Dure-Mansoor - Al-Anbiyaa : 83
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
وَ : اور اَيُّوْبَ : ایوب اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗٓ : اپنا رب اَنِّىْ : کہ میں مَسَّنِيَ : مجھے پہنچی ہے الضُّرُّ : تکلیف وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ : سب سے بڑا رحم کرنیوالا الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
اور ایوب کو یاد کیجئے جب کہ انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچ رہی ہے آپ ارحم الراحمین ہیں
1:۔ حاکم نے سمرہ کے طریق سے حضرت کعب ؓ سے روایت کیا کہ ایوب بن اموص اللہ کے نبی تھے۔ صبر کرنے والے، لمبے قدوالے، گھنگھریالے بالوں والے، کھلی آنکھوں والے اور اچھے اخلاق والے تھے۔ ان کی پیشانی پر لکھا ہوا تھا۔ آزمائش میں مبتلا ہونے والے، صبر کرنے والے، اور آپ کی گردن چھوٹی تھی۔ سینا چوڑا تھا پنڈلیاں اور بازو موٹے تھے۔ یتیموں کو عطا فرماتے تھے اور ان کو کپڑے پہناتے تھے جہاد کرنے والے اور نصیحت کرنے والے تھے اللہ کے لئے۔ 2:۔ حاکم نے وہب (رح) سے راویت کیا کہ حضرت ایوب کا سلسلہ نسب یہ تھا ایوب بن اموص بن رزاح بن عیص بن اسحاق بن ابراہیم الخلیل۔ 3:۔ ابن سعد نے کلبی (رح) سے روایت کیا کہ سب سے پہلے نبی جو بھیجے گئے وہ ادریس (علیہ السلام) تھے، پھر نوح تھے پھر ابراہیم تھے پھر اسماعیل اور اسحاق تھے۔ پھر یعقوب تھے پھر یوسف تھے پھر لوط تھے پھر ہود تھے، پھر صالح تھے پھر شعیب تھے پھر موسیٰ اور ہارون تھے پھر الیاس تھے پھر یسع تھے پھر یونس تھے پھر ایوب تھے۔ 4:۔ ابن عساکر نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ ایوب (علیہ السلام) اہل زمانہ کے سب سے زیادہ عبادت کرنے والے تھے اور ان میں زیادہ مال والے تھے آپ اس وقت تک پیٹ بھر کر نہ کھاتے تھے جب تک کسی بھوکے کا پیٹ نہ بھرتے تھے۔ اور آپ لباس نہیں پہنتے تھے جب تک کسی ننگے بدن والے کو لباس نہ پہناتے تھے اور ابلیس ان کی طاقت اور قوت سے عاجز آگیا تھا اس کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوتی تھی اور (ایوب (علیہ السلام) ایک معصوم بندے تھے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی آزمائش : 5:۔ احمد نے زہد میں اور ابن عساکر نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ کہ ان سے سوال کیا گیا کہ ایوب (علیہ السلام) کی قوم کی شریعت کیا تھی، تو انہوں نے فرمایا توحید اور آپس میں اصلاح کرانا تھا۔ اگر ان میں سے کسی کی حاجت ہوتی تھی تو اللہ کے لئے سجدہ میں گرپڑتا تھا پھر اپنی حاجت طلب کرتا تھا۔ پھر پوچھا گیا ان کا حال کیا تھا ؟ فرمایا کہ تین ہزار بیلوں کی جوڑیاں تھیں۔ ہر جوڑی کے ساتھ ایک غلام ہوتا تھا۔ ہر غلام کے ساتھ ایک غلام زادی یعنی لڑکی تھی۔ اور ہر لڑکی کے ساتھ ایک گدھی اور چودہ ہزار بکریاں تھیں۔ اور کوئی رات ان کی ایسی نہیں گزری تھی کہ ان کے دروازے کے باہر کوئی مہمان نہ ہو۔ اور کھانا نہیں کھاتے تھے مگر ان کے مسکین بھی کھاتا تھا۔ 6:۔ بیہقی نے شعب میں سفیان ثوری (رح) سے روایت کیا کہ ابلیس نے، ایوب (علیہ السلام) سے ان کے مرض میں سوائے رونے کے اور کچھ نہ پایا۔ 7:۔ ابن عساکر نے عقبہ بن عامر ؓ روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) سے فرمایا کہ کیا تو جانتا ہے کہ تیرا جرم کیا ہے ؟ جس کی وجہ سے میں نے تجھے اس (تکلیف) میں مبتلا کیا ایوب (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب میں نہیں جانتا (کہ میرا جرم کیا ہے) فرمایا کہ تو (ایک دفعہ) فرعون کے پاس گیا اور تو نے باتوں میں اس کے پاس مداہنت کی تھی۔ 8:۔ ابن عساکر نے جو بیر کے طریق سے ضحاک کی اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایوب (علیہ السلام) کی آزمائش کا سبب یہ تھا کہ ایک مسکین نے ان سے ظلم پر مدد مانگی تھی کہ ان سے یہ ظلم دور کریں لیکن آپ (علیہ السلام) نے اس مسکین کی مدد نہیں کی۔ آپ (علیہ السلام) نے نہ نیکی کا حکم کیا اور نہ ظالم کو مسکین پر ظلم سے روکا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو امتحان میں ڈال دیا۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے امتحان کا سبب : 9:۔ ابن عساکر نے لیث بن سعد (رح) سے روایت کیا کہ وہ سبب جس کی وجہ سے ایوب (علیہ السلام) امتحان میں مبتلا کیے گئے۔ کہ (ایک مرتبہ) آپ (علیہ السلام) کی بستی والے بادشاہ کے پاس گئے اور وہ ایک جابر بادشاہ تھا۔ لوگوں نے اس کے ظلم وستم کا اس کے سامنے ذکر کیا۔ اور اس سے خوب ترش لہجے میں بات کی۔ لیکن ایوب (علیہ السلام) نے اپنی بات میں نرمی اختیار کی۔ اپنی کھیتی باڑی کے ضائع ہوجانے کے خوف سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندوں میں سے تو ایک بندے سے ڈر گیا اپنی کھیتی باڑی کی وجہ سے تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے ان پر مصیبت کو نازل فرمادیا۔ 10:۔ ابن عساکر نے ابوادریس خولانی (رح) سے روایت کیا کہ شام (کی زمین) خشک ہوگئی (یعنی قحط پڑگیا) فرعون نے ایوب (علیہ السلام) کی طرف لکھا کہ ہمارے پاس آجاؤ کیونکہ آپ (علیہ السلام) کے لئے ہمارے پاس وسعت ہے تو ایوب (علیہ السلام) اپنے گھوڑوں اور اپنے جانوروں اور اپنے بیٹوں کے ساتھ اس کے پاس چلے گئے۔ فرعون نے انکے لئے زمین کا کچھ حصہ علیحدہ کردیا۔ شعیب (علیہ السلام) داخل ہوئے اور فرعون سے فرمایا کیا تو نہیں ڈرتا اس ذات سے جس کے ناراض ہونے سے آسمان اور زمین کے رہنے والے اور پہاڑ اور سمندر سب ناراض ہوجاتے ہیں ایوب (علیہ السلام) خاموش رہے۔ جب دونوں (فرعون اور شعیب) آپ (علیہ السلام) کے پاس سے باہر چلے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ تم فرعون (کے سامنے) خاموش رہے اپنی زمین کے چلے جانے کے خوف سے ؟ اب تو ایک مصیبت کے لئے تیار ہوجا۔ عرض کیا میرا دین کیا ہوگا ؟ فرمایا میں اسے تیرے لئے محفوظ رکھوں گا عرض کیا مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی آزمائش اور ان کا شکر : 11:۔ ابن ابن حاتم، ابونعیم اور ابن عساکر نے یزید بن میسرہ (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کو امتحان میں مبتلا فرمایا مال، اہل و عیال اور اولاد کے ختم کرنے کے ساتھ، ان کے لئے کوئی چیز باقی نہ رہی تو آپ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا بہت عمدہ ذکر کیا اور اللہ رب العالمین کی حمد بیان کی۔ پھر فرمایا میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھ پر احسان فرمایا مجھے مال اور اولاد عطا فرمائی، جن کی محبت میرے دل کے ہر گوشے میں داخل ہوگئی تھی۔ پھر آپ نے یہ سب کچھ مجھ سے لے لیا اور میرے دل کو فارغ کردیا (اب) میرے اور تیرے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوتی جو میں نے تیری تعریف کی ہے میرا دشمن اس کی وجہ سے مجھ پر حسد کرے گا اور ابلیس کو حضرت ایوب (علیہ السلام) کی اس گفتگو سے بہت تکلیف ہوئی۔ 12:۔ ابن ابی شیبہ، احمد نے زہد میں عبدبن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابونعیم نے حلیہ میں عبداللہ بن عبیداللہ بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ ایوب (علیہ السلام) کے دو بھائی تھے وہ ایک دن آئے۔ آپ (علیہ السلام) کی بدبو کی وجہ سے وہ آپ (علیہ السلام) کے قریب نہ آسکے اور دورہی کھڑے رہے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا اگر اللہ تعالیٰ ایوب (علیہ السلام) سے کسی خیر کو جانتے تو اس مصیبت میں ان کو گرفتار نہ کرتے۔ ان کی بات سے ایوب (علیہ السلام) بہت گھبرائے کہ کسی چیز سے اس طرح نہ گھبرائے تھے پھر عرض کیا اے اللہ ! آپ جانتے ہیں کہ میں نے کبھی کوئی رات پیٹ بھر کر نہیں گزاری جب کہ مجھے معلوم ہوتا کہ فلاں جگہ کوئی بھوکا موجود ہے پس آپ میری تصدیق کیجئے۔ پس آسمان والوں نے ایوب (علیہ السلام) کی بات کی تصدیق کی وہ دونوں بھائی سن رہے تھے پھر آپ (علیہ السلام) سجدہ میں گرپڑے اور فرمایا اے اللہ ! آپ کی عزت کی قسم میں اپنا سر نہیں اٹھاوں گا یہاں تک کہ تو مجھ سے تکلیف کو دور کردے۔ تو انہوں نے سر نہیں اٹھایا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام) سے تکلیف کو دور فرما دیا۔ 13:۔ ابن عساکر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ایوب (علیہ السلام) پے درپے مصیبت میں مبتلا کیے گئے، اہل و عیال اور اولاد کے چلے جانے کی مصیبت میں مبتلا ہوئے پھر اپنے بدن (کی مصیبت) میں مبتلا ہوئے۔ پھر اتنی مصیبت میں مبتلا ہوئے کہ بنی اسرائیل کے کوڑا کرکٹ پر ڈال دیے گئے۔ اور ایوب (علیہ السلام) نے اس مصیبت سے نجات کی دعا نہیں مانگی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان سے اس مصیبت کو دور فرمادیں مگر یہ کہ وہ ہمیشہ صبر کرتے تھے اور ثواب کی امید رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ دو آدمی ان کے پاس سے گزرے تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا۔ اگر اللہ تعالیٰ کو اس میں کوئی خیر نظر آتی تو اس کو اس مصیبت میں مبتلا نہ کرتے۔ ایوب (علیہ السلام) نے ان کی اس بات کو سن لیا اور یہ بات ان پر بھاری گزری تو فرمایا اے میرے رب (آیت) ” مسنی الضر “ یعنی مجھے تکلیف پہنچی ہے پھر اپنے رب سے عرض کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” وانت ارحم الرحمین (83) فاستجبنا لہ فکشفنا مابہ من ضر واتینہ اھلہ ومثلہم معہم “ پھر فرمایا (آیت) ” اتینہ اھلہ “ یعنی دنیا میں ہم نے ان کو اہل و عیال عطا فرمائے (آیت) ” ومثلہم معہم “ اور اسی طرح آخرت میں بھی عطا فرمائیں گے۔ 14:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واتینہ اھلہ ومثلہم معہم “ کے بارے میں فرمایا کہ ان سے کہا گیا اے ایوب ! تیرے اہل و عیال تیرے لئے جنت میں ہیں اگر تو چاہے تو ہم ان کو تیرے پاس لے آئیں اور اگر تو چاہے تو ہم ان کو تیرے لئے جنت میں چھوڑ دیں اور ہم تجھ کو اس کے بدلے میں ان کے مثل عطا کریں۔ ایوب (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں بلکہ ان کو میرے لئے جنت میں چھوڑ دو ۔ تو انکوان کے لئے جنت میں چھوڑ دیا گیا اور اس کے بدلے میں دنیا میں ان کے مثل عطا کیے گئے۔ 15:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے نوف البکالی (رح) سے (آیت) ” ومثلہم معہم “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں ان کو جنت میں آپ (علیہ السلام) کے لیے ذخیرہ کرتا ہوں اور دنیا میں ان کے مثل (اور اہل و عیال) عطا کرتا ہوں۔ مطرف نے اس کو بیان کیا تو نوف البکالی نے کہا میں اس کو نہیں جانتا تھا آج کے دن سے پہلے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے اہل و عیال : 16:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور طبرانی نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ کو یہ بات پہنچی کہ مروان نے اس آیت (آیت) ” واتینہ اھلہ ومثلہم معہم “ کے بارے میں فرمایا کہ ایوب (علیہ السلام) کو ان کے اہل و عیال کے علاوہ دوسرے اہل و عیال دیئے گئے۔ ابن مسعود ؓ نے فرمایا نہیں بلکہ آپ (علیہ السلام) کو اپنے اہل و عیال عطا کیے گئے اور ان کے ساتھ ان کے مثل بھی عطا کیے گئے۔ 17:۔ ابن منذر نے حسن ؓ سے (آیت) ” واتینہ اھلہ ومثلہم معہم “ کے بارے میں فرمایا کہ آپ کے ا ہل و عیال مرے نہیں تھے بلکہ آپ سے غائب کردیئے گئے تھے۔ پھر ان کو اہل و عیال واپس عطا کردیئے گئے (آیت) ” ومثلہم معہم “ یعنی آخرت میں ان کے ساتھ ان کے مثل عطا کیے جائیں گے۔ 18۔ ابن جریر، ابن جریج (رح) سے (آیت) ” واتینہ اھلہ ومثلہم معہم “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گھر کے لوگوں کو زندہ کردیا تھا اور ان کے مثل اور بھی زیادہ عطا فرما دیئے۔ 19:۔ ابن جریر نے حسن ؓ اور قتادہ ؓ دونوں حضرات نے (آیت) ” واتینہ اھلہ ومثلہم معہم “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ان کے گھر کے لوگوں کو زندہ کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے مثل اور بھی زیادہ کردیئے۔ 20:۔ ابن جریر نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ومثلہم معہم “ یعنی ان کی نسل میں سے ان کے مثل عطا فرمائے۔ 21:۔ احمد نے زہد میں حسن ؓ سے روایت کیا کہ ایوب (علیہ السلام) (کے جسم میں سے) کچھ باقی نہیں، مگر ان کی آنکھیں، ان کا دل، اور ان کی زبان، کیڑے مکوڑے آپ (علیہ السلام) کے جسم پر پھرتے رہتے تھے، اور آپ (علیہ السلام) کوڑے میں سات سال اور کچھ دن پڑے رہے۔ 22:۔ احمد نے نوف البکالی (رح) سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل میں سے ایک جماعت ایوب (علیہ السلام) کے پاس سے گزری، انہوں نے کہا ان کو یہ مصیبت گزری۔ انہوں نے کہا ان کو یہ مصیبت کسی بڑے گناہ کے بدلے میں پہنچی ہے۔ اس بات کو ایوب (علیہ السلام) نے سن لیا، اس وقت یہ دعا فرمائی (آیت) ” مسنی الضروانت ارحم الرحمین “ اور اس سے پہلے دعا نہیں کرتے تھے۔ 23:۔ ابن جریر نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ ایوب (علیہ السلام) ایک کوڑے پر سات سال اور کچھ ماہ پڑے رہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس تکلیف کے دور ہونے کی دعا نہیں فرمائی۔ حالانکہ زمین پر ایوب (علیہ السلام) سے مکرم کوئی مخلوق نہیں تھی۔ بعض لوگوں نے یوں کہا اگر ان کے رب کو ان میں کوئی ضرورت ہوتی تو ان کے ساتھ ایسا معاملہ نہ فرماتے تو اس وقت (اللہ تعالیٰ ) سے دعا فرمائی۔ 24:۔ ابن جریر نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ ایوب (علیہ السلام) کو عورت کے پستان کی طرح بڑی بڑی پھنسیاں نکلتی تھیں پھر وہ پھٹ جاتی تھیں۔ 25:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” مسنی الضروانت ارحم الرحمین “ کے بارے میں فرمایا کہ جب ان کو تکلیف پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو دعا کرنا بھلا دیا کہ وہ دعا کرتے اور ان سے تکلیف دور ہوجاتی۔ آپ (علیہ السلام) کثرت سے ذکر الہی کرتے رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جو ان کو تکلیف پہنچتی تھی وہ آپ (علیہ السلام) کی رغبت اور حسن ایقان میں اور اضافہ کرتی تھی۔ جب آزمائش کی مدت ختم ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی تکلیف دور کرنے کا فیصلہ فرمایا تو انکو دعا کرنے کی اجازت دے دی گئی اور ان کے لئے اس کو آسان کردیا گیا اس سے پہلے اللہ تعالیٰ فرماتے تھے، میرے بندے ایوب (علیہ السلام) کے لئے مناسب نہیں وہ مجھ سے دعا مانگیں اور میں قبول نہ کروں۔ جب دعا فرمائی تو (اللہ تعالیٰ ) ان کی دعا کو قبول فرمالیا اور ہر وہ چیز جو چلی گئی تھی اس کے بدلے میں دگنی عطا فرمائی۔ ان کے اہل و عیال بھی لوٹا دیئے اور ان کے مثل اور بھی عطا فرمادئیے۔ اور ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا (آیت ) ’ ’ انا وجدنہ صابرا نعم العبد، انہ اواب “۔ 26:۔ ابن جریر نے لیث (رح) سے روایت کیا کہ مجاہد (رح) نے ایک کو بھیجا جس کو قاسم کہا جاتا تھا عکرمہ ؓ کی طرف۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” واتینہ اھلہ ومثلھم معھم “ کے بارے میں پوچھ کر آئے، تو عکرمہ ؓ نے فرمایا کہ ایوب (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ تیرے اہل و عیال تیرے آخرت میں ہیں۔ اگر تو چاہے تو ہم ان کو جلدی تیرے لئے دنیا میں بھیج دیتے ہیں۔ اور اگر تو چاہے تو وہ تیرے لئے آخرت میں رہیں اور ہم تجھ کو ان کی مثل دنیا میں عطا کردیں، تو انہوں نے فرمایا ان کو آخرت (یعنی جنت) میں رہنے دیجئے اور ان کے مثل مجھ کو دنیا میں دے دیجئے (یہ سن کر) وہ آدمی مجاہد (رح) کے پاس لوٹ آیا اور مجاہد (رح) نے فرمایا کہ انہوں نے ٹھیک کہا ہے۔ 27:۔ ابن جریر نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” رحمۃ من عندنا وذکری للعبدین “ اور (آیت ) ’ ’ رحمۃ منا وذکری لاولی الالباب “ (صآیت 43) کے بارے میں فرمایا کہ وہ شخص جسکو کوئی مصیبت پہنچے تو وہ اس مصیبت کو یاد کرے جو ایوب (علیہ السلام) کو پہنچی اور اس کو چاہیے کہ یوں کہے کی یہ مصیبت یا تکلیف مجھ سے بہتر شخص کو پہنچ چکی ہے جو انبیاء میں سے ایک نبی تھے۔ 28:۔ ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ایوب (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ایک کوڑے پر سات سال اور کچھ ماہ پڑے رہے اور حشرات الارض ان کے جسم پر پھرتے رہتے تھے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے لئے دوبارہ مالی وسعت : 29:۔ ابن جریر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ایوب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد عطا فرمائی اور اس میں خوب وسعت دی۔ ان کے لئے بکریاں، گائیں، بھیڑیں اور اونٹوں کی کثرت تھی، اللہ کے دشمن ابلیس نے اللہ سے کہا کیا تو ایوب (علیہ السلام) کو آزمائش میں ڈالنے پر قادر ہے ؟ پھر کہنے لگا اے میرے رب ! تو نے ایوب (علیہ السلام) کو دنیا میں مال اور اولاد عطا فرمائی ہے اس لئے وہ تیرا شکر ادا کرتا ہے۔ مجھے اس کے مال اور اولاد پر مسلط کردے پھر دیکھیں گے کہ وہ کیسے میری اطاعت کرتا ہے اور تیری نافرمانی کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو ان کے مال اور اولاد پر مسلط کردیا۔ تو وہ ان کے مال میں سے بکریوں پر آیا اور ان کو آگ سے جلادیا۔ پھر ایوب (علیہ السلام) کے پاس ایک گدڑیے کی شکل بناتے ہوئے آیا آپ (علیہ السلام) نے فرمایا نماز پڑھ رہے تھے، کہنے لگا اے ایوب (علیہ السلام) تو اپنے رب کی نماز پڑھ رہا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے تیری بکریوں میں سے تیرے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ مگر ان کو آگ سے جلا دیا ہے۔ میں ان کے قریب میں تھا۔ میں تجھ کو خبر دینے کے لئے آیا ہوں۔ ایوب (علیہ السلام) نے فرمایا اے اللہ۔ آپ نے مجھے عطا فرمایا تھا اور آپ ہی نے لے لیا ہے، جو کوئی چیز باقی ہوگی میں تیری تعریف کروں گا تیری اچھی آزمائش پر۔ اللہ تعالیٰ جس کے ضائع کرنے آتا ہے اس کے بچاؤ کی کسی کو قدرت نہیں۔ پھر شیطان گائیوں کے پاس آیا اور ان کو آگ سے جلادیا پھر وہ ایوب (علیہ السلام) کے پاس آیا اور اس کو پہلے کی طرح خبردی اور ایوب (علیہ السلام) نے اس کو پہلے کی طرح جواب دیا۔ اور اسی طرح اس نے اونٹوں کے ساتھ کیا۔ یہاں تک کہ جانوروں میں سے کچھ بھی نہ چھوڑا۔ پھر اس نے ان کی اولاد پر گھر کو گرادیا۔ اور کہنے لگا اے ایوب (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ نے تیری اولاد پر دیواریں گرانے والوں کو بھیجا یہاں تک کہ وہ سب ہلاک ہوگئے۔ ایوب (علیہ السلام) نے پہلے کی طرح جواب دیا۔ اور فرمایا اے میرے رب ! آپ نے یہ سب مجھ پر احسان فرمایا آج سے پہلے میں دن کے وقت مال کی محبت میں مشغول ہوتا تھا اور رات کے وقت اپنے بچوں کی محبت میں مشغول ہوتا ان پر شفقت کرتے ہوئے۔ اب میں فارغ کرلیا ہے آپ کے لئے اپنے کانوں کو اپنی آنکھوں کو اپنی رات کو اور اپنے دن کو ذکر کے لئے حمد کے لئے تقدیس کے لئے اور تہلیل کے لئے (یہ سن کر) اللہ کا دشمن انکے پاس سے چلا گیا۔ اور وہ ایوب (علیہ السلام) سے جو چاہتا تھا وہ حاصل نہ کرسکا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پوچھا تو نے ایوب (علیہ السلام) کو کیسا پاپا ؟ ابلیس نے کہا ایوب (علیہ السلام) جانتا ہے کہ آپ ان کے مال کو اور ان کی اولاد کو واپس کردیں گے اسی لئے وہ مطمئن ہیں لیکن مجھے ان کے جسم پر مسلط کردیجئے اگر اس میں ان کو تکلیف پہنچی تو وہ میری اطاعت کریں گے اور تیری نافرمانی۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ان کے جسم پر بھی مسلط کردیا۔ ابلیس ان کے پاس آیا اور ان کے جسم پر ایسی پھونک ماری کے وہ سر سے قدموں تک پھٹ گیا۔ (اسی طرح) ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت ان کو پہنچی۔ یہاں تک کہ ان کو بنی اسرائیل کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر ڈال دیا گیا۔ ان کا کچھ باقی نہ رہا نہ مال نہ اولاد نہ دوست اور نہ کوئی جو ان کے ساتھ ٹھہرتا۔ سوائے رحمت (بیوی) کے جس نے ان پر صبر کیا۔ جو آپ کی تصدیق پر رہی اور ان کے پاس کھانا لاتیں اور ان کے ساتھ اللہ کی حمد بیان کرتیں جب آپ حمد بیان کرتے اور ایوب (علیہ السلام) نے اس حال میں بھی اللہ کے ذکر، حمد اور اللہ کی ثناء کو نہ چھوڑا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جس تکلیف میں مبتلا کیا تھا اس پر وہ صبر کرتے تھے۔ (اس حال کو دیکھ کر) ابلیس خوب چیخا، تو زمین کے کناروں سے اس کے لشکر ایوب (علیہ السلام) کے صبر سے گھبرا کر جمع ہوگئے (سارے لشکر) اس کی طرف جمع ہوئے اور ابلیس نے کہا ہم تیری طرف جمع ہوئے ہیں کہ کس چیز نے تجھ کو غمگین کیا ہے کس چیز نے تجھ کو لاچار کردیا ہے۔ کہنے لگا اس بندے مجھ کو عاجز کردیا ہے۔ جو میں نے اپنے رب سے سوال کیا تھا کہ مجھ کو اس کے مال اور اولاد پر مسلط کردیجئے۔ پھر میں نے اس کا نہ مال چھوڑا اور نہ اولاد چھوڑی مگر اس بات نے اس کو اور زیادہ کردیا صبر میں اور اللہ تعالیٰ کی ثناء میں اور اس کی حمد میں پھر میں اس کے جسم پر مسلط ہوا اور میں نے اس کا جسم پھوڑے پھوڑے کردیا۔ اسے بنی اسرائیل کے ایک کوڑے پر ڈال دیا گیا سوائے اس کی بیوی کے اور کوئی اس کے قریب نہیں آتا تھا۔ (لیکن) میں اپنے رب سے رسوا ہوگیا ہوں میں تم سے مدد مانگتا ہوں چاہیے کہ تم اس کے خلاف میری مدد کرو۔ انہوں نے ابلیس سے کہا تیرا مکر کہاں ہے ؟ تیرا علم کہاں ہے کہ جس کے ذریعے تو نے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا۔ ابلیس نے کہا یہ ساری تدبیریں ایوب (علیہ السلام) کے بارے میں ناکام ہوگئی ہیں۔ (اب) مجھے مشورہ دو ۔ انہوں نے کہا ہم تجھ کو مشورہ دیتے ہیں، تو بتا جب تو نے آدم (علیہ السلام) کو جنت سے نکلوایا تھا تو کس کے ذریعے نکلوایا تھا کہنے لگا اس کی بیوی کے ـذریعے، تو لشکر والوں نے کہا کہ تم ایوب (علیہ السلام) پر بھی اس کی بیوی کے ذریعے وار کرو کیونکہ وہ اپنی بیوی کی بات کو نہ ٹال سکے گا۔ اور اس کے علاوہ کوئی بھی اس کے قریب نہیں ٹھہرتا ابلیس نے کہا تم نے ٹھیک بات کہی، وہ چلا اور ان کی بیوی کے پاس آیا ایک آدمی کی صورت میں۔ اور کہنے لگا اے اللہ کی بندی تیرا خاوند کہاں ہے ؟ اس نے کہا وہ یہی تو ہے جو اپنے پھوڑوں کو کھجلا رہا ہے اور کیڑے جسم پر گھوم رہے ہیں جب اس نے (اس بات کو) سناتو اس کو امید ہوچلی اور اس نے خیال کہ شاید یہ الفاظ بےصبری سے کہہ رہی ہے۔ پھر شیطان نے بیوی کے دل میں وسوسہ ڈالا اور اسے گزشتہ زندگی کی نعمتیں اور مال ومتاع یاد دلایا۔ اور اس کو ایوب (علیہ السلام) کے جمال و جوانی کا زمانہ یاد دلایا اور وہ جس تکلیف میں مبتلا تھے اس کا بھی ذکر کیا اور یہ کہا کہ اب ان سے یہ تکلیف کبھی دور نہ ہوگی۔ تو (یہ سن کر) وہ چیخ پڑی۔ جب وہ چیخی تو اس نے جان لیا کہ یہ اب گھبرا گئی ہے (اور صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے) تو ہو ایک بکری کا بچہ لے آیا۔ اور کہنے لگا کہ ایوب (علیہ السلام) اگر غیر اللہ کے نام پر یہ بکرا ذبح کردیں تو اس مصیبت سے بچ جائیں گے۔ بی بی چیختی چلاتی ہوئی ایوب (علیہ السلام) کے پاس آئیں اور کہا اے ایوب (علیہ السلام) ! اے ایوب کب تک اس عذاب میں مبتلا رہوگے۔ تمہارا مال کہاں گیا ؟ تمہاری اولاد کہاں گئی ؟ تمہارے دوست کہاں گئے ؟ آپ کا حسن و جمال کہاں گیا (اور جسم) کہاں گیا جو بوسیدہ ہوگیا اور اس میں جانور (یعنی کیڑے) پرورش پانے لگے۔ بکری کے اس بچے کو (غیر اللہ کے نام پر) ذبح کردیجئے اور آرام پائیے۔ ایوب (علیہ السلام) نے فرمایا دشمن خدا تیرے پاس آپہنچا۔ اور تیرے اندر اس نے پھونک ماردی اس نے تیرے اندر نرمی کو پالیا اور تو نے اس کی بات کو قبول کرلیا۔ تیرا برا ہو۔ یہ تو بتا جس مال مویشی اولاد اور صحت پر تو رو رہی ہے وہ دی کس نے تھی ؟ بی بی نے کہا اللہ نے، ایوب (علیہ السلام) نے کہا اور کتنے زمانے تک ہم مزے اڑاتے رہے ـ؟ بی بی نے کہا اسی (80) برس تک۔ ایوب (علیہ السلام) نے کہا اب کتنے زمانے سے ہم پر یہ مصیبت پڑی ہے ؟ بی بی نے کہا سات برس اور چند مہینے، ایوب (علیہ السلام) نے فرمایا تیرا برا ہو۔ اللہ کی قسم ! تو کیا یہ تیری انصاف کی بات ہوگی اگر تو اسی برس تک مصیبت نہ جھیلے جس طرح اسی برس تک ہم راحت و آرام سے لطف اندوز ہوتے رہے اللہ کی قسم اگر اللہ نے مجھ کو شفاء دیدی تو میں تجھ کو سو کوڑے ماروں گا۔ جو تو مجھے مشورہ دے رہی تھی کہ میں غیر اللہ کے نام پر ذبح کروں تو جو کھانا پینا لے کر آتی ہے مجھ پر حرام ہے اور آئندہ بھی جو کچھ تولے کر آئے گی اس کو چکھنا میرے لئے حرام ہے۔ مجھ پر الگ ہوجا آئندہ میں تجھے یہاں نہ دیکھوں۔ غرض ایوب (علیہ السلام) نے بی بی کو نکال دیا وہ چلی گئی۔ شیطان نے کہا کہ ایوب (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو آمادہ کرلیا ہے اس مصیبت میں اسی برس تک رہنے کے لئے جس میں وہ ہیں اور اس نے ایوب (علیہ السلام) کی طرف دیکھا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو نکال دیا ہے اور (اب) ان کے پاس نہ کھانا ہے، نہ پینا ہے اور نہ کوئی دوست ہے۔ اور دو آدمی ان کے پاس سے گزرے اور آپ (علیہ السلام) روڑی پر پڑے ہوئے تھے۔ کہنے لگے اللہ کی قسم آج کے دن زمین پر اللہ کے نزدیک ایوب (علیہ السلام) سے بڑھ کر کوئی زیادہ عزت والا نہیں تھا۔ ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا اگر اللہ تعالیٰ کو ان میں کوئی حاجت ہوتی تو وہ اس حال کو نہ پہنچتے۔ ایوب (علیہ السلام) نے ایسی کوئی بات دل آزاری والی نہیں سنی تھی جو اس بات سے زیادہ سخت ہو۔ تو فرمایا اے میرے رب (آیت) ” مسنی الضر “ (یعنی مجھے تکلیف پہنچی ہے) پھر اللہ کی طرف درخواست کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” وانت ارحم الرحمین “ تو ان سے کہا گیا (آیت) ” ارکض برجلک، ھذا مغتسل بارد “ حکم ہوا اپنا پاوں زمین پر ماروتویہ نہانے کے لئے ٹھنڈا پانی ہے اور پینے کے لئے) تو انہوں نے اپنے پاوں کو (زمین پر) مارا ایک پانی کا چمشہ پھوٹ پڑا اس سے غسل کیا تو آپ (علیہ السلام) کے جسم پر کوئی بیماری باقی نہ رہی اور اللہ تعالیٰ نے آپ (علیہ السلام) کی ہر تکلیف اور بیماری دور فرمادی۔ آپ (علیہ السلام) کا حسن وشباب پہلے سے کہیں زیادہ ظاہر ہوگیا پھر پاوں کو زمین پر مارا تو ایک اور چشمہ ابل پڑا اس میں سے پانی پیا تو آپ (علیہ السلام) کے پیٹ کے اندر کی ساری بیماریاں جاتی رہیں آپ (علیہ السلام) تمام مردوں سے زیادہ حسین و جمیل اور صحت مند ہوگئے اور ایک جوڑا پہنا اور ادھر ادھر دیکھا تو کسی چیز کو نہ دیکھا ان چیزوں میں سے جو آپ (علیہ السلام) کے اہل و عیال تھے اور مال تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو دگنا کردیا یہاں تک کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ وہ پانی جس سے آپ (علیہ السلام) غسل کررہے تھے اس کی چھینٹوں سے سینہ پر سونے کی مکڑیاں اڑنے لگیں اور ایوب (علیہ السلام) اس کو پکڑنے کے لئے ہاتھ مارنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے انکی طرف وحی بھیجی اے ایوب ! کیا میں نے تجھے غنی نہیں بنادیا ہے ؟ عرض کیا کیوں نہیں ! یہ آپ کی برکت ہے اور اس سے کون سیر ہوسکتا ہے۔ (تندرست ہونے کے بعد) ایوب (علیہ السلام) ایک اونچی جگہ پر جا بیٹھے پھر ان کی بیوی نے (اپنے دل میں) کہا۔ اگر ایوب (علیہ السلام) نے مجھ کو نکال بھی دیا ہے تو کون ان کو کھلائے گا، یوں وہ بھوکا مرجائے گا یا درندے اس کو کھاجائیں گے۔ میں ضرور اس کی طرف لوٹوں گی۔ وہ لوٹ آئی تو وہاں نہ وہ کوڑا کرکٹ کا ڈھیر ملا اور نہ وہاں پہلے سا منظر۔ ساری صورت حال بدل چکی تھی۔ جہاں پہلے کوڑے کا ڈھیر تھا۔ وہاں چکر کاٹنے لگی اور ایوب (علیہ السلام) کی تلاش میں رونے لگی۔ یہ سارا واقعہ ایوب (علیہ السلام) کے سامنے ہو رہا تھا چونکہ آپ (علیہ السلام) ایک اچھا لباس پہنے ہوئے تھے اس لئے وہ بی بی (آپ (علیہ السلام) کے پاسآکر پوچھنے سے) ڈر رہی تھی۔ ایوب (علیہ السلام) نے خود ہی اس کو بلایا اور پوچھا اے اللہ کی بندی تو کس کی تلاش میں ہے ـ؟ وہ رونے لگی اور کہا اس کو ڑے کے ڈھیر پر ایک بیمار پڑا رہتا تھا مجھے اس کی تلاش ہے معلوم نہیں وہ ضائع ہوگیا یا اس کے ساتھ کیا ہوا ؟ ایوب (علیہ السلام) نے پوچھا تیرا کون تھا ؟ روکر کہا وہ میرا شوہر تھا کیا تم نے اس کو دیکھا ہے ؟ ایوب (علیہ السلام) نے اس سے پوچھا تو اس کو دیکھ لے تو اس کو پہچان لے گی بی بی نے کہا کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے اس کو دیکھا ہو اور پہچان نہ سکے پھر وہ غور سے آپ (علیہ السلام) کی طرف دیکھنے لگی آپ (علیہ السلام) اس کو پہچان کرا رہے تھے بیوی نے کہا جب وہ تندرست تھا تو تیرے مشابہ تھا۔ حضرت نے فرمایا میں ہی ایوب ہوں۔ جس کو تو نے ابلیس کے نام پر قربانی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن میں نے اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کی بیوی پر رحم فرمایا ان کے ساتھ مصیبت میں صبر کرنے کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے حکم کیا تخفیف فرمادی اور ایوب (علیہ السلام) کی قسم پوری کرنے کے لئے یہ تدبیر فرمائی کہ چھوٹی چھوٹی لکڑیوں کا ایک گھٹالو اور اسے ایک دفعہ مارو (قسم پوری ہوجائیگی) اور یہ سب کچھ اس کا آپ (علیہ السلام) کے ساتھ صبر کرنے کی وجہ سے تھا۔ 30:۔ عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے وہب (رح) سے روایت کیا کہ وہ بیماری جو ایوب (علیہ السلام) کو پہنچی تھی جذام نہیں تھی لیکن انکو اس سے بھی سخت تکلیف پہنچی تھی آپ (علیہ السلام) کے جسم پر عورت کے پستان کی طرح پھنسیاں نکلتی تھیں اور پھر پھٹ جاتی تھیں۔ 31:۔ ابونعیم اور ابن عساکر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ کیڑا نیچے گرجاتا تو ایوب (علیہ السلام) اس کو اٹھا کر اس کی جگہ رکھ دیتے اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے رزق میں سے کھاؤ۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی اپنی بیوی کو تسلی : 32:۔ حاکم اور بیہقی نے شعب میں اور ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایوب (علیہ السلام) کی بیوی نے ان سے فرمایا اللہ کی قسم مجھے ہی مشقت اور فاقہ پہنچا ہے۔ اور میں نے اپنی مینڈھیوں کو ایک روٹی کے بدلے میں بیچا ہے اور تجھے کھلایا ہے۔ اور بلاشبہ آپ (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ آپ (علیہ السلام) کو شفادے۔ تو انہوں نے فرمایا افسوس تجھ پر ہم ستر سال نعمتوں میں رہے اور ہم (اب) مصیبت میں سات سال سے ہیں (تو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے) 33:۔ ابن ابی الدنیا، عبد اللہ بن احمد زوائد الزہد میں اور ابن عساکر نے طلحہ بن مصرف (رح) سے روایت کیا کہ ابلیس نے کہا مجھے ایوب (علیہ السلام) سے کبھی فرحت نہیں ملی مگر جب میں نے ان کے رونے کی آوازسنی تو میں نے جان لیا کہ میں نے انہیں تکلیف پہنچا دی ہے۔ 34:۔ اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ سب سے پہلے جن کو چیچک کی بیماری لگی وہ حضرت ایوب (علیہ السلام) تھے۔ 35:۔ ابن ابی الدنیا، ابویعلی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن حبان، حاکم اور ابن مردویہ نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایوب (علیہ السلام) اٹھارہ سال تک تکلیف میں رہے آپ (علیہ السلام) کو اپنے پرائے سب چھوڑ گئے۔ مگر دو شخص جو آپ (علیہ السلام) کے خاص دوست تھے وہ صبح شام آپ (علیہ السلام) کے پاس آتے جاتے تھے۔ ایک دن ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا، اللہ کی قسم، تو جانتا ہے کہ ایوب (علیہ السلام) نے ایسا گناہ کیا ہے جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ دوسرے نے پوچھا وہ کیسے معلوم ہوا ؟ تو اس نے کہا اٹھارہ سال سے مصیبت میں گرفتار ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم نہیں فرمایا کہ اس کی مصیبت کو دور فرما دے (یہ سن کر دوسرا آدمی جب ایوب (علیہ السلام) کے پاس آیا تو وہ رہ نہ سکایہاں تک کہ اس نے آپ (علیہ السلام) کے سامنے اپنے ساتھی کی بات کا ذکر کیا تو ایوب (علیہ السلام) نے فرمایا میں نہیں جانتا جو تو کہتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ میں دو ایسے آدمیوں کے پاس سے گزرتا تھا جو اللہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے میں اپنے گھر کی طرف لوٹتا تھا اور ان کے درمیان الفت پیدا کردیتا تھا، تاکہ ناجائز طریقہ کے لئے اللہ کا نام استعمال نہ کریں۔ آپ (علیہ السلام) نکلتے تھے اپنی حاجت کے لئے جب اپنی حاجت پوری کرلیتے تو ان کی بیوی انکے ہاتھ پکڑلیتی تھی یہاں تک کہ اپنی جگہ پہنچ جاتے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ آپ (علیہ السلام) کی بیوی نے آنے میں دیر لگائی۔ تو اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی اور فرمایا (آیت) ” ارکض برجلک، ھذا مغتسل باردو شراب “ (یعنی اپنی پاوں زمین پر مارئیے یہ ٹھنڈا پانی غسل کرنے اور پینے کے لئے ہوگا) بیوی جب آپ کے پاس آئی تو آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور ادھر اللہ تعالیٰ نے ان کی مصیبت کو دور فرمایا دیا تھا اور وہ اب پہلے سے زیادہ حسین تھے۔ جب بیوی نے انکودیکھا تو (نہ پہچانتے ہوئے) کہا اے آدمی اللہ تعالیٰ تجھ میں برکت دے۔ کیا تو نے اللہ کے نبی کو دیکھا ہے جو تکلیف میں تھے۔ (پھر کہنے لگی) اللہ کی قسم ! میں نے کسی آدمی کو تجھ سے مشابہ ن ہیں دیکھا جب وہ تندرست تھے۔ ایوب (علیہ السلام) نے فرمایا میں وہی ہوں۔ ایوب (علیہ السلام) کے دو ڈھیر تھے ایک ڈھیر گندم کا تھا اور ایک ڈھیر جو کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دو بادلوں کو بھیجا ان میں سے ایک گندم کے ڈھیر پر آیا اس میں انڈیلا یہاں تک کہ وہ بہہ پڑا اور دوسرے بادل نے جو کے ڈھیر میں چاندی کو بہایا یہاں تک کہ وہ بہہ پڑی۔ 36:۔ ابن مردویہ اور ابن عساکر نے جو بیر کے طریق سے ضحاک سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” واتینہ اھلہ ومثلھم معھم “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان کی بیوی کو ان کی طرف لوٹادیا تھا اور اس کی جوانی میں اضافہ کردیا تھا یہاں تک کہ چھبیس لڑکے اس کے بطن سے پیدا ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ایک فرشتے کو بھیجا اس نے کہا اے ایوب (علیہ السلام) ! تیرا رب تجھ کو سلام کہتا ہے۔ تکلیف پر تیرے صبر کرنے کی وجہ سے۔ پھر وہ ایک کھلیان کی طرف نکلے اللہ تعالیٰ نے ایک سرخ بادل کو بھیجا تو اس بادل نے اس کھلین پر سونے کی ٹڈیاں برسائیں اور ایک فرشتہ کھڑا ہو کر ان کو جمع کرنے لگا ایک ٹڈی بھاگ گئی تو ایوب (علیہ السلام) اس کے پیچھے بھاگے اور اس کو کھلیان میں لوٹادیا۔ فرشتے نے کہا اے ایوب (علیہ السلام) تو کیا اندر آنے والی ٹڈیوں سے سیر نہیں ہوئے کہ آپ (علیہ السلام) باہر والی کے پیچھے لگ گئے۔ ایوب (علیہ السلام) نے کہا یہ میرے رب کی برکتوں میں سے ایک برکت ہے اور میں اس سے سیر نہیں ہوتا۔ 37:۔ احمد، بخاری، بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس درمیان کہ ایوب (علیہ السلام) ننگے ہو کر غسل فرما رہے تھے کہ ان پر سونے کی ٹڈیاں گرنے لگیں۔ ایوب (علیہ السلام) نے ان کو اپنے کپڑے میں اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ ان کے رب نے ان کو آواز دی اے ایوب (علیہ السلام) ! کیا میں نے تجھ کو غنی نہیں کردیا ان چیزوں سے جو تو دیکھ رہا ہے عرض کیا کیوں نہیں۔ اور آپ کی عزت کی قسم لیکن میں بےپرواہ نہیں ہوں تیری برکت سے۔ 38:۔ ابن ابی حاتم، حاکم اور ابن مردویہ نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) کو عافیت دی تو ان پر سونے کی ٹڈیاں کی بارش برسا دی انہوں نے ان کو ہاتھ سے پکڑنا شروع کیا اور ان کو اپنے کپڑے میں ڈالنے لگے۔ ان سے کہا گیا اے ایوب (علیہ السلام) کیا تو سیر نہیں ہوا عرض کیا تیرے فضل اور تیری رحمت سے کون سیر ہوسکتا ہے ؟۔ 39:۔ اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے جویبر کے طریق سے ضحاک سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایوب (علیہ السلام) عافیت ملنے کے بعد سات سال تک زندہ رہے۔ اور اسی (دین حنیف) پر ان کا وصال ہوا اس کے بعد لوگ بدل گئے اور دین ابراہیم کو بدل دیا جیسے ان لوگوں نے دین بدل دیا جو اس سے پہلے تھے۔ 40:۔ حاکم نے وھب (رح) سے روایت کہ ایوب (علیہ السلام) ترانوے (93) سال زندہ رہے۔ اور اپنی موت کے وقت اپنے بیٹے حرمل کو وصیت فرمائی۔ اور ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے بشر بن ایوب کو نبی بنا کر بھیجا اور اس کا ذوالکفل نام رکھا۔ اور وہ اپنی عمر بھر شام میں رہے یہاں تک کہ پچھتر سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور بشر نے اپنے بیٹے عبد ان کو وصیت فرمائی پھر ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا۔ 41:۔ ابن عساکر نے ابو عبداللہ جدلی (رح) سے روایت کیا کہ ایوب (علیہ السلام) یہ دعا فرماتے تھے : اللہم انی اعوذبک من جار عینہ ترانی وقلبہ یرعانی ان رأی حسنۃ اطفاھا وان رأی سیئۃ اذا عھا “ ترجمہ : اے اللہ ! میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں ایسے پڑوسی سے جس کی آنکھ مجھے دیکھے اور اس کا دل میری نگرانی کرے۔ اگر وہ کوئی نیکی دیکھے تو اس کو چھپالے اور اگر کوئی برائی دیکھے تو اس کو افشاکردے۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں تین آدمیوں کی حاضری : 42:۔ احمد نے زہد میں اور بیہقی نے شعب میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ قیامت کے دن تین آدمیوں کو لایا جائے گا۔ مالدار کو، غریب کو، اور مریض کو، مالدار سے کہا جائے گا کہ کس چیز نے تجھ کو میری عبادت سے روکا تھا ؟ وہ کہے گا اے میرے رب ! آپ نے مجھے مال دیا تھا تو میں (مال) کی وجہ سے سرکش و نافرمان ہوگیا تھا۔ اور آپ کی عبادت نہ کرسکا (کہا جائے گا) سلیمان (علیہ السلام) کو اپنے ملک سمیت لایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تو اس سے زیادہ مشغول تھا ؟ وہ کہے گا نہیں بلکہ یہ زیادہ مشغول تھے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ان کو تو بادشاہی نے بھی میری عبادت سے نہیں روکا۔ پھر مریض کو لایا جائے گا اور (اللہ تعالیٰ ) فرمائیں گے تجھ کو کس نے روکا تھا میری عبادت سے ؟ وہ کہے گا میں اپنے جسم کی بیماری میں مشغول رہا۔ ایوب (علیہ السلام) کو ان کی بیماری کے ساتھ لایا جائے گا اور (اللہ تعالیٰ ) فرمائیں گے کیا تو ان سے زیادہ تکلیف میں تھا۔ وہ کہے گا نہیں بلکہ یہ (زیادہ تکلیف میں تھے) پھر فرمایا کہ اس کو اس کے مرض نے میری عبادت سے نہیں روکا۔ (اور تو کیوں میری عبادت سے رک گیا) پھر غلام کو لایا جائے گا اور (اللہ تعالیٰ ) فرمائیں گے تجھ کو کس چیز نے میری عبادت سے روکا تھا ؟ وہ کہے گا اے میرے رب ! آپ نے مجھ پر بہت سے مالک بنا دیئے تھے ج و میرے مالک تھے۔ پھر یوسف (علیہ السلام) کو ان کی میں لایا جائے گا (اللہ تعالیٰ ) فرمائیں گے کیا تو زیادہ غلامی میں تھا یا یہ (یوسف (علیہ السلام) بندہ عرض کرے گا یہ زیادہ غلامی میں تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اسے تو غلامی نے میری عبادت سے نہیں روکا۔ (واللہ اعلم) 43:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) وذوالکفل کے بارے میں روایت کیا کہ وہ ایک نیک انسان تھے نبی نہ تھے۔ انہوں نے کفالت کی اپنی قوم کے نبی کی کہ وہ اپنی قوم کی کفالت کریں۔ اور وہ ان کے لئے ان کی (یعنی قوم والوں کی) نگرانی کریں گے اور انکے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلے کریں گے۔ انہوں نے ایسے کام کئے تو ان کا نام ذا الکفل رکھا گیا۔ 44:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ یسع (علیہ السلام) پیغمبر بوڑھے ہوگئے تو انہوں نے چاہا کہ میں اپنی زندگی میں کسی آدمی کو لوگوں پر خلیفہ مقرر کردوں یہاں تک کہ میں دیکھ لوں کہ وہ لوگوں کا انتظام کیسے کرتا ہے۔ چناچہ انہوں نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا جو شخص میری تین چیزوں کی کفالت کرے گا میں اس کو اپنا خلیفہ بناوں گا۔ ہمیشہ دن کو روزہ رکھے رات کو قیام کرے اور لوگوں کے معاملات طے کرنے میں غصہ نہ کرے۔ یہ سن کر ایک آدمی جو دیکھنے میں حقیر سا معلوم ہوتا تھا۔ کھڑا ہوا اور اس نے کہا میں ایسا کرسکتا ہوں۔ یسع (علیہ السلام) نے فرمایا تو دن کو روزہ رکھے گا۔ اور رات کو نمازیں پڑھے گا اور غصہ نہ کرے گا ؟ اس نے کہا ہاں (میں ایسا کروں گا) اس دن اس کو واپس کردیا۔ پھر دوسرے دن وہی اعلان فرمایا تو سب خاموش رہے اور وہی آدمی پھر کھڑا ہوا اور اس نے کہا میں آپ (علیہ السلام) کے حکم کی تعمیل کروں گا۔ آخر یسع نے اس کو اپنا جانشین مقرر کردیا۔ ابلیس نے اپنے چیلوں سے کہا فلاں شخص کو لازم پکڑو۔ اس شخص نے تمام شیطانوں کو عاجز کردیا۔ ابلیس نے کہا مجھے چھوڑ دو اور اس خلیفہ کو میں اس سے نبٹ لوں گا۔ ابلیس ایک بوڑھے فقیر کی شکل میں اس کے پاس آیا اور یہ اس وقت جب یہ خلیفہ اپنی خواب گاہ میں قیلولہ کرنے کے لئے پہنچ چکا تھا۔ اور رات اور دن میں وہ شخص نہیں سوتا تھا سوائے قیلولہ کے وقت کے۔ ابلیس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا کون ہے ؟ ابلیس نے کہا ایک بوڑھا مظلوم ہوں، یسع کھڑے ہوئے اور دروازہ کھول دیا۔ بوڑھے نے کہا میرے اور میری قوم کے درمیان کچھ جھگڑا ہوا ہے۔ انہوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے۔ انہوں نے مجھ پر یہ زیادتی کی ہے۔ بوڑھے نے اپنی بات کو اتنا لمبا کیا کہ آرام کا وقت جاتا رہا۔ خلیفہ نے کہا جب میں عدالت کے کمرے میں جاوں تو میرے پاس آنا تو میں تیرا حق دلوادوں گا۔ ابلیس چلا گیا۔ خلیفہ اپنی مجلس میں پہنچ کر اس بوڑھے مظلوم کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن وہ کہیں دکھائی نہ دیا۔ دوسرے دن صبح کو جب خلیفہ نے لوگوں کے معاملات طے کرنے کے لئے تب بھی بوڑھے کو تلاش کیا لیکن وہ نظر نہ آیا۔ (اجلاس کے بعد) جب خلیفہ اپنے گھر (قیلولہ کے لئے) پہنچا تو بوڑھے نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا کون ہے ؟ اس نے کہا میں وہی بوڑھا مظلوم ہوں انہوں نے اس کے لئے دروازہ کھول دیا اور کہا میں نے تجھ سے کہا تھا جب میں (اجلاس میں) بیٹھ جاوں تب تو میرے پاس آجانا۔ کہنے لگا وہ بہت برے لوگ ہیں۔ خلیفہ نے کہا جب میں اجلاس میں بیٹھ جاوں تو میرے پاس آجانا۔ (ان باتوں میں) قیلولہ کا وقت ختم ہوگیا۔ پھر (دوسرے دن) اجلاس میں گئے تو اس کو دیکھنا شروع کیا لیکن نظر نہ آیا (آرام نہ کرنے کی وجہ سے) ان پر اونگھ سخت ہوگئی۔ جب وہی وقت ہوا (آرام کا) تو ابلیس آیا تو ایک آدمی نے اس سے کہا پیچھے ہٹ جا اس نے کہا میں ان کے پاس گزشتہ کل آیا تھا۔ اور میں نے اپنا معاملہ ان کو ذکر کیا تھا۔ اس آدمی (یعنی چوکیدار) نے کہا نہیں اللہ کی قسم ! مجھ کو انہوں نے حکم دیا ہے کہ ان کے نزدیک کسی کو نہ آنے دوں۔ جب اس سے تھک گیا (اور اس نے اندر نہیں جانے دیا) تو ابلیس نے گھر کے ایک روشندان کو دیکھا اور اس میں سے کود کر گھر میں داخل ہوگیا اور اندر سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ خلیفہ جاگ گئے۔ تو انہوں نے چوکیدار سے فرمایا اے فلانے ! کیا میں نے تجھ کو حکم نہیں دیا تھا (کہ کوئی آدمی دروازے پر نہ آئے) خادم نے کہا میری طرف سے تو کوئی نہیں آیا۔ اب آپ دیکھ لیجئے کہ وہ کہاں سے آیا ہے۔ خلیفہ دروازے کی طرف گئے تو اس کو بند پایا۔ جیسے اس کو بند کیا تھا۔ لیکن وہ آدمی ان کے ساتھ کمرے میں موجود تھا۔ اب خلیفہ نے اس کو پہچانا اور اس سے کہا اللہ کا دشمن تو ہے اس نے کہا ہاں (میں ہوں) آپ نے مجھے ہر چیز میں تھکا دیا تھا پھر میں نے یہ کام کیا جو آپ دیکھ رہے ہیں تاکہ میں آپ کو غصہ دلاوں (اس پر) اللہ تعالیٰ نے ان کا نام ” ذا الکفل “ رکھا۔ کہ انہوں نے ایک کام ذمہ لیا تھا اس کو پورا کیا۔ 45:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل میں ایک قاضی تھے ان کی موت قریب ہوئی تو انہوں نے کہا کون میرا قائم مقام ہوگا مگر وہ شخص جو غصہ نہ کرے (کسی حال میں) ایک آدمی نے کہا میں آپ کا جانشین بنوں گا اس کا نام ” ذوالکفل “ رکھا گیا۔ وہ ساری رات قیام کرتا تھا۔ اس کی نیند کے وقت شیطان اس کے پاس آیا۔ اس قاضی کے دربانوں نے اس سے پوچھا تیرا کیا معاملہ ہے ؟ اس نے کہا مسکین آدمی ہوں ایک آدمی پر میرا حق ہے لیکن وہ مجھ پر غالب آچکا ہے اور مجھے اپنا حق نہیں دیتا۔ دربانوں نے کہا تو ٹھہر جا یہاں تک کہ وہ جاگ جائیں اس نے کہا وہ سونے والے سے بلند مرتبہ ہیں ؟ شیطان نے جان بوجھ کر چیخنا چلانا شروع کردیا۔ تاکہ وہ اس سے غصہ ہوجائے۔ قاضی نے سن لیا اور پوچھا تیرا کیا معاملہ ہے ؟ شیطان نے کہا میں ایک مسکین آدمی ہوں ایک آدمی پر میرا حق ہے انہوں نے کہا تم اس کے پاس جاؤ اور اپنا حق مانگو وہ تجھ کو دے گا۔ اس مسکین نے کہا اس نے انکار کردیا ہے۔ خلیفہ نے کہا اس کے پاس جاؤ تو سہی۔ وہ چلا گیا اگلے دن پھر آگیا خلیفہ نے پوچھا تیرے ساتھ کیا ہوا ؟ شیطان نے کہا میں اس کی طرف گیا تھا اس نے آپ کی بات کے ساتھ سر نہیں اٹھایا (یعنی اس نے آپ کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی) خلیفہ نے کہا تو پھر اس کی طرف جا۔ وہ چلا گیا اگلے دن پھر آگیا۔ خلیفہ کے دربانوں نے اس سے کہا نکل جا یہاں سے اللہ تعالیٰ تیرے ساتھ (برا) کرے تو ہر دن اس وقت میں آتا ہے جب وہ نیند میں ہوتے ہیں۔ تو نیند کرنے والے کو نہیں چھوڑتا۔ وہ چیخنے لگا کہ اس وجہ سے تم مجھے نکال رہے کہ میں ایک مسکین آدمی ہوں اگر میں مالدار ہوتا (تومجھ کو نہ نکالتے) خلیفہ نے سن لیا اور کہا کیا معاملہ ہے ؟ شیطان نے کہا میں اس کے پاس گیا تھا اس نے مجھ کو مارا۔ خلیفہ نے کہا تو چل میں تیرے ساتھ چلتا ہوں۔ قاضی اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا جب شیطان نے دیکھا کہ قاضی میرے ساتھ آرہا ہے ان سے اپنے ہاتھ کو چھڑایا اور بھاگ گیا۔ 46:۔ عبد بن حمید، ابن ابی الدنیا نے ذم الغضب میں ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن حارث (رح) سے روایت کیا کہ انبیاء میں سے ایک نبی نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کون ہے جو میرے ساتھ دن کے روزے رکھے اور رات کو قیام کرے اور غصہ بھی نہ کرے جو ایسا کرے گا وہ میرے ساتھ میرے درجے میں ہوگا اور میرے بعد وہ میرا قائم مقام ہوگا قوم میں سے ایک نوجوان نے کہا میں (یہ کام کروں گا) نبی نے پھر (اپنی بات کو) دہرایا تو نوجوان نے کہا میں (سب کام کرلوں گا) پھر نبی نے اپنی بات کو دہرایا تو اس نوجوان نے کہا میں یہ سب کام کرلوں گا نبی نے پھر اپنی بات کو دہرایا تو نوجوان نے کہا میں (یہ سب کام کرلوں گا) جب نبی وفات پاگئے تو اس کے بعد وہ نوجوان ان کا جانشین بنا اس کے پاس شیطان آیا کہ فلاں شخص اس پر زیادتی کرتا ہے اس خلیفہ نے اسکے ساتھ آدمی بھیجا تو اس نے بتایا کہ اس کو تو کوئی زیادتی کرنے والا نظر نہیں آیا دوسرے دن پھر آیا وہ خلیفہ خود ان کے ساتھ چلا اور اس کا ہاتھ پکڑلیا (مگر) شیطان نے ان سے ہاتھ کو چھڑایا اور بھاگ گیا اس لئے ان کا نام ذولاکفل رکھا گیا کیونکہ یہ وعدہ کیا تھا کہ اس نے غصہ نہ کرنے کی ضمانت دی تھی۔ 47:۔ ابن سعید النقاش نے کتاب القضاۃ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک نبی (علیہ السلام) نے اپنی امت کو جمع کرکے فرمایا تم میں سے کون میرے لئے میری امت کے درمیان فیصلہ کرنے کا ضامن ہوگا اس شرط پر کہ وہ غصہ نہ ہوگا ؟ ایک نوجوان کھڑا ہوا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول میں ضامن بنتا ہوں پھر انہوں نے اپنے سوال کو دہرایا تو پھر اسی نوجوان نے کہا کہ میں ضامن بنتا ہوں پھر انہوں نے تیسری مرتبہ یہ سوال کیا کہ کون تم میں سے میری امت کے درمیان فیصلہ کرنے کا ضامن ہوگا اس شرط پر کہ وہ غصہ نہیں کرے گا اس نوجوان نے پھر کہا کہ میں ضامن بنتا ہوں تو انہوں نے اس نوجوان کو اپنا خلفیہ مقرر کردیا کچھ عرصہ کے بعد شیطان خلیفہ کے پاس آیا ہو آدھے دنتک فیصلہ کرتا تھا پھر دوپہر کے وقت قیلولہ کرتا تھا پھر شیطان ان کے پاس دوپہر کے وقت یا جب وہ سو رہے تھے ان کو آواز دی یہاں تک کہ وہ جاگ گئے اور کہا کہ فلاں آدمی نے مجھ پر زیادتی کی ہے اور اس نے تیرے حکم نامے کو لوٹا ہے اور اس نے دوسری مرتبہ اور تیسری مرتبہ بھی اس کی طرف توجہ نہیں دی خلیفہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کے ساتھ چل پڑا جب شیطان نے یہ معاملہ دیکھا تو اپنے ہاتھ کو ان کے ہاتھ سے چھڑا کر بھاگ گیا تو اس کے لئے ان کا نام ” ذوالکفل “ رکھا گیا۔ ایک بادشاہ کی جانشینی کی شرائط : 48:۔ ابن ابی حاتم نے حجیرہ الاکبر (رح) سے روایت کیا کہ ان کو یہ بات پہنچی کہ بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ نے اپنے ملک میں حد سے تجاوز کیا ہوا تھا جب اس کی موت قریب ہوئی تو ان کے سردار اس کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم پر کوئی خلیفہ بنادیجئے تاکہ جھگڑوں کی صورت میں ہم اس کے پاس آئیں اس نے اپنے سرداروں کو اکٹھا کیا اور کہا کون آدمی مجھے تین کاموں کی ضمانت دے گا کہ میں اس کو اپنے ملک کا حکمران بنادوں گا کسی نے بات نہیں کی مگر قوم میں سے ایک نوجوان نے کہا میں ان تین چیزوں کی ضمانت دیتا ہوں بادشاہ نے کہا بیٹھ جا پھر اس نے دوسری مرتبہ اعلان کیا تو اس نوجوان کے علاوہ کوئی نہ اٹھا بادشاہ نے اس نوجوان سے کہا تو مجھے تین کاموں کی ضمانت دے گا اور میں تجھے اپنے ملک کا حکمران بنادوں گا نوجوان نے کہا جی ہاں میں ایسا کروں گا بادشاہ نے کہا تورات کو قیام کرے گا سوئے گا نہیں دن کو روزہ رکھے گا اور کبھی افطار نہیں کرے گا نہ تو جلدی کرے گا اور نہ غصہ کرے گا نوجوان نے کہا ہاں میں ایسا کروں گا بادشاہ نے کہا میں نے تجھ کو اپنے ملک کا حکمران بنادیا ہے جب نوجوان والی بنا تو اس نے رات کو قیام کیا دن کو روزہ رکھتا اور جلدی اور غصہ کئے بغیر فیصلے کئے صبح کو جب وہ لوگوں کے فیصلے کے لئے بیٹھا تو شیطان نے ایکآدمی کی شکل بنائی اور خلیفہ کے پاس آیا جب وہ قیلولہ کررہا تھا اور کہا کہ فلاں شخص نے مجھ پر ظلم کیا ہے اس نے ایک قاصد اس کے ساتھ بھیجا وہ اسے لے کر گھماتا رہا اور (خلیفہ) ذوا الکفل اس کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے آرام کا وقت ختم ہوگیا پھر (شیطان) نے لوگوں کے درمیان سے نکل گیا وہ قاصد ان کے پاس آیا اور ان کو خبر دی (کہ ہو بھاگ گیا ہے) خلیفہ ذوالکفل لوگوں (کے فیصلے) کے لئے بیٹھے تو شیطان نے (دل میں) کہا شاید کہ وہ رات کو سویا ہو اور دن کو روزہ بھی نہیں رکھا ہو جب شام ہوئی تو انہوں نے نماز پڑھی جو وہ نماز پڑھا کرتے تھے پھر کل کو جب وہ قیلولہ کررہے تھے (یعنی دوپہر کو سو رہے تھے) تو شیطان آیا اور کہا میرے ساتھی سے مجھے زیادتی کا بدلہ دلوایا جائے خلیفہ نے پھر اس کے ساتھ (قاصد کو) بھیجا اور اس کا انتظار کرنے لگے اس نے دیر لگائی یہاں تک کہ ذوالکفل کے آرام کرنے کا وقت جاتا رہا وہ قاصدواپس آیا اور اس نے خبر دی (کہ وہ بھاگ گیا ہے) شام کو خلیفہ نے پھر مجلس لگائی اور دن کو آرام نہ کیا تھا شیطان نے (دل میں) کہا کہ آج رات کو خلیفہ سویا رہے گا پھر خلیفہ نے شام کو نماز شروع کردی جیسے وہ نماز پڑھا کرتے تھے پھر شیطان آیا اور کہا میں اس کے ساتھ ایسا معاملہ کروں گا کہ خلیفہ کو غصہ آجائے گا کہنے لگا مجھ پر میرے ساتھ نے زیادتی کی ہے مجھے انصاف دلایا جائے ذوالکفل نے فرمایا کیا میں نے تیرے ساتھ قاصد کو نہیں بھیجا تھا شیطان نے کہا کیوں نہیں لیکن میں نے اس اپنے مقروض کو نہیں پایا ذوالکفل نے اس سے کہا چل میں تیرے ساتھ چلتا ہوں وہ اس کے ساتھ چلے تو شیطان نے ان سے کہا کیا آپ جانتے ہیں میں کون ہوں ؟ ذوالکفل نے فرمایا میں نہیں جانتا کہا میں شیطان ہوں جو تو نے اپنے بادشاہ کو ایک کام کی ضمانت دی تھی میں نے ارادہ کیا کہ تو اس کے بعض کاموں کو چھوڑ دے (یعنی معاہدہ پورا نہ کرے) مگر اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بچا لیا۔ 49:۔ عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابوموسی اشعری ؓ سے روایت کیا کہ ذوالکفل نبی نہیں تھے لیکن وہ بنی اسرائیل میں سے ایک نیک آدمی تھے ہر دن سورکعات نماز پڑھتے تھے بادشاہ فوت ہوا تو ذوالکفل اس کا کفیل بنا (اس لئے) ان کا نام ذوالکفل رکھا گیا۔ 50:۔ ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی، ابن منذر، ابن حبان، طبرانی، حاکم ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں سعید مولی طلحہ کے طریق سے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ذوالکفل بنی اسرائیل میں سے تھے کسی گناہ سے پرہیز نہ کرتے تھے ایک عورت ان کے پاس آئی اس کو انہیں نے ساٹھ دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ اس سے جماع کریں گے جب اس جگہ پر بیٹھے جہاں آدمی اپنی عورت سے (جماع کرتے وقت) بیٹھتا ہے تو وہ عورت کانپنے لگی اور رونے لگی اس نے کہا کیوں روتی ہے ؟ کیا میں نے تجھ کو مجبور کیا ہے ؟ عورت نے کہا نہیں لیکن میں نے یہ براکام نہیں کیا اور مجھے اس کام پر (صرف) ضرورت نے مجبور کیا ہے اس نے کہا تو ایسا کرتی ہے اور میں ایسا نہیں کرتا چلی جا جو پیسے میں نے تجھ کو دیئے ہیں وہ بھی تیرے کہا اللہ کی قسم اس کے بعد میں کبھی بھی اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا اسی رات وہ مرگیا اور صبح کو اس کے دروازے پر لکھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ذوالکفل کو بخش دیا ہے۔ 51:۔ ابن مردویہ نے نافع کے طریق سے ابن عمر ؓ نے (اسی طرح) ذوالکفل کے بارے میں فرمایا۔
Top