Madarik-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 83
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
وَ : اور اَيُّوْبَ : ایوب اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗٓ : اپنا رب اَنِّىْ : کہ میں مَسَّنِيَ : مجھے پہنچی ہے الضُّرُّ : تکلیف وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ : سب سے بڑا رحم کرنیوالا الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
اور ایوب (کو یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایذا ہو رہی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے ولا ہے
واقعہ ایوب۔ : 83: وَاَیُّوْبَ (اور تم ایوب کا تذکرہ کرو) یہ اذکر فعل محذوف کا مفعول ہے۔ اِذْ نَادیٰ رَبَّہٗ ٓ اَنِّیْ (جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے) انہوں نے دعا کی کہ مجھے مَسَّنِیَ الضُّرُّ ۔ (تکلیف نے چھو لیا ہے۔ ) الضُر : جان میں مرض کے اثرات الضَرَّ : چیز میں تکلیف کے اثرات (نقصان مال و اولاد، بیماری وغیرہ) یا الضر بمعنی کمزوری۔ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ (اور آپ سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔ ) سوال میں نرمی کا ایسا انداز اختیار کیا جس سے رحمت الٰہی کو جوش آئے اور رب تعالیٰ کی صفت غایت رحمت سے یاد کیا اور اپنا مطلوب الفاظ میں ذکر نہ کیا۔ گویا اس طرح فرمایا آپ اس لائق ہیں کہ رحمت فرمائیں اور ایوب اس بات کا مستحق ہے کہ اس پر رحمت کا باب کھولدیا جائے پس آپ رحمت فرما دیجئے اور اس سے اس تکلیف کا ازالہ فرما دیں جس نے اس کو چھو لیا ہے۔ حضرت انس ؓ کا قول : آپ نے اپنے ضعف کی اس وقت خبر دی جب نماز کیلئے اٹھنے سے عاجز ہوئے۔ مگر شکوہ نہیں کیا وہ کیونکر شکوہ کرسکتا ہے جس کے متعلق اعلان الٰہی تھا۔ اِنَّ وجدناہ صابراً نعم العبد ] ص : 44 [ دوسرا قول انہوں نے شکوہ سرگوشی میں تلذذ کے طور پر کیا۔ اس کی طرف سے تضرر کے اظہار کیلئے نہیں کیا۔ اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت تو انتہائی قرب کی علامت ہے جیسا کہ اس کے متعلق شکوہ اور کسی اور سے شکایت انتہائی دوری کی علامت ہے۔
Top