Tafseer-e-Haqqani - Al-Anbiyaa : 83
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
وَ : اور اَيُّوْبَ : ایوب اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗٓ : اپنا رب اَنِّىْ : کہ میں مَسَّنِيَ : مجھے پہنچی ہے الضُّرُّ : تکلیف وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ : سب سے بڑا رحم کرنیوالا الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
اور (یاد کرو) جبکہ ایوب نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے سخت روگ لگ گیا ہے حالانکہ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے
حضرت ایوب ( علیہ السلام) کا قصہ : یہ ایوب (علیہ السلام) کا پانچواں قصہ ہے جس میں یہ بات پاکبازوں اور خدا کے راستبازوں کو بتلائی جاتی ہے کہ دنیا دارالمصائب ہے یہاں بڑے بڑے برگزیدے آزمائے گئے ہیں۔ ان پر طرح طرح کی مصیبتیں پڑی ہیں ایوب ( علیہ السلام) کو دیکھو مال و اسباب پر مصیبت آئی ‘ فقیر ہوگئے پھر تمام اولاد بیٹے اور بیٹیاں دفعتاً مرگئے پھر خود بھی مرض جذام میں مبتلا ہوگئے لوگ گھن کھانے لگے گاؤں سے نکال دیے گئے ‘ باہر ایک جھونپڑی میں رہتے تھے بیوی کہیں سے…محنت و مزدوری کر کے لاتیں اور ان کو کھلاتی تھیں اس پر بھی انہوں نے صبر کیا۔ اس آزمائش کی بابت کتاب ایوب 1 ؎ میں بھی اور ہمارے ہاں کی روایات میں بھی یوں بیان ہوا ہے کہ شیطان نے خدا تعالیٰ سے کہا کہ ایوب کی جو تو تعریف کرتا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ اس کو تو نے بہت سی نعمت عطا کر رکھی ہے اگر اس پر مصیبت آوے اور پھر تیری شکایت نہ کرے تب جانوں کہ صابر و شاکر ہے۔ خدا تعالیٰ نے شیطان کو اختیار دیا ایوب ( علیہ السلام) کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں اور مال کا یہ حال کہ سات ہزار بھیڑیں اور تین ہزار اونٹ اور پانچ سو جوڑیاں بیلوں کی اور پانچ سو گدھیاں تھیں۔ پس ایک روز ایسا ہوا کہ سب بہن بھائی ایک مکان میں دعوت کھا رہے تھے اور مواشی چرا گاہ میں چر رہے تھے اور بیل جوتے جا رہے تھے۔ ناگاہ سبا کے لوگ آگرے اور گدھوں کو چھین لے گئے اور آدمیوں کو قتل کر گئے اور اسی دن آسمان سے آگ کا شعلہ آیا اس نے بھیڑوں اور نوکر چاکروں کو ہلاک کیا اور کسدی اونٹ لے گئے اور نوکروں کو مار گئے اور ایک زور کی آندھی آئی مکان گرگیا ۔ سب بیٹے بیٹیاں دب کر مرگئے۔ قاصدوں نے یکے بعد دیگرآکر ایک ہی وقت میں ایوب ( علیہ السلام) کو اس حادثہ کی خبر دی کسی نے اولاد کی ہلاکت کی ‘ کسی نے اونٹوں کی ‘ کسی نے بکریوں کی۔ ایوب ( علیہ السلام) نے سن کر سجدہ کیا اور کہا میں ماں کے پیٹ سے ننگا نکلا تھا اور ننگا ہی قبر میں جائوں گا ‘ اسی نے دیا تھا ‘ اسی نے لے لیا۔ اس کے بعد شیطان نے کہا اب بھی ایوب جو شکر و صبر کرتا ہے تندرستی کی نعمت ان کو حاصل ہے اگر یہ نہ ہو تب شکر و صبر کرے تو معلوم ہو اس پر بھی خدا تعالیٰ نے شیطان کو اجازت دی۔ 1 ؎ صاحب معالم و تلک حجتنا کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایوب (علیہ السلام) رومی تھے اور تیسری پشت بنی عبص بن اسحاق (علیہ السلام) سے جا ملتے ہیں مگر صاحب انوار التنزیل نے سورة جن میں اذکر عبدنا ایوب کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ایوب اسحاق (علیہ السلام) کا پوتا اور عبص کا بیٹا ہے بعض نے لوط (علیہ السلام) کا نواسہ بتایا ہے۔ تب شیطان نے حضرت ایوب ( علیہ السلام) پر اثر کیا جس کی وجہ سے تمام بدن پر پھوڑے نکلے اور ٹھیکرا لے کر کھجلانے لگے اور تمام بدن خراب ہوگیا پھوٹ نکلا ان مصیبتوں پر حضرت ایوب ( علیہ السلام) نے صبر کیا لوگوں کے طعن وتشنیع کی بھی تکلیفیں اٹھائیں۔ دوستوں کی بےمہری دیکھی۔ تب ایک روز حضرت ایوب ( علیہ السلام) خدا تعالیٰ کے سامنے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کہ اے میرے معبود ! اپنے بندے پر رحم کر ‘ میرے زخمی دل کو دیکھ ‘ مجھ سے لوگ نفرت کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے و ایوب اذنادی ربہ انی مسنی الضر خدا تعالیٰ نے ایوب ( علیہ السلام) پر رحمت کی اس کو آگے کی نسبت دونی دولت عنایت کی و اتینہ و اھلہ مثلہم معہم مقائل وقتادہ و ابن عباس و ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ایوب ( علیہ السلام) کے مرے ہوئے کنبے کو زندہ کردیا اور سات بیٹے اور تین بیٹیاں بعد میں پیدا ہوئیں جیسا کہ ظاہر آیت میں سمجھا جاتا ہے۔ عکرمہ کہتے ہیں اس کے یہ معنی کہ ہم نے ایوب ( علیہ السلام) کو اس کا کنبہ دیا یعنی سات بیٹے اور تین بیٹیاں تندرست ہونے کے کے بعد پیدا ہوئیں اور اس کے بعد ایوب ایک سو چالیس برس تک زندہ رہے۔ اپنی چار پشت کو دیکھا (جیسا کہ کتاب ایوب کے 43 باب درس 15۔ 16 اس میں تصریح ہے مثلہم معہم ہوا۔ حضرت ایوب کو توریت میں۔ پھر اس میں بھی بڑا اختلاف ہے کہ حضرت ایوب ( علیہ السلام) کس زمانہ میں تھے وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ ایوب رومی تھے انوص کے بیٹے عیص بن اسحاق کی نسل سے اور ان کی بیوی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی حقیقی پوتی تھیں جن کا نام رحمۃ تھا چونکہ عرب میں بنی اسماعیل جا بسے تھے اور ایوب (علیہ السلام) کی قرابت ان سے بہت قریبہ تھی ان کے ہم زبان بھی تھے اس لیے ان کا عرب میں مبعوث ہونا من قومہ کے برخلاف نہیں کہا جاسکتا۔ اب یہ متعین نہیں کہ عرب میں کس بستی میں رہتے تھے ؟ ان کی ایام مصیبت کی تعداد کسی نے سات برس کسی نے کم زیادہ بیان کئے ہیں والعلم عنداللہ تعالیٰ ۔
Top