Dure-Mansoor - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جو ایمان لاتے ہیں غیب پر اور قائم کرتے ہیں نماز کو اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں۔
(1) امام ابن جریر نے حضرت قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ھدی للمتقین “ سے (اللہ تعالیٰ ) نے ان لوگوں کی تعریف اور ان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ “ (یعنی جو غیب پر ایمان لاتے ہیں) (2) ابن اسحاق اور ابن جریر نے حضرت عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ “ سے مراد وہ لوگ ہیں جو غیب کی باتوں کی تصدیق کرتے ہٰ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا۔ (3) امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کی کہ لفظ آیت ” الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ “ سے مراد عرب کے مؤمنین ہیں پھر فرمایا اور ایمان سے مراد تصدیق ہے اور غیب سے مراد جو کچھ جنت اور دوزخ کے کاموں میں سے بندوں سے غائب ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا اس کی تصدیق اہل کتاب یا اس علم کی وجہ سے جو ان کے پاس ہے۔ اور لفظ آیت ” والذین یؤمنون بما انزل الیک “ اہل کتاب کے مؤمن مراد ہیں پھر دونوں فریقوں کی جمع کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” اولئک علی ھدی “ کہ یہ لوگ ہدایت پر ہیں۔ (4) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الذین یؤمنون بالغیب “ سے مراد ہے (ایمان لانا) اللہ تعالیٰ پر اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر اس کی جنت اور اس کی دوزخ پر اور آخرت کے دن پر اور اس کی ملاقات پر اور موت کے بعد زندگی پر۔ ایمان بالغیب کا مطلب (5) عبد بن حمید اور ابن جریر نے حضرت قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الذین یؤمنون بالغیب “ سے مراد ہے ایمان لاؤ تم موت کے بعد اٹھنے پر، حساب پر، جنت اور دوزخ پر اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی تصدیق کرو جو اس نے اس قرآن میں وعدے فرمائے۔ (6) امام الطستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نافع بن ارزق نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” الذین یؤمنون بالغیب “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے جو چیز غائب ہے جنت اور دوزخ کے معاملے میں سے۔ انہوں نے پھر کہا کیا عرب کے لوگ اس معنی کو جانتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! کیا تو نے ابو سفیان بن حرث کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا ؟ وبالغیب امنا وقد کان قومنا یصلون الاوثان قبل محمد ترجمہ : کہ ہم غیب پر ایمان لائے اور ہم ایسی قوم تھے کہ محمد ﷺ سے پہلے بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے۔ (7) امام ابن ابی حاتم، طبرانی، ابن مندہ اور ابو نعیم ان دونوں نے معرفۃ الصحابہ میں تویلہ بنت اسلم ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے ظہر اور عصر کی نماز بنی حارثہ کی مسجد میں پڑھی ہم نے مسجد ایلیا (یعنی بیت المقدس) کی طرف رخ کیا۔ ہم نے دو سجدے کئے تھے کہ ہمارے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت الحرام کا (نماز میں) رخ فرما لیا ہے یہ سن کر مرد عورتوں کی جگہ پر لوٹ گئے اور عورتیں مردوں کی جگہ پر لوٹ گئیں پھر ہم نے باقی دو رکعتیں ادا کیں اس حال میں کہ ہم بیت الحرام کی طرف رخ کئے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ (8) سفیان بن عینیہ، سعید بن منصور، احمد بن منیع، نے اپنی سند میں ابن ابی حاتم، ابن الانباری نے المصاحف میں، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور ابن مردویہ نے حرث بن قیس سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ابن مسعود ؓ سے پوچھا اے اصحاب محمد ﷺ کیا اللہ کے نزدیک اس چیز کا بھی حساب کیا جائے گا جو تم نے ہم سے سبقت کی رسول اللہ ﷺ کے دیکھنے سے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک محمد ﷺ پر تمہارے ایمان لانے کا حساب کیا جائے گا۔ اگرچہ تم نے ان کو نہیں دیکھا۔ کیونکہ محمد ﷺ کی نبوت اور رسولت کا امر بالکل واضح تھا۔ اس شخص کے لئے ہے جس نے آپ کو دیکھا اور اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ ایمان غیب لانے والے سے افضل ایمان والا نہیں ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔ لفظ آیت ” الم ذلک الکتب لاریب فیہ “۔ (9) البزرا، ابو یعلی، المرھبی نے فضل العلم میں حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا آپ نے فرمایا مجھے بتاؤ اہل ایمان میں سے افضل کس کا ایمان ہے ؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ! فرشتوں کا۔ آپ نے فرمایا وہ اسی طرح سے ہے اور یہ حق ہے ان کے لئے کہ وہ ایمان لائیں کوئی چیز ان کو ایمان لانے سے نہیں روکتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ مرتبہ عطا فرمایا جو ان کو مرتبہ عطا فرمانا تھا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! انبیاء کا ایمان افضل ہوگا ؟ جن کو اللہ تعالیٰ نے رسالت اور نبوت کے ساتھ نوازا۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ اسی طرح سے ہے اور یہ حق ہے ان کے لئے کہ وہ ایمان لائیں کوئی چیز ان کے ایمان لانے سے نہیں روکتی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ مرتبہ عطا فرمایا جو ان کو مرتبہ فرمانا تھا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر شہید کا ایمان افضل ہوگا ؟ جو انبیاء کے ساتھ شہید ہوئے۔ آپ نے فرمایا وہ اسی طرح سے ہے۔ اور یہ حق ہے ان کے لئے کہ وہ ایمان لائیں۔ اور کوئی چیز ان کو ایمان لانے سے نہیں روکتی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو انبیاء کرام کے ساتھ شہادت سے نوازا۔ بلکہ ان کے علاوہ اور لوگ ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا وہ کون لوگ ہیں یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا مردوں کی پشتوں میں وہ قومیں جو میرے بعد آئیں گی مجھ پر ایمان لائیں گی حالانکہ مجھے نہیں دیکھا ہوگا اور میری تصدیق کریں گے حالانکہ مجھے نہیں دیکھا ہوگا۔ پائیں گے لٹکے ہوئے کاغذ کو یعنی اللہ کی کتاب کو سو عمل کریں گے جو کچھ اس میں لکھا ہوا ہوگا۔ سو یہی لوگ اہل ایمان میں سے افضل ایمان لانے والے ہیں۔ (10) حضرت حسن بن عروہ نے اپنے مشہور حزب میں بیہقی نے دلائل میں اصبہانی نے الترغیب میں۔ عمرو بن شعیب اپنے باب دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا مخلوق میں سے تمہارے نزدیک کس کا ایمان زیادہ اچھا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا فرشتوں کا۔ آپ نے فرمایا اور کیا ہے ان کے لیے وہ ایمان نہ لاتے حالن کہ وہ اپنے رب کے پاس ہیں صحابہ نے عرض کیا انبیاء کا (ایمان اچھا ہے) آپ نے فرمایا اور کیا ہے۔ ان کے لئے وہ ایمان نہ لاتے حالانکہ وحی ان پر نازل ہوتی ہے۔ صحابہ نے پھر عرض کیا کہ ہم (ایمان میں اچھے ہیں) آپ نے فرمایا اور کیا ہے تم کو کہ تم ایمان نہ لاتے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔ خبر دار ! بلاشبہ میرے نزدیک ایمان میں سے سب اچھے وہ لوگ ہیں۔ جو تمہارے بعد ہوں گے پائیں گے صحیفہ (یعنی اللہ کی کتاب) کو اور ایمان لائیں گے جو کچھ اس میں ہے۔ (11) امام طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک دن صبح کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا کچھ پانی ہے ؟ صحابہ کرام ایک مشکیزہ لائے اور آپ ﷺ کے سامنے رکھ دیا۔ آپ نے اس پانی پر اپنا ہاتھ مبارک رکھ دیا اور اپنی انگلیوں کو کھول دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کی طرح پانی ابلنے لگا آپ نے فرمایا اے بلال ! لوگوں کو وضو کے لیے بلاؤ۔ سب صحابہ رسول اللہ ﷺ کی انگلیوں کے درمیان وضو کرنے لگے۔ اور ابن مسعود نے پینے کا ارادہ کیا جب سب نے وضو کرلیا تو آپ ﷺ نے ان کو نماز پڑھائی پھر آپ لوگوں سے باتیں کرنے کے لیے بیٹھ گئے۔ اور فرمایا اے لوگو ! مخلوق میں سے ایمان کے اعتبار سے کون اچھا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا فرشتے ! آپ نے فرمایا کہ فرشتے کیوں ایمان نہ لاتے حالانکہ وہ اللہ کے حکم کو دیکھ رہے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا پھر انبیاء کا ایمان سب سے اچھا ہے۔ یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا انبیاء کیوں ایمان نہ لاتے حالانکہ وہ دیکھتے ہیں اس وحی کو جو آسمان سے اترتی ہے لوگوں نے پھر عرض کیا کہ آپ کے صحابہ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ صحابہ کیوں ایمان نہ لاتے حالانکہ وہ دیکھتے ہیں اس کو جس کو وہ دیکھتے ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا لیکن لوگوں میں ایمان کے اعتبار سے سب سے اچھے وہ ہیں جو تمہارے بعد آئیں گے جو مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ مجھے نہیں دیکھیں گے اور میری تصدیق کریں گے حالن کہ مجھے نہیں ثیکھیں گے وہ میرے بھائی ہیں۔ (12) امام اسماعیل نے اپنی معجم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کس کا ایمان زیادہ پسندیدہ ہے ؟ کہا گیا فرشتوں کا آپ ﷺ نے فرمایا کس طرح وہ ایمان نہ لائیں گے حالانکہ وہ تو آسمان میں ہیں اور اللہ تعالیٰ سے وہ چیزیں دیکھتے ہیں جو تم نہیں دیکھتے۔ پھر کہا گیا انبیاء کا آپ ﷺ نے فرمایا کس طرح وہ ایمان نہ لائیں حالانکہ ان کے پاس وحی آتی ہے صحابہ نے عرض کیا پھر ہمارا ایمان (سب سے اچھا ہے) آپ نے فرمایا کس طرح حالانکہ تم پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں اور اس کے رسول تمہارے درمیان موجود ہے لیکن ایک قوم ہے جو میرے بعد آئے گی۔ مجھ پر ایمان لائے گی۔ حالانکہ مجھے نہیں دیکھے گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ایمان سب سے زیادہ پسندیدہ ہے اور یہ لوگ میرے بھائی ہیں اور تم میرے اصحاب ہو۔ (13) البزار نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کون سی مخلوق کا ایمان زیادہ اچھا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا فرشتوں کا۔ آپ نے فرمایا فرشتے کیسے ایمان نہ لاتے ؟ صحابہ نے پھر عرض کیا نبیوں کا آپ نے فرمایا نبیوں کی طرف وحی کی جاتی ہے۔ وہ کیسے ایمان نہ لاتے ؟ لیکن لوگوں میں سب سے اچھا ایمان ان کا ہے جو تمہارے بعد آئیں گے اور وحی پر مشتمل کتاب کو پائیں گے اس پر مسند ایمان لائیں گے۔ اور اس کی تابعداری کریں گے سو لوگوں میں سے یہی لوگ زیادہ اچھے ایمان والے ہیں۔ (14) ابن ابی شیبہ نے اپنی مسند میں عوف بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کاش میں اپنے بھائیوں سے ملاقات کرتا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کے ساتھی آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں (تم میرے بھائی ہو) لیکن تمہارے بعد ایک قوم ایسی آئے گی تمہارے ایمان کی طرح جو مجھ پر ایمان لائے گی اور تمہاری تصدیق کی طرح تصدیق کرے گی اور تمہاری مدد کی طرح مدد کرے گی۔ اے کاش کہ میں اپنے بھائیوں سے ملاقات کرتا۔ بعد میں ایمان لانے والوں کی فضیلت (15) امام ابن عساکر نے الاربعین السباعیۃ میں ابو یزید کے طریق سے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کاش کہ میں اپنے بھائیوں سے ملاقات کرتا ؟ صحابہ میں سے ایک صحابی نے عرض کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں۔ تم میرے اصحاب ہو۔ اور میرے بھائی وہ ہیں جو تمہارے بعد آئیں گے اور مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے نہ دیکھا ہوگا۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ لفظ آیت ” الذین یومنون بالغیب ویقیمون الصلوۃ “۔ (16) امام احمد، دارمی، الباوردی، ابن قانع نے معجم الصحابہ میں بخاری نے تاریخ میں طبرانی اور حاکم نے ابو جمعہ انصاری ؓ سے روایت کیا ہے کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا کوئی قوم ہم سے زیادہ اجر والی ہے ؟ ہم آپ پر ایمان لائے اور ہم نے آپ کی تابعداری کی۔ آپ نے فرمایا تمہیں ایمان لانے سے کس چیز نے روکا رسول اللہ ﷺ تمہارے درمیان موجود ہیں۔ تمہارے پاس آسمان سے وحی آتی ہے بلکہ میرے بعد ایسے لوگ آئیں گے ان کے پاس کتاب دو تختوں کے درمیان، وہ اس پر ایمان لائیں گے اور جو کچھ اس کتاب میں ہوگا اس پر عمل کریں گے وہ لوگ تم سے زیادہ اجر والے ہوں گے۔ (17) امام ابن ابی شیبہ، ابن ابی عمر، احمد اور حاکم نے ابو عبد الرحمن جہنی ؓ سے روایت کیا ہے اس درمیان کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے اچانک دو سوار نمودار ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ دونوں شخص کندی قبیلہ سے ہیں یا مذحج قبیلہ سے یہاں تک کہ جب وہ آئے تو وہ دونوں مذحج قبیلہ سے تھے۔ ان میں سے ایک آپ کے قریب ہوا تاکہ آپ سے بیعت کرے جب اس نے آپ کا ہاتھ پکڑا تو کہنے لگا یا رسول اللہ ! مجھے بتائیے جو شخص آپ پر ایمان لائے آپ کی تابعداری کرے اور آپ کی تصدیق کرے تو اس کے لیے کیا اجر ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کے لئے خوشخبری ہے اس شخص نے آپ کے ہاتھ مبارک کو چھوا اور چلا گیا پھر دوسرا آدمی آیا اور آپ کے ہاتھ مبارک کو پکڑا تاکہ آپ سے بیعت کرے کہنے لگا یا رسول اللہ مجھے بتائیے جو شخص آپ پر ایمان لائے آپ کی تصدیق کرے اور آپ کی تابعداری کرے حالانکہ اس نے آپ کو نہیں دیکھا آپ نے فرمایا اس کے لئے خوشخبری ہے۔ پھر خوشبجری ہے پھر اس آدمی نے آپ کے ہاتھ مبارک کو چھوا اور چلا گیا۔ (18) امام الطیالسی اور احمد اور بخاری نے تاریخ میں الطبرانی اور حاکم نے ابو امامہ باہلی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سات مرتبہ خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو مجھ پر ایمان لایا اور مجھے نہیں دیکھا۔ (19) امام احمد، ابن حبان نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جس نے آپ کو دیکھا اور آپ پر ایمان لایا پھر آپ نے فرمایا خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا۔ اور خوشخبری ہے پھر خوشخبری ہے اس شخص کے لئیجو مجھ پر ایمان لایا اور مجھے نہیں دیکھا۔ بن دیکھے ایمان لانے پر بشارت (20) امام طیالسی اور عبد بن حمید نے نافع (رح) سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی حضرت ابن عمر ؓ کے پاس آکر کہنے لگا اے ابو عبد الرحمن کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! کہنے لگا آپ کے لیے خوشخبری ہے حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو ایسی بات کی خبر نہ دوں جس کو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا انہوں نے کہا ضرور بتائے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جو مجھ پر ایمان لایا اور مجھے نہیں دیکھا۔ (21) امام احمدابو یعلی اور طبرانی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لے لایا اور سات مرتبہ خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جو مجھ پر ایمان لایا اور مجھے نہیں دیکھا۔ (22) امام حاکم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے مرفوع روایت کیا ہے میری امت میں سے وہ لوگ جو میرے بعد آئیں گے ایک ان میں سے اس بات کو پسند کرے گا کہ میرے رؤیت (یعنی دیکھنے) کو اپنی اہل و عیال اور اپنے مال کے بدلہ میں خریدے۔ قولہ تعالیٰ : ومما رزقنھم ینفقون۔ (23) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن اسحاق نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ویقیمون الصلوۃ “ سے مراد پانچویں نمازیں ہیں اور لفظ آیت ” ومما رزقنھم ینفقون “ سے مراد ان کے مالوں کی زکوٰۃ ہے۔ (24) امام ابن اسحاق، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ویقیمون الصلوۃ ‘ سے مراد ہے کہ نماز کو اس کے فرض ہونے کی وجہ سے قائم کرتے ہیں۔ اور ” ومما رزقنھم ینفقون “ سے مراد یہ ہے کہ وہ زکوٰۃ کو اس کا حساب کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ (25) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” اقامۃ الصلوۃ “ سے مراد ہے رکوع، سجود، خشوع اور پوری توجہ کے ساتھ تمام ارکان کو ادار کرنا۔ (26) عبد بن حمید نے حضرت قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ویقیمون الصلوۃ “ سے مراد ہے نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرنا۔ اس کے لئے وضو کرنا رکوع کرنا، اور سجدہ کرنا ہے۔ اور لفظ آیت ” ومما رزقنھم ینفقون “ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کے فرائض میں خرچ کرنا جو اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض کیا ہے یعنی اس کی اطاعت میں اور اس کے راستے میں خرچ کرنا۔ (27) امام ابن المنذر نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ لفظ آیت ” ومما رزقنھم ینفقون “ سے سارے نفقات کے علاوہ خاص طور پر زکوٰۃ مراد ہے (قرآن مجید میں) نماز کے ذکر کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر کیا جاتا ہے اور جب زکوٰۃ کا نام نہیں لیا تو نماز کے ذکر کے بعد یہ فرما دیا لفظ آیت ” ومما رزقنھم ینفقون “۔ (28) امام ابن جریر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ومما رزقنھم ینفقون “ سے مراد ہے آدمی کا اس کے اہل و عیال پر خرچ کرنا۔ (29) امام ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ومما رزقنھم ینفقون “ سے مراد ہے کہ نفقات قریب کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف تقرب حاصل کرتے ہیں اپنی خوشحالی اور تنگدستی کے مطابق یہاں تک کہ صدقات کے فرائض سورة برات میں نازل ہوئی اور یہ پہلے صدقات کو منسوخ کرنے والے ہیں۔
Top