھوٹا تھا میں بات کرنا پسند نہ کیا تو رسول اللہ ﷺ اس وقت فرمایا وہ ہم میں سے نہیں ہے جو بڑوں کی عزت نہ کرتا ہو اور چھوٹوں پر رحم نہ کرتا ہو۔ شجرئہ طیبہ سے مراد : 13:۔ امام ابن جریر وابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ وہ شجرہ طیبہ کون سا ہے ؟ ابن عمر ؓ نے فرمایا میں نے ارادہ کیا میں کہوں کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن مجھے حضرت عمر ؓ کے مقام اور مرتبہ نے روک دیا۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ کھجور (کادرخت) ہے۔ 14:۔ امام ابن ابی شیبہ، ابن جریر اور ابن منذر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کشجرۃ طیبۃ “ سے مراد ہے کھجور (کا درخت) ۔ 15:۔ امام فریابی سعید بن منصور، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے چند طرق (طریق کی جمع) سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کشجرۃ طیبۃ “ سے مراد ہے کھجور (آیت) ” توتی اکلھا کل حین باذن “ یعنی صبح اور شام کو۔ 16:۔ امام ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کشجرۃ طیبۃ “ سے مراد ہے کھجور اور (آیت ) ” کشجرۃ خبیثۃ “ سے مراد ہے کوڑتماں (ایلوا) ۔ 17:۔ امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور رامھرمزی نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کشجرۃ طیبۃ “ سے مراد ہے کھجور کہ اس (ہر) چیز سے نفع اٹھایا جاتا ہے چاہے وہ پھل ہوں یا لکڑی ہوں اور فرمایا اسی طرح کلمہ طیبہ ہے اس کا مالک نفع اٹھاتا ہے دنیا اور آخرت میں۔ 18:۔ امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” توتی اکلھا کل حین “ سے مراد ہے ہر گھڑی رات اور دن میں اور گرمی اور سردی میں اور یہ مثال مومن کی وہ اپنے رب کی اطاعت کرتا ہے رات میں دن میں گرمی میں (اور) سردی میں۔ 19:۔ امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” توتی اکلھا کل حین “ سے مراد ہے کھجو رہے وہ (پھل) سبز ہوتا ہے پھر زرد ہوجاتا ہے۔ 20:۔ امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہے کہ (آیت) ” توتی اکلھا کل حین “ سے مراد ہے کھجور (کا پھل) کاٹنا۔ 21:۔ امام فریابی، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ (آیت) ” توتی اکلھا کل حین “ سے مراد ہے کہ وہ پھل دیتا ہے ہر چھ ماہ میں۔ 22:۔ امام ابن جریر، ابن منذر، اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ ان سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے قسم کھائی تھی وہ اس طرح اور اس طرح فلاں وقت تک نہیں کرے گا عکرمہ ؓ نے فرمایا حین کا لفظ کبھی ایسے وقت کے لئے استعمال ہوتا ہے جو معلوم ہوتا ہے اور کبھی ایسے وقت کے لئے استعمال ہوتا ہے جو معلوم نہیں ہوتا پس وہ حین جس کا وقت معلوم نہیں ہوتا اس کی مثال وہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے (آیت) ” ولتعلمن نباہ بعد حین “ (ص آیت 89) اور وہ حین جس کا وقت معلوم ہوتا ہے اس کی مثال یہ ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” توتی اکلھا کل حین “ اور وہ حین ہے جو معلوم ہے یہ کھجور (کا پھل) کٹنے سے لے کر اس کے دوبارہ نکلنے تک ہے اور وہ چھ ماہ ہوتے ہیں۔ 23:۔ امام ابو عبید، ابن ابی شیبہ، ابن جریر اور ابن منذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور کہا میں نے قسم کھائی ہے کہ میں اپنے بھائی سے ایک عرصہ تک بات نہیں کروں گا ابن عباس ؓ نے فرمایا تو نے کچھ وقت مقرر کیا تھا ؟ اس نے کہا نہیں تو فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” توتی اکلھا کل حین “ تو اس میں حین سے مراد ہے ایک سال۔ 24:۔ امام بیہقی نے سنن میں علی ؓ سے روایت کیا کہ ” حین “ سے مراد ہے چھ ماہ۔ 25:۔ امام بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” حین ‘ کبھی ایک صبح اور کبھی ایک شام کا بھی ہوتا ہے۔ 26:۔ امام ابن جریر نے سعید بن جریر کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کی کی ان سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی نے قسم کھائی کہ میں اپنے بھائی سے ایک مدت تک نہیں بولوں گا انہوں نے فرمایا حین چھ ماہ کا ہے پھر کھجور کا ذکر فرمایا کہ اس کے پھل لگنے اور اس کے توڑنے کے درمیان چھ ماہ ہوتے ہیں۔ 27:۔ امام ابن جریر اور ابن منذر نے عکرمہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ” حین “ کی دو صورتیں ہیں ایک معلوم دوسرا نامعلوم جو حین معلوم نہیں ہوتا اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ قول (آیت) ” ولتعلمن نباہ بعد حین “ (سورئہ ص : آیت 88) اور جو معلوم ہوتا ہے اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ قول (آیت) ” توتی اکلھا کل حین “۔ 28:۔ امام ابن جریر مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” کل حین “ سے مراد ہے ہر سال “ 29:۔ امام ابن جریر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ عمر بن عبدالعزیز (رح) نے میری طرف ایک آدمی بھیجا اور فرمایا : اے ابن عباس ؓ کے غلام ! میں نے قسم کھائی ہے کہ میں اس طرح ایک مدت تک نہ کروں گا جو حین معروف ہوتا ہے وہ کتنا ہے ؟ میں نے کہا حین میں سے ایک حین وہ ہوتا ہے جس کی مدت معلوم ہوتی ہے اور ایک وہ حین ہوتا ہے جس کی مدت معلوم نہیں ہوتی وہ حین جس کی مدت معلوم نہیں ہوتی اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے (آیت) ” ھل اتی علی الاانسان حین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا (الدھر آیت 1) اللہ کی قسم ! ہم نہیں جانتے کہ کتنے عرصے کے بعد انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا اور اللہ تعالیٰ کا قول ہے (آیت) ” توتی اکلھا کل حین “ اس آدمی نے کہا : اے مولی ابن عباس ؓ تو نے ٹھیک کہا کتنا اچھا تو نے کہا (کیا ہی خوب تو نے کہا) 30:۔ امام ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سعید ابن مسیب سے روایت کیا کہ حین دو ماہ کا عرصہ ہے اور کھجور کا درخت دو ماہ پھل دار رہتا ہے۔ 31:۔ امام عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” توتی اکلھا کل حین “ یعنی اس کا پھل سردی اور گرمی میں کھایا جاتا ہے۔ 32:۔ امام بیہقی نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” توتی اکلھا کل حین “ سے مراد ہے ہر سات ماہ میں۔ 33:۔ امام ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” توتی اکلھا کل حین “ سے مراد ہے کہ ہندوستان کے اخروٹ کا درخت ہے اس کا پھل ضائع نہیں ہوتا ہر ماہ میں پھل اٹھایا جاتا ہے۔ 34:۔ امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت فرمایا کہ (آیت ) ” کشجرۃ طیبۃ “ سے مراد جنت کا ایک درخت ہے اور (آیت) ” کشجرۃ خبیثۃ “ یہ ایک مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی، اللہ تعالیٰ نے اس درخت کو زمین پر پیدا نہیں فرمایا۔ 35:۔ امام ابن مردویہ نے عدی ابن حاتم سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو الٹ پلٹ کیا ظاہری طور پر اور باطنی طور پر اور عرب کے بہترین لوگ قریش تھے اور یہی وہ مبارک درخت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا اور (آیت ) ” مثلا کلمۃ طیبۃ “ سے مراد ہے قرآن ”(آیت ) ” کشجرۃ طیبۃ “ سے مراد ہیں قریش (آیت) ” اصلھا ثابت “ یعنی اس کی اصل بڑی ہے (آیت) ” وفرعھا فی السمآء “ میں فرع سے مراد قریش کا شرف ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام کے ذریعے عطا فرمایا اور جو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت عطا فرمائی اور ان کو اسلام کے اہل میں سے بنادیا (صحیح احادیث میں اس کی تفسیر کھجور کے درخت کی آئی ہے ) 36:۔ امام ابن مردویہ نے حیان بن شعبہ کے طریق سے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کشجرۃ خبیثۃ “ سے مراد ہے شریان، میں نے انس ؓ سے پوچھا کہ شریان کیا چیز ہے فرمایا حنظل یعنی کوڑ تماں۔ 37:۔ امام ابن ابی حاتم نے ابو صخر حمید بن زیاد خراط (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ (آیت) ” کشجرۃ خبیثۃ “ سے مراد ہے جو نشہ آور اشیاء میں استعمال ہوتا ہے۔ 38:۔ امام ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے اس آیت ” اجتثت من فوق الارض مالھا من قرار “ کا ذکر کیا صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کہ ہم اس کو کھنبی خیال کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کھنبی من کی ایک قسم ہے اس کا پانی آنکھوں کے لئے شفا ہے اور عجوہ (کھجور) جنت میں سے ہے اور یہ زہر سے شفا ہے۔ 39:۔ امام عبدالرزاق، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اجتثت من فوق الارض “ سے مراد ہے کہ اس کی جڑ اکھاڑلی گئی ہو زمین کے اوپر سے۔ 40:۔ امام ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف مثالوں کو سمجھو ! 41:۔ امام ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی اہل علم میں سے ایک آدمی سے ملا اس سے پوچھا کہ تو کلمہ خبیثہ کے بارے میں کیا کہتا ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں جانتا اس کے لئے کوئی قرار زمین میں اور نہ اس کا بلند ہونا جانتا ہوں آسمانوں میں مگر یہ وہ معلق رہے گا مالک کے گردن میں یہاں تک کہ وہ اس کلمہ خبیثہ کی وجہ سے پورا پورا بدلہ پائے گا قیامت کے دن۔ 42:۔ امام ابن جریر نے قتادہ ؓ کے طریق سے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی کی چادر کو ہوا نے اڑا دیا تع اس نے ہوا کو لعنت کی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کو لعنت نہ کرو کیونکہ وہ حکم دی ہوئی ہے اور جو شخص کسی چیز کو لعنت کرتا ہے اور وہ اس کی اہل نہیں ہوتی تو لعنت اس کہنے والے پر لوٹ آتی ہے۔
Top