Maarif-ul-Quran - Ibrahim : 24
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا كَيْفَ : کیسی ضَرَبَ اللّٰهُ : بیان کی اللہ نے مَثَلًا : مثال كَلِمَةً طَيِّبَةً : کلمہ طیبہ (پاک بات) كَشَجَرَةٍ : جیسے درخت طَيِّبَةٍ : پاکیزہ اَصْلُهَا : اس کی جڑ ثَابِتٌ : مضبوط وَّفَرْعُهَا : اور اس کی شاخ فِي : میں السَّمَآءِ : آسمان
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے پاک بات کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے (اور ایسی ہے) جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط (یعنی زمین کو پکڑے ہوئے) ہو اور شاخیں آسمان میں۔
مثال کلمہ ایمان و کلمہ کفر، و ذکر سوال قبر قال اللہ تعالیٰ : الم ترکیف ضرب اللہ مثلا کلمۃ طیبۃ .... الیٰ .... ویفعل اللہ ما یشاء۔ (ربط) گزشتہ آیات میں کافروں اور مومنوں کے اخروی نتائج کا ذکر فرمایا اب ان آیات میں کلمہ ایمان اور کلمہ کفر کی مثال بیان فرماتے ہیں اور عالم برزخ میں اس کا اثر اور ثمر بیان کرتے ہیں تاکہ کلمہ توحید کی فضیلت اور کلمہ کفر کی قباحت ظاہر ہو۔ اس آیت میں کلمہ طیبہ سے کلمہ لا الہ الا اللہ مراد ہے۔ جیسا کہ حدیث میں اس کی تصریح ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ اس کے تابع ہے وہ بھی مراد ہے کیوں کہ ملزوم کے ساتھ لوازم کا ہونا ضروری ہے مگر چونکہ اہل ایمان اس امت سے پہلے بھی گزرے ہیں جو ایمان اور فضائل ایمان میں ان کے ساتھ شریک ہیں سب لا الہ الا اللہ کہتے تھے مگر لا الہ الا اللہ کا قرین ہر امت میں بدلتا رہا ہے کوئی لا الہ الا اللہ کے ساتھ نوح نبی اللہ کہتا تھا کوئی ابراہیم خلیل اللہ کہتا تھا اور کوئی موسیٰ کلیم اللہ کہتا تھا اور کوئی عیسیٰ روح اللہ کہتا تھا اور ہم محمد رسول اللہ کہتے ہیں۔ غرض یہ کہ کلمہ رسالت جملہ متبدلہ ہے ہر امت میں بدلتا رہا ہے اور کلمہ لا الہ الا اللہ غیر متبدل ہے جس میں تمام اہل ایمان واہل ملل وادیان مشترک ہیں اس لیے اکثر احادیث میں لا الہ الا اللہ پر اکتفا کیا گیا باقی مراد وہی پورا کلمہ ہے یعنی مع اپنی قرین اور لازم کے مراد ہے لا الہ الا اللہ تو سب میں مشترک ہے مگر لا الہ الا اللہ کا قرین ہر امت مسلمہ کا الگ الگ ہے اور چونکہ اصل کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ ہے اور محمد رسول اللہ اس کا قرین ہے اس لیے حضرات صوفیہ جب ذکر کی تلقین کرتے ہیں تو یہ فرماتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ کا ذکر مثلا ان کی مقدار میں کیا کرو اور کبھی کبھی محمد رسول اللہ بھی کہہ لیا کرو تاکہ تابع اور متبوح کا فرق اور حق ادا ہوجائے اور وجہ یہ ہے کہ ذکر تو اللہ کا حق ہے اور نبی کا حق درود ہے جس کا قرآن میں حکم آیا ہے لہٰذا لا الہ الا اللہ تو ذکر ہے اور محمد رسول اللہ کلمہ تجدید ایمان کے لیے ہے اب آیت کی تفسیر پڑھئے۔ کیا نہیں دیکھا تو نے اے سیکھنے والے ؟ اور کیا نہیں جانا تو نے اے جاننے والے ؟ کہ اللہ نے کلمہ توحید اور کلمہ شرک کی کیسی عجیب اور عمدہ مثال بیان کی ہے کلمہ طیبہ یعنی کلمہ توحید و اسلام ایک نہایت ہی پاکیزہ درخت کے مشابہ ہے جس کا پھل نہایت درجہ لذیذ اور مفید ہے شجرہ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے جو اپنے بیشمار منافع کی وجہ سے اطیب الاشجار ہے اور وہ پاکیزہ درخت ایسا ہے کہ اس کی جڑ مضبوط ہے یعنی اس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے پس مومن کا قلب بمنزلہ زمین کے ہے اور ایمان اور اعتقاد توحید جو اس میں راسخ ہے وہ کلمہ ایمان کی جڑ ہے اور اعمال صالحہ اس شجرہ طیبہ کی شاخیں ہیں جو آسمان قبولیت تک پہنچ رہی ہیں اور اس معتقد کے لیے بلندی اور رفعت کا سبب بن رہی ہیں اور انہی اعمال صالحہ کو حدیث میں ایمان کے شعبوں سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ پاکیزہ درخت ہر وقت اپنے پروردگار کے حکم سے پھل دیتا رہتا ہے یعنی دن رات ہر موسم میں قسم قسم کے پھل دیتا رہتا ہے کبھی اس کا پھل منقطع نہیں ہوتا اسی طرح مومن کا عمل ہے کہ آسمان پر چڑھتا ہے یعنی قبول ہوتا ہے اور اس کی برکتیں ہر وقت حاصل ہوتی رہتی ہیں۔ اور اس کا ثواب کبھی منقطع نہیں ہوتا اس کا ثواب ہر وقت مومن کو پہنچتا ہے اس ناچیز کا گمان یہ ہے کہ اصلہا ثابت سے ایمان کی طرف اشارہ ہے اور فرعھا فی السماء سے سلام کی طرف اشارہ ہے اور تؤتی اکلہا کل حین سے مقام احسان اور اخلاص کی طرف اشارہ ہے یعنی ان انوار و برکات کی طرف اشارہ ہے جو صدق ایمان اور اعمال صالحہ سے حاصل ہوتے ہیں یہ انواروبرکات شجرہ ایمان کے ثمرات طیبہ ہیں جو عالم غیب سے ہر وقت اس کو پہنچتے رہتے ہیں اور عجب نہیں کہ تأتی اکلہا سے وہ فواکہ اور ثمرات مراد ہیں جو جنت میں اعمال صالحہ پر مرتب ہوں گے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ غراسھا الجنۃ یا تؤتی الکلہا سے قرب خداوندی اور رضائے الٰہی کے ثمرات مراد لیے جائیں جو دائمی ہیں اور انقطاع کا ان میں احتمال نہیں اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو سمجھانے کے لئے مثالیں بیان کی ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں کیونکہ مثال امر متصور کو محسوس کے قریب بنا دیتی ہے اور صورت کے آئینہ میں معنی کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہ تو کلمہ طیبہ کی مثال ہوتی جو عقل کا درخت ہے اب آگے کلمہ خبیشہ کی مثال بیان فرماتے ہیں کو نفسانی شہوات و لذات کا خبیث اور گندہ اور بدبو دار درخت ہے اور کلمہ خبیثہ یعنی کلمہ کفر کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نہایت خراب اور گندہ درخت ہو اور ایسا کمزور ہو کہ وہ ذرا سی حرکت میں زمین کے اوپر سے اکھاڑ لیا جائے اور اس کے لیے زمین میں کچھ قرار اور ثبات نہیں اس لیے شاخوں اور پھلوں کا ذکر تو فضول ہے کلمہ کفر کو شجرہ خبیثہ کے ساتھ تشبیہ دینے میں اشارہ اس طرف ہے کہ کفر کا وجود تو ہے مگر معتدبہ اور پائیدار وجود نہیں اس لیے کہ کفر کا دعویٰ کسی صحیح دلیل سے ثابت نہیں۔ دعویٰ بےدلیل ہے اس کی کوئی جڑ اور بنیاد نہیں اسی وجہ سے اس کی شاخوں اور پھلوں کا ذکر نہیں فرمایا کفار کا کوئی عقیدہ دینا میں مضبوط دلیل سے قایم نہیں تھوڑا سا دھیان کرنے سے غلط معلوم ہونے لگتا ہے عجب نہیں کہ اشارہ اس طرف ہو کہ کافر کا کوئی عمل معتبر نہیں اس لیے کہ اس کی کوئی بنیاد نہیں اور نہ اس پر کوئی اخروی ثمرہ مرتب ہوگا۔ نہ بیخ کزاں باشد اور امدار نہ شاخ کہ گردو بداں سایہ دار گیا ہیست افتادہ بر روئے خاک پریشان و بےحاصل و خور ناک کافروں کے دعوے کی کوئی جڑ نہیں ہوتی ذرا دھیان کرو تو اس کا غلط ہونا معلوم ہوجائے گا اور یہی وجہ ہے کہ اس کے دل میں کوئی نور پیدا نہیں ہوتا اور نہ دل کو سکون اور اطمینان ہوتا ہے۔ خلاصہ کلام : یہ کہ پہلی آیت میں کلمہ طیبہ کو شجرہ طیبہ یعنی پاکیزہ درخت سے تشبیہ دی ہے جس میں یہ چار وصف پائے جائیں۔ (1) پاکیزہ ہو، یعنی دیکھنے میں خوبصورت اور خوشبودار اور خوش مزہ ہو اس کا پھل شیریں اور لذیز ہو۔ (2) جڑ اس کی مضبوط ہو اکھڑنے اور گرنے سے بالکل محفوظ ہو۔ (3) شاخیں اس کی اونچائی میں آسمان کو جا رہی ہوں یعنی بہت بلند ہوں اور ظاہر ہے کہ درخت جس قدر زیادہ لمبا ہوگا اسی قدر اس کا پھل بھی پاکیزہ اور لذیز ہوگا اور زمین کی کدورتوں سے محفوظ ہوگا اور زیادہ بھی ہوگا۔ (4) ہر وقت وہ پھل دیتا ہو اس کے پھل کے لیے کوئی زمانہ خاص نہ ہو کہ اس زمانہ کے سوا کسی دوسرے وقت میں اس کو پھل نہ آتا ہو جو درخت ان صفات کے ساتھ موصوف ہوگا وہ نہایت عمدہ درخت ہوگا اور ہر عاقل اس کے حصول کی کوشش کرے گا۔ پس یہی حال شجرہ ایمان و اسلام کا ہے کہ وہ دیکھنے میں اور سونگھنے میں نہایت پاکیزہ ہے اس درخت کے اصول و فروع کو دیکھ کر آدمی حیران اور ششدر رہ جاتا ہے کہ مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کا عجیب پاکیزہ درخت ہے۔ اور اس کی جڑ نہایت مضبوط ہے کہ جو اللہ کی معرفت اور محبت اور دلائل عقل و فطرت پر قائم ہے اسی وجہ سے دین اسلام مومن کے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔ اور پھر اس اعتقاد جازم سے جو اعمال صالحہ کی شاخیں نکلتی ہیں وہ آسمان قبول تک پہنچ جاتی ہیں کما قال اللہ تعالیٰ : الیہ یععد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ وقال النبی ﷺ الایمان بضع وسبعون شعبۃ اور شعبہ اصل میں درخت کی شاخ کو کہتے ہیں۔ اور مومن اس پاکیزہ درخت کے ثمرات طیبہ اور انوار الٰہیہ اور برکات ربانیہ سے ہر وقت بہرہ ور اور لذت اندوز ہوتا رہتا ہے شجرہ ایمان کے ثمرات کبھی منقطع نہیں ہوتے۔ لا مقطوعۃ ولا ممنوعۃ۔ لہٰذا عاقل کو چاہئے کہ ایسے درخت کے حاصل کرنے سے غفلت نہ برتے جو ہر وقت پھل دیتا رہتا ہے اور حصول کے بعد اس کی آبیاری اور خبر گیری سے غافل نہ ہو ایسے درخت کا میسر آنا نعمت عظمیٰ ہے اور باذن ربھا میں اشارہ اس طرف ہے کہ ان ثمرات و برکات کا حصول خدا تعالیٰ کے حکم پر موقوف ہے یہ کلمہ طیبہ کی مثال کا بیان ہوا۔ اور اس کے برخلاف کلمہ خبیثہ یعنی کلمہ کفر اس خبیث اور گندہ درخت کے مشابہ ہے جس میں یہ تین باتیں پائی جائیں۔ (1) برا اور گندہ ہو یعنی بدصورت اور بدبودار اور بدمزہ ہودینی اور دنیوی، روحانی اور جسمانی مضر توں کا حامل ہو اور طرح طرح کی خباثتوں اور کر اہتوں کو اپنے اندرلیے ہوئے ہو جس کی وجہ سے وہ غایت درجہ قابل نفرت ہو۔ (2) جڑ اس کی مضبوط نہ ہو زمین کے اوپر ہی رکھی ہوئی ہو ذرا سی ہوا تیز چلے یا کوئی حرکت دے تو گر پڑے۔ (3) اس کو مضبوطی نہ ہو یعنی بہت کمزور درخت ہو جس کو ثبات اور قرار نہ ہو یہی حال ملت کفر کا ہے کہ ایک خبیث درخت کی طرح ملت کفر بد صورت اور بدبودار اور بدمزہ ہے اس لیے کہ شجرہ کفر بےحیا ئیوں اور بےغیرتیوں اور طرح طرح کی بد اخلاقیوں اور قسم قسم کی بد اعمالیوں کا ایک گندہ درخت ہے جس کا پھل سوائے شقاوت اور خسران کے کچھ نہیں امریکہ اور برطانیہ اسی قسم کے اشجار خبیثہ کے جنگل اور دنگل ہیں اور اس شجرہ کفر کی کوئی جڑ اور بنیاد نہیں ہوا کے ایک جھٹکے میں اکھڑ کر گر پڑتا ہے یہ درخت صرف نفسانی شہوتوں اور لذتوں پر قائم ہے جو سراسر عقل اور فطرت اور غیرت کے خلاف ہے کفر و شرک کے جس قدر اصول و فروع ہیں وہ سب باطل و بےبنیاد ہیں جن کے لئے دلیل اور برہان نہیں حجتھم داحضۃ اکثر مفسرین کا قول ہے کہ شجرہ خبیثہ سے اندراین کا درخت مراد ہے جس کا پھل نہایت زہریلا اور کڑوا ہوتا ہے اور نہایت بدبودار ہوتا ہے اور اس کی جڑ پھیلی ہوئی ہوتی ہے اس کو ثبات اور استحکام نہیں ہوتا بآسانی زمین کے اوپر سے اکھاڑا جاسکتا ہے کفر کا یہ خبیث درخت عقل اور فطرت کے جھونکے سے اکھڑ کر گر جاتا ہے اسی لیے مثل مشہور ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے یعنی جھوٹ سچ کی طرح اپنے پاؤں سے نہیں چلتا بلکہ زن اور زد کے زور سے چلتا ہے (جیسا کہ نصرانی مذہب) مگر دل میں نہیں اترتا اس کی جڑ نہیں ہوتی یعنی دل اس سے مطمئن نہیں (جیسا کہ نصرانیوں کی تثلیث فی التوحید اور مسئلہ کفارہ) جس کو شہوت پرست ان اور زر کے طمع سے محض زبان سے مان لیتے ہیں مگر دل میں نہیں اترنا کسی بڑے سے بڑے پادری کا دل مسئلہ تثلیث پر مطمئن نہیں۔ غرض یہ کہ کفر کی نہ تو کوئی اصل اور بنیاد ہے اور نہ کافر کے پاس اپنے کفر اور شرک کی کوئی دلیل اور برہان ہے اور نہ اس شجرہ کفر کی کوئی فرع اور شاخ ہے اور نہ کفر کا کوئی عمل اوپر چڑھتا ہے اور نہ کوئی شئے اس کی قبول ہے اور ایسے خبیث اور گندے درخت کے پھل کا کیا تصور ہوسکتا ہے اور اتنا کمزور ہے کہ دلائل کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا لہٰذا لوگوں کو چاہئے کہ ایسے بدمزہ اور زہریلے اور بدبودار اور قابل نفرت درخت سے احتراز کریں اور ایسے پاکیزہ درخت کے حاصل کرنے کی کوشش کریں جو پاکیزہ اور خوشبودار ہو اور اس کی جڑ مضبوط اور مستحکم ہو وہ شجرہ اسلام ہے جو غایت درجہ معقول اور نہایت درجہ مستحکم ہے۔ اور حدیث میں جو شجرہ طیبہ کی تفسیر کھجور کے درخت سے اور شجرہ خبیثہ کی تفسیر منظل اور کثوث کے درخت سے آئی ہے وہ بطور تمثیل ہے نہ کہ بطور تخصیص، اور مقصود یہ ہے کہ کلمہ طیبہ ایک شجرہ طیبہ کے مشابہ ہے کہ اوصاف مذکورہ کا جامع ہو خواہ وہ کھجور کا درخت ہو یا اور کوئی پاکیزہ درخت ہو اور شجرہ خبیثہ سے بھی کوئی معین درخت مراد نہیں جو خبیث اور گندہ اور بدبودار اور بدمزہ ہو وہ سب شجرہ خبیثہ کے عموم میں داخل ہے۔ اس لیے زجاج (رح) کہتے ہیں کہ کفر اور ضلالت کا کوئی فرقہ لہسن کے درخت کے مشابہ ہے اور کوئی کانٹوں کے جھاڑ کے مشابہ ہے اور کوئی کسی کے اور کوئی کسی کے یہ تو اہل سنت والجماعت کی تفسیر ہوئی اور حضرات شیعہ یہ کہتے ہیں کہ شجرہ طیبہ سے آنحضرت ﷺ حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ اور امام حسن ؓ اور امام حسین ؓ مراد ہیں اور شجرہ خبیثہ سے بنی امیہ مراد ہیں (دیکھو روح المعانی ص 192 جلد 13) یہاں تک کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی مثال بیان فرمائی اب آئندہ آیت میں ہر ایک کے اثر اور ثمر کو بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اس پکی بات کی برکت سے یعنی کلمہ طیبہ کی برکت سے جس کی جڑ مضبوط ہے دونوں جگہوں میں یعنی دنیا اور آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے دنیا میں تو اس طرح کہ مومن کلمہ طیبہ کی برکت سے شیاطین الانس والجن کے اغواء سے محفوظ رہتا ہے اور اصحاب اخدود کی طرح جب کفار کی طرف سے کوئی فتنہ اور ابتلا پیش آتا ہے تو بتوفیق خداوندی ایمان پر ثابت قدم رہتا ہے اور جادہ توحید سے اس کا قدم نہیں پھسلتا اور کوئی فتنہ پیش آئے تو اس کے پائے استقامت میں تزلزل نہیں آتا اور اسی طرح مرنے تک ایمان پر قائم رہتا ہے اور اسی کلمہ پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے اور آخرت میں اس طرح کہ قبر میں جو آخرت کی پہلی منزل ہے نکیرین کے سوالات کا صحیح جواب دیتا ہے اور قیامت کے ہوشربا دن حساب و کتاب کے وقت اس کو کوئی اندیشہ نہیں غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ مومنین کو دنیا اور آخرت میں حق پر مضبوط اور ثابت قدم رکھتا ہے غرض یہ کہ فی الآخرۃ سے قبر اور عالم برزخ مراد ہے جیسا کہ احادیث مرفوعہ اوراقوال صحابہ سے ثابت ہے کہ فی الآخرۃ سے قبر اور عالم برزخ مراد ہے جیسا کہ احادیث مرفوعہ اوراقول صحابہ سے ثابت ہے کہ فی الآخرۃ سے قبر مراد ہے جو آخرت کی پہلی منزل ہے جہاں حق تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو جواب کی تلقین اور حق اور ثواب پر تمکین عطا فرماتا ہے اور امتحان قبر میں اس کو ثابت قدم رکھتا ہے اور لفظ یثبت اللہ (اللہ ثابت قدم رکھتا ہے) میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ ثبات اور استقامت اللہ کی توفیق اور تثبیت اور اس کے فضل و عنایت سے ہے اگر اللہ کی تثبیت اور تائید نہ ہو تو مومن کے ایمان کے آسمان اور زمین اپنی جگہ سے ہٹ جائیں کما قال اللہ تعالیٰ ولولا ان ربتنک لقد کدت ترکن الیہم شیئا قلیلا، وقال اللہ تعالیٰ نقص علیک من انباء الرسل ما نثبت بہ فوادک۔ وقال اللہ تعالیٰ اذ یوحی ربک الی الملئکۃ انی معکم فثبتوا الذین امنوا۔ : آیت میں قول حق اور قول صدق مراد ہے جو قول باطل اور قول کاذب کی نقیض ہے اور قول ثابت کا اولین مصداق کلمہ ایمان اور اس کے لوازم ہیں یہ تو کلمہ طیبہ کے اثر کا بیان تھا۔ اب آگے کلمہ خبیثہ کے اثر کو بیان کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کلمہ خبیثہ کی نحوست سے ظالموں کو یعنی کافروں کو جنہوں نے کفر کرکے اپنی جانوں پر ظلم کیا دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں بچلا دیتے ہیں دنیا میں تو ان کا بچلنا ظاہر ہے کہ حق اور صدق سے منحرف رہے اور آخرت بچلنا یہ ہے کہ قبر میں جو آخرت کی پہلی منزل ہے ان سے نکیرین کے سوال کا جواب نہ بن پڑے گا بلکہ حیرت زدہ ہو کر یہ کہیں گے ہاہ۔۔۔۔ ہاہ۔۔۔ لا ادری افسوس افسوس میں کچھ نہیں جانتا جو اور لوگ کہتے تھے وہی میں بھی کہہ دیتا تھا جو سنا وہی کہہ دیا اس پر فرشتے اس کے گرر ماریں گے اور کہیں گے لا دریت ولا تلیت کہ نہ تو نے خود سمجھا اور نہ کسی سمجھنے والے کا اتباع کیا اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی دو قسمیں ہیں ایک۔ ایک تحقیقی اور ایک تقلیدی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان تحقیقی کی طرح ایمان تقلیدی بھی معتبر ہے جیسے بعض عوام کو ایمان کی پوری حقیقت معلوم نہیں ہوتی صرف اتنا جانتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور دین ہمارا سلام ہے یہ ایمان تقلیدی ہے اور عند اللہ یہ بھی معتبر ہے یہاں بظاہر یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ ہی ثابت قدم رکھتے ہیں اور وہی بچلاتے ہیں تو پھر بچلنے والے پر کیا الزام اس کا ایک جواب تو لفظ یضل اللہ الظلمین سے ہوگیا کہ انہوں نے ظلم کیا تھا اس کی نحوست سے بچل گئے یہ حکیمانہ جواب ہے اب آگے حاکمانہ جواب ارشاد فرماتے ہیں۔ ویفعل اللہ ما یشاء۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں وہ جس کو چاہے ہدایت دے اور ثابت قدم رکھے اور جس کو چاہے ہدایت دے اور ثابت قدم رکھے اور جس کو چاہے گمراہ کرے اور بچلائے اس کی بارگاہ میں یہ سوال نہیں ہوسکتا کہ مومنوں کو کیوں ثابت قدم رکھا اور ظالموں کو کیوں بچلایا اور گمراہ کیا وہ علیم و حکیم ہے وہ اپنی حکمت و مشیت سے جس کے ساتھ جو مناسب ہوتا ہے وہی معاملہ کرتا ہے۔ (1): یثبت اللہ الذین امنوا۔ یہ جملہ شجرہ طیبہ کی مثال سے متعلق ہے اور ویضل اللہ الظلمین کلمہ خبیثہ کی مثال سے متعلق ہے اور ویفعل اللہ ما یشاء دونوں سے متعلق ہے واللہ یحکم لا معقب لحکمہ۔ ایک شبہ : یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ سورت مکی ہے اور حدیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو عذاب قبر کا علم مدینہ منورہ میں ہوا لہٰذا یہ ہوتا تو مکہ ہی میں حضور ﷺ کو اس کا علم ہوجاتا۔ جواب : اس اشکال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس سورت کی اس خاص آیت کو مدنی مانا جائے مگر یہ کہیں ثابت اور منقول نہیں دوسرا جواب یہ ہے کہ آیت میں لفظ فی الاخرۃ وارد ہوا ہے اور آخرت دو ہیں اور ایک مجازی اور آیت میں لفظ آخرت دونوں کو شامل ہے اور اپنے عموم کی وجہ سے دونوں کو متناول ہے اور حضور پرنور ﷺ کو تثبیت اور اضلال کا دوسرا جز یعنی تثبیت اور اضلال فی القبریہ مدینہ منورہ میں منکشف ہوا خلاصہ یہ کہ تثبیت اور اضلال فی الآخرۃ کا وہ حصہ جو قیامت سے متعلق تھا ظاہر اور متبادر ہونے کی وجہ سے مکہ ہی میں منکشف ہوگیا اور دوسرا جز یعنی عذاب قبر اور نعیم قبر یہ مدینہ میں منکشف ہوا پس آیت کے مکی ہونے میں اور آیت کے عذاب قبر کے باعے میں نازل ہونے میں کوئی تنافی نہیں رہی۔ (2): آیت میں مومن صالح اور کافر کے ثواب اور عذاب قبر کا ذکر ہے مومن فاسق کا صراحتا کوئی ذکر نہیں اب یا تو قیاس کیا جائے کہ جس طرح اس کی حالت بین بین ہے اعتقاد میں مومن کے مشابہ ہے اور عمل میں کافر کے مشابہ ہے اس طرح اس کے ساتھ معاملہ بھی بین بین ہوگا۔ (ھذا کلمہ ملحض من الثبیت بمراقبۃ التبییت وغط نمبر 122 از سلسلہ تبلیغ) یہ ناچیز کہتا ہے کہ شاید گناہ گار مومن کے ذکر سے اس لیے سکوت کیا گیا کہ اس کا معاملہ مشیت خداوندی میں مستور ہے کما قال تعالیٰ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک من یشاء۔ (3): جب مردہ قبر میں دفن کردیا جاتا ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو سیاہ رنگ اور نیلی آنکھوں والے ہوتے ہیں ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہتے ہیں اور اس سے سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے اور تیرا دین کیا ہے اور اس شخص (یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں تو کیا کہتا ہے سوال کے ان دو فرشتوں میں سے ایک کا نام منکر بفتح کاف بصیغہ اسم مفعول ہے اور دوسرے کا نام نکیر بر وزن فصیل ہے چوں کہ ان کی صورت اور شکل بالکل اوپری ہے نہ تو آدمیوں کے مشابہ ہے اور نہ فرشتوں کے اور نہ حیوانوں کے بالکل نئی مخلوق ہے اس لیے ان فرشتوں کا نام منکر اور نکیر ہے۔ اہل سنت والجماعت کے اجتماعی عقیدوں میں ایک عقیدہ یہ ہے کہ قبر (یعنی عالم برزخ) میں مومن و کافر سب سے سوال ہوگا اور کافر اور فاسق کو عذاب ہوگا قبر سے مراد برزخ ہے جو دنیا اور آخرت کے درمیان واسطہ ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے کیونکہ یہ امر فی نفسہٖ ممکن ہے اور نصوص شریعت سے باجماع امت ثابت ہے اور سوال و جواب کے معنی سمجھنے اور سمجھانے کے ہیں خواہ وہ آواز سے ہوں یا غیر آواز سے ہوں اور سمجھنے کے لیے مطلق زندگی کا ہونا ضروری ہے جو انسان کے کسی جز سے متعلق ہوسکتی ہے لہٰذا منکرین کا یہ کہنا کہ ہم میت کو دیکھتے ہیں مگر منکر نکیر کو نہیں دیکھتے اور نہ ہی میت کی اور ان کی گفتگو کو سنتے ہیں اور نہ میت کے بدن پر کوئی علامت عذاب کی دیکھتے ہیں اور نہ میت کے بدن میں کسی قسم کی جنبش یا کوئی اور علامت ہی دیکھنے میں آتی ہے منکرین کا یہ قول صحیح نہیں منکرین کے اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ وہ عالم ہی دوسرا ہے اس عالم کے احوال کے مشاہدے کے لیے اس عالم کی آنکھیں چاہئیں آنحضرت ﷺ پر وحی نازل ہوتی تھی اور آنحضرت ﷺ جبریل امین (علیہ السلام) کا کلام سنتے تھے اور جبرئیل (علیہ السلام) کو دیکھتے تھے مگر حاضرین میں یہ استعداد نہ تھی کہ وہ جبرئیل (علیہ السلام) کو دیکھ سکیں اور ان کا کلام سن سکیں۔ بسا اوقات انسان کو خواب میں شدید الم لاحق ہوتا ہے اور کبھی اس کو مسرت لاحق ہوتی ہے مگر پاس والے آدمیوں کو یہ بات محسوس نہیں ہوتی اور خواب دیکھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ میں بیداری کی حالت میں یہ چیزیں دیکھ رہا ہوں حالانکہ وہ واقع میں سویا ہوا ہے اور اگر کوئی شخص اپنا خواب بیان کرے تو اس سے دلیل عقلی کا مطالبہ نہیں ہوسکتا بعینہٖ یہی کیفیت منکر نکیر کے سوال کی ہے مردہ ان کا کلام سنتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے مگر پاس کے لوگوں کو اس کی مطلق خبر نہیں ہوتی ابھی سمجھ میں نہیں آتا جب مرو گے معلوم ہوجائے گا حیرت کا مقام ہے کہ لوگ منکر نکیر اور میت کے سوال و جواب کا انکار کرتے ہیں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ ایک سمیع وبصیر انسان کا ایک قطرہ آب سے پیدا ہوجانا اور اس سے ہزاروں درجہ عجیب و غریب ہے مگر چونکہ روزمرہ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں اس لیے اس کے انکار پر قدرت نہیں اور جس امر ممکن کی قرآن اور حدیث نے خبر دی ہو مگر ان سائنس دانوں کی آنکھوں نے اس کا مشاہدہ نہ کیا تو بےدھڑک اس کا انکار کر بیٹھتے ہیں گویا کہ ان کی آنکھوں نے جس چیز کو دیکھا نہ ہو وہ ناممکن اور محال ہے نابینا کو یہ حق نہیں کہ وہ بینا کے مشاہدہ کا انکار کردے۔ خلاصہ تفسیر آیت مذکورہ : حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ فرماتے ہیں حق جل شانہ نے اس آیت میں ایک خاص اسلوب سے ایمان و کفر کے فرق کو بتلایا ہے وہ یہ کہ دین اسلام کی مثال ایک نہایت عمدہ و شیریں و نہایت نفع بخش پھل دار درخت جیسی ہے جو عالم ملکوت سے اتار کر مکہ میں نصیب کیا گیا جو بوجہ علوو رفعت یہ کہلانے کا مستحق ہے کہ اس کی جڑ زمین میں قائم ہوتی اور پھر اس کی جڑیں اور شاخیں پھوٹنی شروع ہوئیں اور اطراف عالم میں پھیلتی گئیں اور کلمہ ناپاک کی مثال ایک ناپاک و خراب درخت جیسی ہے جسے لوگ بوجہ گندگی کے اکھاڑ کر پھینک دیتے ہیں اور وہ سرسبز نہیں ہونے پاتا اسی طرح جو کفر و شرک عالم میں پھیلا ہوا تھا اسلام نے اسے مٹایا اور مٹاتا رہا اس تمثیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے دو گروہوں کا حال بیان فرمایا ایک گروہ وہ تھا جو اعلاء کلمہ حق میں ساعی و کوشاں تھا۔ اور دوسرا گروہ وہ تھا، جو کفر کا پیشوا تھا اور کفر اور شرک کی ترویج میں ساعی و کوشاں تھا گروہ اول کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انہیں دین اسلام پر ثابت قدم رکھے گا اور آخرت میں ان کے درجات بلند کرے گا اور دوسرے گروہ کی جس نے اللہ تعالیٰ کی نعمت یعنی دین حق کو کفر اور ضلالت سے تبدیل کر رکھا تھا مذمت کی اور آخرت میں ان کا برا ٹھکانا قراردیا گروہ اول کے مصداق اولین، مہاجرین ہیں جن کے سردفتر ابوبکر صدیق ؓ تھے جن کی وجہ سے دین اسلام نے رواج پایا اور گروہ ثانی جہلائے قریش تھا اس گروہ کا سردفتر ابوجہل تھا گروہ اول کے بالمقابل گروہ ثانی والے ذلیل و خوار اور گرفتار مصیبت و بلا ہوئے اور آیت میں جس تثبیت کا ذکر ہے اس سے توفیق الٰہی مراد ہے جو بندہ کو قبر میں عطا کی جاتی ہے اور جس وقت منکر نکیر اس سے آکر سوال کرتے ہیں تو وہ بتوفیق الٰہی راست جواب دیتا ہے (ازالۃ الخفاء) ۔
Top