Taiseer-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 83
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
وَ : اور اَيُّوْبَ : ایوب اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗٓ : اپنا رب اَنِّىْ : کہ میں مَسَّنِيَ : مجھے پہنچی ہے الضُّرُّ : تکلیف وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ : سب سے بڑا رحم کرنیوالا الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
اور یہی نعمت ہم نے ایوب کو بھی دی تھی جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا : مجھے بیماری لگ گئی 73 ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے
73 حضرت ایوب کس دور میں مبعوث ہوئے ؟ یا کس علاقہ میں مبعوث ہوئے ؟ آپ نے تبلیغ کا فریضہ کتنا عرصہ سرانجام دیا ؟ اور آپ کے ساتھ آپ کی قوم نے کیا سلوک کیا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کی تفصیل کتاب و سنت میں مذکور ہیں۔ قیاس سے آپ کے دور نبوت کی جو تعیین کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ حضرت یوسف اور حضرت شعیب کے درمیانی زمانہ میں یعنی تقریباً ہزار قبل مسیح مبعوث ہوئے تھے۔ کتاب و سنت نے حضرت ایوب کی جس خصوصیت سے ہمیں متعارف کرایا ہے۔ وہ آپ کا صبر ہے۔ آپ کا ابتدائی زمانہ نہایت خوشحالی کا دور تھا۔ مال کی سب اقسام : اولاد، بیویاں، جائیداد غرضیکہ سب کچھ واثر مقدار میں عطا ہوا تھا اور آپ کثرت اموال و اراضی میں مشہور تھے۔ اس دور میں آپ ہمیشہ اللہ کا شکر بجا لاتے رہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوسری طرح آزمانا چاہا اور آپ پر ابتلا کا دور جو آیا کہ ہر چیز ہاتھ سے نکل گئی۔ اور اپنا یہ حال تھا کہ کسی طویل بیماری میں مبتلا ہوگئے اور ایسے بیمار پڑے کہ ایک بیوی کے سوا سب نے ساتھ چھوڑ دیا۔ بلکہ لوگوں نے اپنی بستی سے باہر نکال دیا۔ اس ابتلاء کے طویل دور میں آپ نے صبر استقامت کا ایسا بےمثال مظاہرہ کیا جو ضرب المثل بن چکا ہے۔ صحیح روایات کے مطابق آپ کے ابتلاء کا دور 12 سال ہے۔ پھر جب اللہ سے اپنی بیماری کے لئے دعا کی تو اس دعا میں شکر و شکایت نام کو نہیں۔ بلکہ عرض بدعا نہیں، کسی چیز کا مطالبہ نہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی انتہائی صابر، قانع اور خوددار آدمی اپنے مالک کو کوئی بات یاد کرا رہا ہو۔ کہا تو صرف اتنا کہا کہ پروردگار ! میں طویل مدت سے بیمار ہوں اور تو ارحم الراحمین ہے۔
Top