Dure-Mansoor - Faatir : 5
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١ؕ وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعطیم کرے حُرُمٰتِ اللّٰهِ : شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں) فَهُوَ : پس وہ خَيْرٌ : بہتر لَّهٗ : اس کے لیے عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کے رب کے نزدیک وَاُحِلَّتْ : اور حلال قرار دئیے گئے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاَنْعَامُ : مویشی اِلَّا : سوا مَا يُتْلٰى : جو پڑھ دئیے گئے عَلَيْكُمْ : تم پر۔ تم کو فَاجْتَنِبُوا : پس تم بچو الرِّجْسَ : گندگی مِنَ : سے الْاَوْثَانِ : بت (جمع) وَاجْتَنِبُوْا : اور بچو قَوْلَ : بات الزُّوْرِ : جھوٹی
یہ بات ہوچکی اور جو شخص اللہ کی حرمات کی تعظیم کرے گا تو یہ اس کے رب کے نزدیک اس کے لیے بہتر ہے اور تمہارے لیے چوپائے حلال کیے گئے سوائے ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنادئیے گئے ہیں سو تم گندگی سے یعنی بتوں سے بچو، اور جھوٹی بات سے بچو۔
1۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمدی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے آیت ذلک ومن یعظم حرمت اللہ، کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے حج اور عمرہ اور وہ تمام گناہ مراد ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا 2۔ عبد بن حمید نے عطاء اور عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ذلک ومن یعظم حرمت اللہ میں ” الحرمات “ سے مراد ہے۔ المشعر الحرام البیت الحرام، المسجد الحرام، اور البلد الحرام۔ مکہ مکرمہ کی تعظیم امت پر لازم ہے۔ 4۔ ابن ابی شیبہ وابن ماجہ وابن ابی حاتم نے عیاش بن ابی ربیعہ مخزومی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا یہ امت ہمیشہ خیر پر ہوگی جب کہ مکہ کی تعظیم کرتی رہے گی جب وہ لوگ اس تعظیم کو ضائع کردیں گے تو ہلاک ہوجائیں گے۔ 5۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے آیت ” فاجتنبوا الرجس من الاوثان “ کے بارے میں روایت کیا کہ تم بتوں کی عباد تمہیں شیطان کی اطاعت سے بچتے رہو۔ آیت ” واجتنبوا قول الزور یعنی اللہ پر اختراع باندھنے اور اللہ تعالیٰ کی تکذیب سے بھی بچتے رہو۔ 6۔ احمد والترمذی وابن جریر وابن المنذر وابن مردویہ نے ایمن بن خریم (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو ! جھوٹی گمراہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنے کے برابر ہے تین مرتبہ آپ نے اسی طرح فرمایا پھر یہ آیت فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور پڑھی۔ 7۔ احمد وعبد بن حمید وابن داوٗد وابن ماجہ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں خریم بن فاتک اسدی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر تین مرتبہ فرمایا جھوٹی گواہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی آیت واجتنبوا قول الزور حنفاء للہ غیر مشرکین بہ۔ 8۔ احمد والبخاری ومسلم اور ترمذی نے ابوبکر (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم کو سب سے بڑے نگاہ نہ بتاؤں ؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے۔ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا والدین کی نافرمانی کرنا اور آپ پہلے ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا خبردار ! (غور سے سنو) جھوٹ بولنا خبردار (غور سے سنو) اور جھوٹی گواہی دینا برابر آپ اس بات کو لوٹاتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کاش آپ خاموش ہوجاتے۔ 9۔ عبدالرزاق والفریابی و سعید بن منصور عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر والطبرانی والخرائطی نے مکارم الاخلاق میں اور بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے (پھر) یہ آیت پڑھی آیت فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور۔ 10۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت واجتنبوا قول الزور سے مراد ہے جھوٹ ہے۔ 11۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا آیت وجتنبوا قول الزور کہ سے مراد ہے بات کی ذریعہ شرک کرنا اور وہ اس طرح سے کہ وہ لوگ بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور اپنے تلبیہ میں یوں کہتے تھے، لبیک لا شریک لک لبیک الا شریکا ہو لک تملکہ وما ملک۔ (اے اللہ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں۔ مگر وہ شریک ہے جس کا تو مالک ہے اور تو اس کا بھی مالک ہے جس کا وہ مالک ہے۔ 12۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت حنفاء للہ غیر مشرکین بہ، سے مراد ہے اللہ کے لیے حج کرنے والا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانے والا اور یہ اس وجہ سے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ شرک کرتے ہوئے حج کرتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غالب کردیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا اب تم حج کرو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتے ہوئے۔ 3ٍ 1۔ ابن ابی حاتم نے ابوبکر صدیق ؓ سے روایت کیا کہ لوگ حج کرتے تھے حالانکہ وہ شرک کرنے والے تھے۔ ان لوگوں کو حنفاء الحجاج کہا جاتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری آیت حنفاء للہ غیر مشرکین بہ۔ 14۔ ابن ابی حاتم نے ابوبکر صدیق ؓ کے آزاد کردہ عبداللہ بن قاسم ؓ سے روایت کیا کہ مضر قبیلہ کے کچھ لوگ اور انکے علاوہ (دوسرے لوگ) بیت اللہ کا حج کرتے تھے حالانکہ وہ مشرک تھے اور مشرکین میں سے جو حج نہیں کرتے تھے تو وہ کہتے تھے۔ تم کہو حنفاء۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت حنفاء للہ غیر مشرکین بہ۔ یعنی حج کرو جبکہ تم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ 15۔ ابن المنذر نے سدی (رح) سے روایت کیا قرآن میں جہاں حنفاء آیا ہے اس سے مراد مسلمان ہیں اور یہاں حنفاء سے مراد حجاج ہیں۔ 16۔ عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” حنفاء “ مراد ہے حج کرنے والے ضحاک (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 17۔ عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” حنفاء “ سے مراد ہے تابعداری کرنے والے۔ 18۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے آیت ومن یشرک باللہ فکانما خر من السماء، کے بارے میں روایت کیا کہ یہ ایک مثال ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو بیان فرمایا اس مشرک کے لیے جو ہداتی سے بہت دور ہے اور ہلاکت میں ہے۔ 19۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” فی مکان سحیق “ سے مراد ہے دور۔
Top