Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 83
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
وَ : اور اَيُّوْبَ : ایوب اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗٓ : اپنا رب اَنِّىْ : کہ میں مَسَّنِيَ : مجھے پہنچی ہے الضُّرُّ : تکلیف وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ : سب سے بڑا رحم کرنیوالا الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
اور ایوب (کو یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایذا ہو رہی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے ولا ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وایوب اذ نادیٰ ربہ یعنی یاد کرو ایوب کو جب پکارا انہوں نے اپنے رب کو انی مسنی الضر میرے بدن میں اور میرے مال اور اہل میں مجھے تکلیف پہنچی ہے۔ حضرت اببن عباس ؓ نے فرمایا : ایوب کو اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے والے تھے۔ روایت ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) روم کے ایک مالدار آدمی تھے۔ انتہائی نیکو کار اور متقی تھے۔ مسکینوں پر بہت رحم فرماتے تھے۔ یتیموں اور بیوائوں کی کفالت تھے۔ مہمان کی عزت کرتے تھے۔ مسافر کو مال پہنچاتے تھے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر کرنے والے تھے۔ وہ اپنی قوم کے ساتھ ایک جابر شخص کے پاس گئئے پس انہوں نے اسے ایک کام کے لیے مخاطب کیا حضرت ایوب اس کے لیے نرمی سے بات کر رہے تھے اپنی کھیتی کی وجہ سے تو اللہ تعالیٰ نے مال اور اہل لے کر اور جسم میں تکلیف دے کر انہیں آزمائش میں ڈال دیا آپ کے جسم سے گوشت گرگیا تھا اور جسم میں کیڑے پڑگئے تھے حتیٰ کہ شہر والوں نے آپ کو شہر سے باہر نکال دیا آپ کی بیوی آپ کی خدمت کرتی تھی۔ حسن نے کہا : آپ نو سال چھ ماہ اسی کیفیت میں رہے جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی تکلیف دور کرنے کا ارادہ کیا تو فرمایا : ارکض برجلک ھذا مغتسل باردو شراب۔ (ص) اس پانی میں تمہاری شفا ہے میں تجھے تیرے اہل، مال اور اولاد بھی واپس کردیے اور ان کی مثل ان کے ساتھ اور بھی عطا کیے۔ مزید تفصیل سورة (ص) میں آئے گی۔ اور جو کچھ مفسرین نے لکھا ہے کہ شیطان کو آپ پر تسلط دیا گیا تھا اور مفسرین کا رد بھی انشاء اللہ آئے گا۔ حضرت ایوب کے قول : مسنی الضر میں پندرہ اقوال ہیں۔ (1) آپ نماز پڑھنے کے لیے اٹھے تو آپ نہ اٹھ سکے تو آپ نے عرض کی : مسنی الضر یہ آپ نے اپنی حالت کو بیان کرنے کے لیے کہا : مصیبت کی وجہ سے شکویٰ نہیں۔ حضرت انس نے اس کو مرفوع ذکر کیا ہے۔ (2) یہ عجز کا اقرار ہے یہ صبر کے منافی نہیں۔ (3) اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان پر یہ جاری فرمایا تاکہ آپ کے بعد آنے والے اہل بلا کے لیے حجت ہوجائے، وہ مصیبت میں یہ اظہار کرسکیں۔ (4) یہ آپ کی زبان پر جاری فرمایا یہ لازم کرنے کے لیے انسان تکلیف برداشت کرنے میں ضعیف اور کمزور ہے۔ (5) چالیس دن آپ سے وحی کا سلسلہ منقطع رہا آپ اپنے رب کو چھوڑنے سے خوفزدہ ہوئے اور عرض کی : مسنی الضر ؛ یہ جعفر بن محمد کا قول ہے۔ (6) آپ کے تلامذہ آپ سے وحی اور دین کی باتیں لکھتے تھے جب آپ کی تکلیف اس انتہا کو پہنچی تو انہوں نے اس کو مٹانا شروع کردیا اور انہوں نے کہا : اللہ کی بارگاہ میں ان کی کوئی قدر نہیں ہے۔ پس آپ نے وحی کے ضائع ہونے اور لوگوں کے ہاتھوں سے دین کے چلے جانے کی تکلیف محسوس کی۔ اس کی سند صحیح نہیں۔ واللہ اعلم ؛ یہ ابن عربی کا قول ہے (7) کیڑا آپ کے جسم سے گرا تو آپ نے اسے پکڑ اور اسے اپنے جسم پر اپنی جگہ پر رکھ دیا اس نے آپ کو کاٹا تو آپ نے چیختے ہوئے کہا : مسنی الظر تو کہا گیا : کیا تو ہم پر صبر کرتا ہے ؟ ابن عربی نے کہا : یہ بہت بعید قول ہے نیز اس کے لیے نقل صحیح کی بھی ضرورت ہے اور اس کے وجود کا کوئی راستہ نہیں۔ (8) کیڑے آپ کو کھاتے رہے تو آپ صبر کرتے رہے حتیٰ کہ ایک کیڑے نے دل پر حملہ کیا اور دوسرے نے زببان پر حملہ کیا تو آپ نے کہا : مسنی الضر تاکہ لوگوں کے ذکر سے محروم نہ ہو جائوں۔ ابن عربی نے کہا : یہ عمدہ قول ہے اگر اس کی سند ہو جبکہ دعویٰ لمبا چوڑا نہیں ہے۔ (9) اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوبب (علیہ السلام) کو مصیبت میں گرفتار کرنے کی جہت کو مخفی رکھا کیا یہ تادیب بھی یا تعذیب، یا تخصیص تھی یا تمحیص یا ذخر تھا یا طہر تھا۔ آپ نے عرض کی : مسنی الضر یعنی تکلیف میں مبتلا کرنے کی جہت میں اشکال کی تکلیف مراد ہے۔ اببن عربی نے کہا یہغلو ہے اس کی ضرورت نہیں۔ (10) حضرت ایوب (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ تم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرو۔ آپ نے کہا : میں ستر سال نعمتوں میں رہا اور سات سال مصیبت میں گرفتار رہا ہوں اس وقت اس وقت میں اس سے سوال کروں آپ نے اتنا عرض کیا : مسنی الضر اببن عربی نے کہا : یہ ممکن ہے لیکن آپ کی مدت اقامت کے بارے میں کوئی خبر صحیح نہیں ہے۔ اور نہ آپ کے واقعہ میں کوئی حدیث صحیح ہے۔ (11) آپ کی بیوی کو شیطان نے کہا : تو میرے لیے سجدہ کر تو اس قول نے آپ کو تکلیف پہنچائی۔ آپ کو اندیشہ ہوا کہ میری بیوی کا ایمان ضائع ہوجائے گا اور وہ ہلاک ہوجائے گی۔ اور آپ بغیر کسی کفیل کے رہ جائیں گے۔ (12) جب آپ پر آزمائش ظاہر ہوئی تو آپ کی قوم نے کہا : اس کا ہمارے ساتھ ہونا ہمیں تکلیف دیتا ہے پس اسے ہم سے دور کرنا چاہیے۔ آپ کی بیوی آپ کو شہر سے باہر نکال کرلے گئی لوگ جب آپ کو دیکھتے تو دیکھ کر بری فال پکڑتے پھر انہوں نے کہا : اسے اتنا دور ہونا چاہیے کہ ہم اسے دیکھ نہ سکیں۔ پھر آپ شہر سے باہر نکال کرلے گئی لوگ جب آپ کو دیکھتے تو دیکھ کر ببری فال پکڑتے پھر انہوں نے کہا : اسے اتنا دور ہونا چاہیے کہ ہم اسے دیکھ نہ سکیں۔ پھر آپ شہر سے ببہت دور چلے گئے۔ آپ کی بیوی آپ کی دیکھ ببھال کرتی اور آپ کی طرف کھانا لے جاتی۔ لوگوں نے کہا : یہ عورت اس کے پاس جاتی ہے پھر ہمارے پاس آتی ہے کہیں ایسا نہ ہو اس کے سبب اس کی تکلیف ہماری طرف لوٹ آئے۔ لوگوں نے بیوی کو حضرت ایوب (علیہ السلام) سے روکنے کا ارادہ کیا تو آپ نے کہا : مسنی الضر۔ (13) عبداللہ بن عبید بن عمیر نے کہا : حضرت ایوب کے دو بھائی تھے وہ آپ کے پاس آئے اور دور کھڑے ہوگئے آپ کی بدببو کی وجہ سے وہ آپ کے قریب نہیں آسکتے تھے ایک نے کہا : اگر اللہ تعالیٰ ایوب میں کوئی خیر دیکھتا تو اس تکلیف میں مبتلا نہ کرتا۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اس سے زیادہ تکلیف دہ کلمہ سنا اس وقت آپ نے عرض کی : مسنی الضر پھر آپ نے یہ دعا کی : اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے کبھی سیر ہو کر رات نہیں گذاری میں بھوکے کے مکان کو جانتا ہوں پس تو میری تصدیق فرما۔ آسمان سے ایک ندا دینے والے نے ندا دی میرے بندے نے سچ کہا۔ وہ دونوں بھائی سجدہ میں گر گئے۔ (14) مسنی الضر کا معنی ہے دشمن خوش ہو رہے ہیں، اسی وجہ سے آپ سے پوچھا گیا : تمہاری تکلیف میں کونسی چیز آپ پر شدید تھی ؟ فرمایا : دشمنوں کا خوش ہونا۔ ابن عربی نے کہا : یہ ممکن ہے کیونکہ کلیم سے ان کے بھائی نے اس وجہ سے عافیت کا سوال کیا تو آپ نے کہا : ان القوم استضعوفنی وکادوا یقتلوننی فلا تشمت بی الاعدآء (الاعراف :150) (15) آپ کی ببیوی کی مینڈھیاں تھیں جب وہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی خدمت کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرسکتی تھی تو اس نے اپنی مینڈھیاں سے سہارا لیتے تھے۔ جب انہیں نہ پایا اور حرکت کرنے کا ارادہ کیا تو حرکت نہ کرسکے اس وقت عرض کی : مسنی الضر بعض علماء نے کہا : جب آپ کی بیوی نے اپنی مینڈھیوں کے بدلے خوراک خریدی تو ابلیس لغتہ اللہ علیہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے پاس انسانی شکل میں آیا اور کہا تیری بیوی نے بدکاری کی ہے اور وہ پکڑی گئی ہے اور اس کے بال مونڈ دئیے گئے ہیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے قسم اٹھائی کہ وہ اسے کوڑے ماریں گے تو عورت کے دل پر محبت، حضرت ایوب کے دل پر محبت سے زیادہ سخت تھی۔ میں کہتا ہوں : (16) سولہواں قول وہ ہے جو ابن المبارک نے ذکر کیا ہے ہمیں یونس بن یزید نے بتایا انہوں نے عقیل سے اور انہوں نے ابن شہاب سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دن حضرت ایوب (علیہ السلام) اور ان کی آزمائش کا ذکر کیا اس میں ہے کہ ” آپ کا ایک بھائی آپ کے ساتھ لازم رہا اس نے کہا : اے اللہ کے نبی ! مجھے تیرے معاملہ نے تعجب میں ڈالا میں اس کا ذکر تیرے بھائی اور تیری ساتھی سے کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے اہل اور مال کے تلف کرنے اور جسم میں بیماری پیدا کرنے کے ساتھ اٹھارہ سال سے آزمایا ہے حتیٰ کہ تو اس کیفیت میں پہنچ گیا جو تو دیکھ رہا ہے کیا وہ تجھ پر حم نہیں کرتا کہ وہ تجھ سے تکلیف دور کر دے۔ تو نے کوئی ایسا گناہ کیا ہے جو میرے خیال کے مطابق کسی نے ایسا نہیں کیا۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے کہا : میں نہیں جانتا جو وہ کہتے ہیں مگر میرا رب جانتا ہے کہ میں دو آدمیوں کے پاس سے گزرتا ہوں وہ گمان کرتے ہیں اور ہر ایک اللہ کی قسم اٹھاتا ہے یا ایک جماعت سے گزرتا ہوں جو گمان کرتے ہیں پھر میں اپنے گھر والوں کی طرف لوٹتا ہوں پھر میں ان کی قسموں کا کفارہ دیتا ہوں اس ارادہ سے کہ کوئی گنہگار نہ ہو جو اس نے ذکر کیا ہے۔ اور کوئی اسے ذکر نہ کرے مگر حق کے ساتھ پس حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اپنے رب کو پکارا : مسنی الضر وانت ارحم الرحمین۔ آپ کی دعا بڑی طویل تھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا پیش کی اس تکلیف کی وجہ سے جو آپ کو پہنچی ہوئی تھی آپ اس تکلیف پر صبر کرنے واللے تھے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی تھی۔ (17) سترواں قول یہ ہے کہ جو میں نے سنا ہے اور میں اس پر واقف نہیں ہوں : ایک کیڑا آپ کے جسم سے گرا تو آپ نے اسے تللاش کیا تاکہ اسے اپنی جگہ لوٹا دیں تو وہ آپ کو نہ ملا آپ نے عرض کی : مسنی الضر جب آپ کو اس کیڑے کی تکلیف کو اجر نہ ملا آپ چاہتے تھے کہ عافیت کے وقت پورا اجر ملتا رہے۔ یہ عمدہ قول ہے مگر سند کا محتاج ہے۔ علماء نے فرمایا : مسنی الضر یہ بطور گھبراہٹ نہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شان میں فرمایا : انا وجدنہ صابراً (ص :44) ہم نے ایوبب کو صبر کرنے والا پایا بلکہ یہ آپ کی طرف سے یہ دعا تھی۔ الجزع وہ شکویٰ ہے جو مخلوق کی طرف ہو۔ اللہ کی بارگاہ میں عرض شکویٰ نہیں ہوتا۔ دعا، رضا کے منافی نہیں ہے۔ ثعلبی نے کہا : میں نے اپنے استاذ ابوالقاسم بن حبیب کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں سلطان کے دربار میں فقہاء اور ادباء کی مجلس میں حاضر تھا مجھ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا اس پر اجماع کے بعد کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کا قول شکایت تھا جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انا وجدنہ صابراً (ص : 44) ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا۔ میں نے کہا : یہ شکایت نہیں تھی یہ دعا تھی۔ اس کا بیان فاستجبنالہ ہے دعا کے بعدقبولیت ہوتی ہے نہ کہ شکایت کے بعد قبولیت ہوتی ہے۔ علمائء نے اس جواب کو اچھا سمھا اور اس سے خوش ہوئے۔ جنید سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : سوال کے فاقہ کا اظہار کیا تھا تاکہ اس پر نوال ل کے کرم کے ساتھ احسان کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فکشفنا مابہ من ضرواتینہ اھلہ ومثلھم معھم مجاہد اور عکرمہ نے کہا : حضرت ایوب (علیہ السلام) سے کہا گیا ہم نے تجھے جنت میں تیرے اہل عطا کیے اگر تو چاہے تو ہم تیرے لیے انہیں جنت میں رہنے دیں اور اگر تو چاہے تو ہم انہیں دنیا میں تجھے عطا کردیں۔ مجاہد نے کہا : اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت ایوب کے لیے جنت میں چھوڑ دیا اور دنیا میں ان کی مثل انہیں عطا فرمائے۔ نحاس نے کہا : ان دونوں سے اس کی سند صحیح ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ مہدوی نے حضرت ابن عباس ؓ سے حکایت کیا ہے۔ ضحاک نے کہا : حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا حضرت ایوب (علیہ السلام) کے اہل، بیوی کے سوا سب فوت ہوگئے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آنکھ جھپکنے سے کم وقت میں انہیں زندہ کردیا اور ان کی مثل ان کے ساتھ عطا فرمائے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ آپ کے بیٹے فوت ہوگئے تھے پس آپ کی خاطر انہیں زندہ کیا گیا اور ان کی مثل ان کے ساتھ اور پیدا ہوئے ؛ یہ قتادہ، کعب احبار اور کلبی وغیرہم کا قول ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : آپ کی اولاد فوت ہوگئی اور وہ سات مرد تھے اور سات عورتیں تھیں۔ جب آپ کو صحت دی گئی تو وہ آپ کے لیے اٹھائے گئے اور آپ کی بیوی نے سات بیٹے اور سات بیٹیاں جنم دیں۔ ثعلبی نے کہا : یہ قول ظاہر آیت کے زیادہ مناسب ہے۔ میں کہتا ہوں : وہ بطور آزمائش اپنی مدت عمر سے پہلے فوت ہوگئے تھے جیسا کہ سورة بقرہ میں الذین خرجوا من دیارھم الخ، (البقرہ :243) کے واقعہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔ اور وہ ستر افراد جن کو کڑک نے آلیا تھا اور وہ مر گئے تھے پھر وہ زندہ کیے گئے یہ اس لیے ہوا کہ وہ اپنی مدت عمر سے پہلے فوت ہوگئے تھے۔ یہاں بھی اسی طرح ہوا۔ مجاہد اور عکرمہ کے قول پر معنی یہ ہوگا ہم نے اسے اجرت میں اس کے اہل عطا فرمائے اور دنیا میں ان کی مثل ان کے ساتھ۔ اور خبر میں ہے اللہ تعالیٰ نے جبریل امین کو آپ کی طرف بھیجا جب آپ نے زمین پر پائوں مارا تھا اور گرم پانی کا چشمہ ظاہر ہوا تھا حضرت جبریل نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور اسے جھاڑا تو آپ کے کیڑے سارے گر گئے۔ اور آپ پانی میں داخل ہوئے تو گوشت پیدا ہوگیا اور آپ اپنی جگہ پر لوٹ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے اہل اور ان کی مثل ان کے ساتھ اور عطا فرما دئیے۔ اور ایک بادل آپ کے گھر کی بنیادوں کی مقدار ظاہر ہوا اور وہ تین دن اور تین راتیں سونے کی مکڑیاں برساتا رہا۔ حضرت جبریل نے آپ کو کہا : کیا آپ سیر ہوگئے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کے فضل سے کون سیر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ میں نے آزمائش سے پہلے اور آزمائش کے بعد تیری صبر کے ساتھ تعریف کی ہے اگر میں نے خود تیرے ہر بال کے نیچے صبر نہ رکھا ہوتا تو تو صبر نہ کرتا۔ رحمۃ من عندنا یہ سب کچھ ہم نے اپنی رحمت کی بنا پر کیا۔ بعض علماء نے فرمایا : ہم نے اسے آزمایا تاکہ کل اس کا ثواب زیادہ ہو۔ وذکری للعبدین۔ عبادت گزاروں کے لیے نصیحت ہے کیونکہ جب وہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی آزمائش اس پر ان کا صبر اور محنت کو یاد کریں گے جبکہ وہ اپنے زمانہ کے سب لوگوں سے افضل تھے تو وہ بھی دنیا کی تکالیف پر اپنے نفسوں کو صبر کا عادی بنائیں گے جیسا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے کیا تھا۔ پس یہ ان کے لیے ہمیشہ عببادت کرنے اور تکلیف برداشت کرنے پر تنبیہ ہے اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کتنی مدت آزمائش میں رہے اس میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : آزمائش کی مدت سات سال اور سات مہینے اور سات دن اور سات راتیں تھیں۔ وہب نے کہا : تیس سال تھی۔ حسن نے کہا : سات سال اور چھ مہینے تھی۔ میں کہتا ہوں : ان میں سے اصح اٹھارہ سال ہے۔ ابن شہاب نے نبی کریم ﷺ سے یہ روایت کیا ہے اور ابن المبارک نے اس کو ذکر کیا ہے۔
Top