Mafhoom-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 83
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
وَ : اور اَيُّوْبَ : ایوب اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗٓ : اپنا رب اَنِّىْ : کہ میں مَسَّنِيَ : مجھے پہنچی ہے الضُّرُّ : تکلیف وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ : سب سے بڑا رحم کرنیوالا الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
اور ایوب نے جب اپنے رب سے دعا کی کہ مجھ پر تکلیف پڑی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنیوالا ہے۔
سیدنا ایوب (علیہ السلام) کی آزمائش تشریح : سیدنا ایوب (علیہ السلام) کی زندگی بھی حسن اخلاق ‘ صبر و استقامت اور زہد وتقویٰ کی بہترین مثال ہے۔ آپ کے نسب قوم اور زمانے میں اختلاف ہے زیادہ خیال یہی ہے کہ آپ کا زمانہ نویں صدی قبل مسیح یا اس سے پہلے کا ہے۔ آپ سیدنا اسحاق (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے عیسو کی نسل سے تھے۔ آپ کو اللہ نے عزت ‘ دولت ‘ شہرت ‘ صحت اور ایمان کی دولت سے مالا مال کر رکھا تھا۔ آپ اور آپ کی بیوی رحمت انتہائی نیک ‘ پرہیزگار اور شکر گزار انسان تھے۔ اللہ نے آپ کو یہ سب کچھ دے کر تو آزما لیا اب اس نے آپ کو تنگ دستی بیماری ‘ آفات ‘ مشکلات اور نقصانات سے دوچار کر کے آزمایا۔ یعنی تمام شان و شوکت صحت آل اولاد سب کچھ چھین لیا اور بیماری ایسی لگائی کہ سب ساتھ چھوڑ گئے سوائے نیک و فرمانبردار بیوی کے۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود نہ تو زبان پر اللہ سے شکوہ کیا نہ ایمان میں کمزوری آئی۔ بلکہ اللہ جل شانہ ‘ کی حکمت ‘ دانائی اور حاکمیت پر اس قدر پکا یقین تھا کہ سب کچھ صبر و سکون سے شکر ادا کرتے ہوئے صرف اس لیے برداشت کرتے رہے کہ اللہ بڑا مہربان ہے یہ سب کچھ کسی خاص مصلحت یا امتحان کے طور پر ہو رہا ہے اور پھر ایمان کی پختگی کا یہ عالم کہ یہ زندگی تو عارضی ہے اصل میں تو آخرت کی زندگی ہی ہے۔ لہٰذا بےمثال صبر و سکون اور شکر و عبودیت سے تمام تکالیف برداشت کرتے رہے۔ جب بہت زیادہ وقت اسی طرح گزر گیا تو پھر اللہ کو پکارا ” مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔ (سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے) آپ کی دعا کا انداز اور خودداری اور اللہ کے رحم و کرم پر بھروسہ کی انتہاء اللہ کو اس قدر پسند آیا کہ اللہ کی رحمت نے جوش مارا اللہ نے آپ کی تمام تکلیفیں دور کردیں اور سب کچھ پہلے سے زیادہ دیا۔ سیدنا ایوب (علیہ السلام) کا واقعہ اسی لیے بیان کیا گیا ہے کہ ہر سننے پڑھنے والا اس سے سبق حاصل کرلے۔ کہ ہر مصیبت ‘ پریشانی اور تکلیف اس لیے آتی ہے کہ انسان کا ایمان اور بھی مضبوط ہوجائے۔ جب ایک مصیبت زدہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اس میں بھی اس کے لیے کوئی بہتری ہے تو پھر اس کی تکلیف ‘ تکلیف نہیں رہتی اسی میں تقویٰ ‘ بندگی ‘ ایثار اور اللہ سے محبت انتہاء کو پہنچ جاتی ہے۔ تو ایسے ہی شکر گزار متقی پرہیزگار بندگان کے لیے رب العلمین کی طرف سے خوشخبری ہے کہ ان کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں اللہ ان کو فراخی ‘ صحت و سلامتی ‘ عزت اور فتح مندی ضرور عطا کرتا ہے اور آخرت میں تو ہمیشہ کی برکات ان کو ہی ملیں گی۔ سیدنا ایوب (علیہ السلام) کی دعا کا انداز ہمیں خودد اری اور یقین کامل کا سبق بھی دیتا ہے۔ ” میں مشکل میں ہوں اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ “ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے (علامہ اقبال) اس کا مطلب غرور ‘ خود پسندی ‘ ضد یا ہٹ دھرمی نہیں بلکہ اس کا مطلب اپنی پہچان ‘ اللہ کی پہچان ‘ یقین ‘ بڑائی اور اپنی عجزو انکساری کا اعتراف ہے۔ اپنی بندگی اور اللہ کی بندہ نوازی پر یقین کی پختگی کا اظہار ہے۔ خودداری اور خود پسندی (غرور) میں ایک دھاگہ کے برابر فرق ہے۔ خودداری تو انسان کو زمین سے آسمان پر پہنچاتی ہے یعنی انسانی اخلاق کا بلند ترین درجہ ہے جبکہ خودپسندی آسمان سے زمین پر گرا دیتی ہے جیسا کہ شیطان ” ابلیس “ کہ اللہ نے اس کے غرور اور نافرمانی کی وجہ سے اس پر ہمیشہ کے لیے لعنت کردی۔ اور اپنے پیارے شکر گزار بندے سیدنا ایوب (علیہ السلام) کی شاندار دعا پر ان کی تمام سختیاں راحتوں میں بدل دیں۔ آپ کی زندگی کا ہر ہر لمحہ انسان کی زندگی کے ہر ہر لمحے کو پاکیزہ ‘ کامیاب اور بلند ترین بنانے کا سبق دیتا ہے۔ کیونکہ امتحان تو زندگی کے ہر شعبہ اور ہر لمحہ پر ہوتا رہتا ہے۔ یعنی انسان کی عقل ‘ علم ‘ مال و دولت ‘ عزت ‘ شہرت ‘ طاقت ‘ صحت ‘ عبادت اور ہر قسم کے اختیارات سب کچھ امتحان کے دائرے میں آتا ہے۔ جو بھی انسان یہ تمام کام عبدیت (اللہ کی فرمانبرداری) اور نیابت الٰہی (اللہ کا نائب ہونا) کو خیال میں رکھ کر کرتا ہے کسی بھی مشکل میں شکوہ شکایت نہیں کرتا۔ رضائے الٰہی پر راضی رہتا ہے تو گویا اس نے اللہ کی مقبولیت حاصل کرلی۔ اور جس نے فخر و غرور ‘ آزادی ‘ خود مختاری اور اللہ کے سوا دوسروں کی رضا مندی اور اللہ سے دوری اور غفلت سے کام لیا تو گویا اس نے شیطان کی رفاقت اور فرمانبرداری میں پڑ کر خود کو ذلیل و خوار کرلیا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ تو ثابت ہوا کہ اللہ کا راستہ بہترین راستہ ہے اور اللہ کی مدد ہی بہترین مدد ہے۔ ” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ “ ( سورة فاتحہ) ” اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحَمِیْنَ “ ” مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ “ تو اللہ نے فرمایا : ” پس ہم نے اس کی فریاد سن لی اور اس کو جو تکلیف تھی وہ دور کردی اور عبادت کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔ “
Top