Dure-Mansoor - Al-Anbiyaa : 89
وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ
وَزَكَرِيَّآ : اور زکریا اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗ : اپنا رب رَبِّ : اے میرے رب لَا تَذَرْنِيْ : نہ چھوڑ مجھے فَرْدًا : اکیلا وَّاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور زکریا کا تذکرہ کیجئے جب کہ انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ اے میرے رب مجھ تنہا نہ چھوڑیئے اور آپ سب وارثوں سے بہتر وارث ہیں۔
حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعاء : 1:۔ حاکم نے (حاکم نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ سے (آیت) ” واصلحنا لہ زوجہ “ کے بارے میں فرمایا کہ زکریا (علیہ السلام) کی بیوی کی زبان میں طول تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ٹھیک کردیا۔ 2:۔ عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، خرائطی نے مساوی الاخلاق میں اور ابن عساکر نے عطاء ابن ابی رباح (رح) سے (آیت) ” واصلحنا لہ زوجہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی کے اخلاق اچھے نہ تھے اور اس کی زبان دراز تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح فرمادی (یعنی اس کو ٹھیک کردیا) 3:۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن عساکر نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے (آیت) ” واصلحنا لہ زوجہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس کے اخلاق میں کوئی چیز تھی (یعنی وہ خوش اخلاق نہ تھی ) 4:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن عساکر نے سعید بن جبیر (رح) سے (آیت) ” واصلحنا لہ زوجہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ زکریا (علیہ السلام) کی بیوی بچے نہ جنتی تھی۔ 5:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” واصلحنا لہ زوجہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ بچہ نہ جنتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ٹھیک کردیا۔ 6:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” واصلحنا لہ زوجہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم نے اسی بیوی سے انکو ایک لڑکا عطا فرمایا۔ 7:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” واصلحنا لہ زوجہ “ کے بارے میں فرمایا کہ زکریا (علیہ السلام) کی بیوی بانجھ تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو بچہ پیدا کرنے والی بنادیا اور اس میں سے ان کو یحییٰ (علیہ السلام) عطا فرمایا اور (آیت) ” وکانوا لنا خشعین “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ (اللہ کے سامنے) عجز ونیاز کرنے والے تھے۔ 8:۔ ان جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے (آیت) ” ویدعوننا رغبا ورھبا “ میں رغبا سے مراد ہے طمع اور خوف سے ہم کو پکارا کرتے تھے طمع اور خوف میں سے ہر ایک کا دوسرے سے جدا ہونا مناسب نہیں۔ 9:۔ ابن مبارک نے حسن (رح) سے (آیت) ” ویدعوننا رغبا ورھبا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے دائمی خوف دل میں ہونا۔ اللہ تعالیٰ سے خوف وامید : 10:۔ عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویدعوننا رغبا ورھبا “ کے بارے میں فرمایا کہ ہمیشہ ان کا خوف ہوتا ہے اپنے رب سے اور اس کا خوف ان کے دلوں سے جدا نہ ہوتا اگر ان پر کوئی رغبت نازل ہوتی ہے تو وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ یہ کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے استدراج نہ ہو اگر کوئی خوف ان پر نازل ہوتا ہے تو وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے پکڑنے کا حکم نہ فرمایا ہو ان کے بعض سابقہ گناہوں کی وجہ سے۔ 11:۔ ابن مردویہ نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ویدعوننا رغبا ورھبا “ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا رھبا اس طرح سے ہے اور آپ نے اپنی ہتھیلیوں کو پھیلایا اشارہ کرتے ہوئے۔ 12:۔ ابن ابی شیبہ، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابونعیم نے حلیہ میں حاکم (حاکم نے تصحیح بھی کی ہے) اور بیہقی نے شعب الایمان میں عبداللہ بن حکیم (رح) سے روایت کیا کہ ابوبکر صدیق ؓ نے ہم کو خطبہ دیا اللہ کی حمد وثنا بیان فرمائی پھر فرمایا میں تم کو اللہ کے تقوی کی اور اس کی شان کے لائق اس کی تعریف کرنے کی وصیت کرتا ہوں اگر تم ملا لو امید کو خوف کے ساتھ (تو بہت اچھا ہے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زکریا (علیہ السلام) اور ان کے گھروالوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” انہم کانوا یسرعون فی الخیرات ویدعوننا رغبا ورھبا، وکانوا لنا خشعین “۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ عبد بن حمید ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وکانوا لنا خشعین “ سے مراد ہے تواضع اختیار کرنے والا۔ 14:۔ ابن ابی شیبہ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وکانوا لنا خشعین “ یعنی اللہ کے لئے عاجزی کرنے والے۔
Top