Dure-Mansoor - Ash-Shu'araa : 214
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ
وَاَنْذِرْ : اور تم ڈراؤ عَشِيْرَتَكَ : اپنے رشتہ دار الْاَقْرَبِيْنَ : قریب ترین
اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈرائیے
1۔ احمد وعبد بن حمید والبخاری ومسلم والترمذی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ والبیہقی فی شعب الایمان وفی الدلائل ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے قریش کے عام وخاص کو بلایا اور فرمایا اے قریش کی جماعت اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ میں تمہارے لیے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں اے ابن کعب بن لؤی کی جماعت اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ میں تماہرے لیے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں اے بنو قصی کی جماعت اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ میں تمہارے لیے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ اے بنو عبدالمطلب اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ میں تمہارے لیے نفع اور نقصان کو مالک نہیں ہوں اے فاطمہ بنت محمد ﷺ اپنے آپ کو آگ سے بچا میں تیرے لیے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں خبردار بلاشبہ تم کو رشتہ داری حاصل ہے میں اس کو تر کرتا رہوں گا۔ اس کی تری کے ساتھ (یعنی جوڑتا رہوں گا) 2۔ احمد ومسلم والترمذی وابن جریر وابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے فاطمہ ! محمد ﷺ کی بیٹے اے صفیہ عبدالمطلب کی بیٹے اے عبدالمطلب کی اولاد میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مقابلہ میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں میرے مال میں سے مجھ سے سوال کرو جو تم چاہو۔ 3۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن مردویہ نے عروہ (رح) سے مرسلا اسی طرح روایت کیا۔ 4۔ مسدد وامسلم والنسائی وابن جریر والبغوی فی معجمہ والباوردی والطحاوی وابو عوانہ وابن قانع والطبرانی وابن ابی حاتم وابن مردویہ والبیہقی فی الدلائل قبیصہ بن مخارق اور زفیر بن عمرو (رح) دونوں سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ پہاڑ کی چوٹی پر تشریف لے گئے تو اس کے بلند پتھر پر ثرھے اور فرمایا اے بنو عبد مناف میں تم کو ڈرانے والا ہوں بلاشبہ میری اور تمہاری مثال اس آدمی جیسی ہے جس نے دشمن کو دیکھا اور جو گھر جانا چاہتا ہے تو اسے ڈرہوتا ہے دشمن اس کے گھروالوں تک اس سے پہلے پہنچ جائے گا تو وہ چیخنا شروع کردیتا ہے یا صباحاہ یاصباحاہ تم پر حملہ ہوگیا تم پر حملہ ہوگیا۔ 5 عبد بن حمید والترمذی وابن جریر وابن مردویہ نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں رکھا اور اپنی آواز کو بلند کرتے ہوئے فرمایا اے بنو عبد مناف۔ یا صباحاہ۔ (یعنی دشمن صبح کو آپہنچا) خاندان والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانا 6۔ ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ رو دئے پھر اپنے اہل و عیال کو جمع کرتے ہوئے فرمایا اے بنو عبدمناف ! اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ اے بنو عبدالمطلب اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ اے بنوہاشم اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ پھر فاطمہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے فرمایا اے فاطمہ محمد کی بیٹی اپنے آپ کو آگ سے بچا میں تم کو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی چیز کا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا سوائے اس کے کہ تم رشتہ داری حاصل ہے میں اس کو تر کرتا رہوں گا۔ اس کی تری کے ساتھ یعنی اس کو جوڑتا رہوں گا۔ 7۔ ابن مردویہ نے براء ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” وانذر عشیرتک الاقربگین “ نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ اور آواز دی یا صباحاہ وہ لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے ان کو ڈراتے ہوئے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں اے فاطمہ محمد کی بیٹی اپنے آپ کو آگ سے بچا میں تیرے لیے اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی چیز کا مالک نہیں ہو۔ 8۔ ابن مردویہ نے زبیر بن عوام ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ نازل ہوئی تو آپ نے ابو قبیس پہاڑ پر کھڑے ہو کر زور سے آواز دی اے آل عبد مناف بلاشبہ میں تم کو ڈرانے والا ہوں آپ کے پاس قریش جمع ہوگئے تو آپ ﷺ نے ان کو خبردار کیا اور ڈرایا۔ 9۔ ابن مردویہ نے عدی بن حاتم (رح) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے قریش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ سے مراد ہے میری قوم۔ 10۔ عبد بن حمید وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے قریش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ سے مراد ہے میری قوم۔ 10۔ عبد بن حمید وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ نازل ہوئی تو آپ نے ایک ایک قبیلہ کر کے دعوت دینا شروع کی۔ 11۔ سعید بن منذور والبخاری وابن مردویہ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ نازل ہوئی کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں یعنی ان میں سے مخلص لوگوں کو ڈرائیں نبی اکرم ﷺ نکلے یہاں تک کہ صفا پر چرھ کر آوا زلگائی یا صباحاہ لوگوں کہا یہ کون آواز دے رہا ہے دوسرے لوگوں نے کہا یہ محمد ﷺ ہیں تو وہ لوگ آپ کی طرف اکٹھے ہوگئے اگر کوئی آدمی نہ آسکا تو اس نے اپنا آدمی بھیج دیا تاکہ دیکھے وہ کیا بات ہے ابولہت اور قریش کے لوگ بھی آئے آپ نے فرمایا تم مجھ کو بتاؤ اگر میں تم کو خبردوں کہ ایک گھڑ سوار دستہ وادی میں رادہ کرتا ہے کہ تم پر حملہ کردے کیا تممیری تصدیق کرو گے انہوں نے کہا ہاں ہم نے تجھ پر سچ کا تجربہ کیا ہے پھر آپ نے فرمایا میں تم کو اپنے آگے سخت عذاب ڈراتا ہوں ابولہب نے کہا ہلاکت ہو تیرے لیے سارادن کیا تو نے اسی لیے ہم کو جمع کیا تھا اسی پر آیت ” تبت یدا ابی لہب وتب “ نازل ہوئی۔ 12۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے وانذر عشیرتک الاقربین “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ نبی اکرم ﷺ نے صفا پر آواز دی ان میں سے ایک ایک قبیلہ کا نام لے کر ان کو اللہ کی طرف بلایا اس بارے میں مشرکین نے کہا یقینی بات ہے کہ اس آدمی (یعنی محمد ﷺ نے چیخنے چلاتے ہوئے رات گذاری اور حسن ؓ نے فرمایا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے اپنے گھروالوں کو اپنی موت سے پہلے جمع فرمایا اور کہا خبردار میرا عمل میرے لیے اور تمہارا عمل تمہارے لیے ہے۔ خبردار ! میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تم کو کسی چیز کا فائدہ نہیں دے سکتا خبردار ! بلاشبہ میرے دوست تم میں سے متقی لوگ ہیں خبردار میں تم کو نہ جانوں کہ تم رشتہ داری پر دنیا اٹھائے ہوئے آؤ جبکہ لوگ آخرت لے کر آئیں اے صفیہ عبدالمطلب کی بیٹی اے فاطمہ محمد ﷺ کی بیٹی دونوں عمل کرتی رہو کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تمہارے ذرا بھی کام نہیں آؤں گا۔ قیامت کے روز نسب کام نہیں آئے گا 13۔ عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابنو ہاشم اور صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی، میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تمہارے ذرا بھی کام نہیں آؤں گا تم اس بات سے بچو کہ لوگ آخرت کو اٹھائے ہوئے آئیں اور تم دنیا کو اٹھائے ہوئے آؤ اور تم میرے حوض پر آؤ گے جو دائیں بائیں سخت ہے۔ تو تم میں سے ایک کہنے وال اک ہے گا یا رسول اللہ میں فلاں بن فلاں ہوں میں حسب کو پہچانوں گا اور وصف کا انکار کروں گا سو تم اس بات سے بچو کہ تم میں سے کوئی قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ وہ اپنی پیٹھ پر سرکش گھوڑے کو اٹھائے ہوئے ہو یا ایسا اونٹ اٹھائے ہوئے جو بلبلا رہا ہوگا یا ایسی بکری اٹھائے ہو جو منمنا رہی ہوگی یو جو چمڑے کو اٹھائے ہوئے ہو تو وہ مجھ سے دور کر دئیے جائیں گے اور مجھ سے کہا جائے کہ آپ نہیں جانتے ہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیا نئے کاموں کو نکالا اور اپنے نفس کو پاکیزہ رکھو اور بچو تم اس بات سے کہ میرے بعد تم الٹے پاؤں مڑ جاؤ یعنی کفر و شرک اختیار کرلو۔ عکرمہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو اس وقت فرمایا جب اللہ نے آپ پر یہ آیت اتاری آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “۔ 14۔ الطبرانی وابن مردویہ نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے بنو ہاشم کو جمع فرمایا اور ان کو گھر میں بٹھایا پھر ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے بنو ہاشم اپنی جانوں کو آگ سے بچاؤ اور اپنی گردنوں کے چھڑانے میں کوشش کرو اور اپنے آپ کو اللہ کی پکڑ سے بچاؤ کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تم کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ پھر آپ نے اپنے گھروالوں پر توجہ فرمائی اور فرمایا اے عائشہ ابوبکر کی بیٹی اے حفصہ عمر کی بیٹی، اے ام سلمہ اے فاطمہ محمد ﷺ کی بیٹی اے زبیر کی ماں رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی، اپنی جانوں کو اللہ کی پکڑ سے بچاؤ اور اپنی گردنوں کے چھڑانے میں کوشش کرو میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں نہ کسی چیز سے بچا سکتا ہوں اور نہ نفع دے سکتا ہوں عائشہ ؓ رونے لگیں اور عرض کیا کیا وہ دن ایسا ہوگا کہ آپ ہمارے ذرا بھی کام نہیں آئیں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں تین جگہوں میں میں کسی کے کام نہیں آؤں گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آیت ” ونضع الموازین القسط لیوم القیمۃ “ (الانبیاء آیت 47) اس وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذرا بھی کام نہیں آؤں گا اور میں مالک نہیں ہوں گا تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ بھی اور روشنی کے وقت اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں گے اس کے لیے اس کا نور پورا کردیں گے اور جس کو چاہیں گے اوندھے منہ اس کو اندھیروں میں گرادیں گے کہ اسے وہاں غم میں مبتلا رکھے تو میں تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں گا اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں اور نہ ہی اس کے مقابلہ میں تم کو کچھ فائدہ پہنچاؤں گا پل صراط سے گھبراتے وقت اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں گے اس کو سلامت رکھیں گے اور جس کو چاہیں گے اس کو پار کردیں گے اور جس کو چاہیں گے اس کو اوندھے منہ جہنم میں گرادیں گے۔ عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ ہم موازین کو جانتے ہیں کہ وہ دو پلڑے ہوں گے اس کے دائیں پلڑے پر کوئی چیز رکھی جاتی ہے تو اس میں ایک پلڑا بھاری ہوجاتا ہے اور دوسر ہلکا ہوجاتا ہے اور ہم نے روشنی اور اندھیرے کو پہچان لیا لیکن پل صراط کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ راستہ ہے جنت اور دوزخ کے درمیان اس پر سے لوگ گزریں گے اور یہ تلوار کی دھار جیسا ہوگ اور فرشتے اس کو گھیرے ہوئے ہوں گے دائیں اور بائیں ان کو آنکڑوں کے ساتھ اچک لیں گے اور وہ لوہے کے آنکڑے سعدان کے کانٹے جیسے ہوں گے اور وہ زبان سے کہہ رہے ہوں گے۔ اے میرے رب مجھے سلام رکھیے۔ مجھے سلامت رکھیے۔ آیت ” وافئدتہم ہواء “ (یعنی ان کے دل اڑے ہوں گے اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں گے سلامت رکھیں گے اور جس کو چاہیں گے الٹے منہ جہنم میں گرادیں گے۔ 15۔ ابن اسحاق وابن جریر وابن ابی حاتم وابن مردویہ وابو نعیم والبیقی فی الدلائل من طرق حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا اور فرمایا اے علی اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈڑاؤں تو میرے دل میں تنگی محسوس ہوتی میں پہچان گیا کہ جب بھی میں اس کا آغاز کروں گا تو ان کی طرف سے ایسا طرز عمل دیکھوں گا جو مجھے ناپسند ہوگا۔ علی ؓ اس حکم پر خاموش رہے یہاں تک کہ جبرئیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا اے محمد اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ کا رب آپ کو عذاب دے گا پھر فرمایا اے علی میرے لیے ایک صالح کھانا تیار کر اور اس پر ایک بکری کی ٹانگ بھون کر رکھ دے اور ہمارے لیے دودھ کے ایک بڑے پیالے کا انتظام کر میرے لیے جمع کرو بن عبدالمطلب کو یہاں تک کہ وہ اس کو کھالیں اور میں ان سے گفتگو کروں جس کا مجھے حکم دیا گیا ہے میں نے ایسا ہی کیا جو آپ نے مجھے حکم فرمایا پھر میں نے عبدالمطلب کو دعوت دی ان دنوں وہ چالیس آدمی تھے ایک زائدیا ایک کم ان میں آپ کے چچا ابو طالب حمزہ اور عباس اور ابولہب بھی تھے۔ جب یہ لوگ آپ کی طرف اکٹھے ہوئے تو آپ نے مجھے کھانا لانے کو کہا جو میں نے ان کے لیے تیار کیا تھا میں اس کو لے آیا جب میں نے اس کو رکھا تو نبی ﷺ نے گوشت میں سے کچھ حصہ تناول فرمایا اور اس کو اپنے دانتوں مبارک کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کیا پھر اس کو ڈال دیا پیالے کے کناروں پر پھر ان سے فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ کھاؤ قوم نے کھایا یہاں تک کہ اسے اس وقت چھوڑا جب برتن میں ان کی انگلیوں کے نشانات دکھائی دے رہے تھے۔ اللہ کی قسم ایک آدمی اتنا کھا رہا تھا جو سب کے لیے رکھا گیا تھا فرمایا اے علی قوم کو پلاؤ تو میں ان کے پاس دودھ کے پیالے کو لایا انہوں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ سب سیراب ہوگئے اور اللہ کی قسم ان میں سے ہر ایک آدمی اسی طرح پیتا تھا جب نبی ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ ان سے بات کریں تو ابولہب نے بات کرنے میں جلدی کی اور کہا تم پر تمہارے ساتھی (یعنی محمد ﷺ نے جادو کردیا ہے تو قوم متفرق ہوگئی اور نبی ﷺ نے ان سے بات نہ کی جب اگلا دن آیا تو فرمایا اے علی جو تو نے بات سنی ہے اس کی طرف وہ مجھ سے سبقت لے گیا میری بات کرنے سے پہلے ہی قوم متفرق ہوگئی سو ہمارے لیے دوبارہ کھانا اور پینا تیار کرو جو تو نے گزشتہ کل تیار کیا تھا پھر ان کو میرے لیے جمع کرو میں نے ایسا ہی کیا پھر ان کو جمع کیا پھر آپ نے مجھ سے کھانا طلب فرمایا تو میں نے کھانا پیش کردیا اور میں نے ایسا ہی کیا جیسے کل کیا تھا انہوں نے کھایا اور پیا یہاں تک کہ سیراب ہوگئے یہاں تک کہ اٹھ کر جانے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا اے بنو عبدالمطلب اللہ کی قسم میں عربوں میں سے کسی ایسے آدمی کو نہیں جانتا جو اپنی قوم کے پاس ایسی چیز لایا ہو جو اس سے افضل ہو جو میں تمہارے پاس لایا ہوں بلاشبہ میں تمہارے پاس دنیا وآخرت کی خیر لایا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم کو اس کی طرف بلاؤں سو کون تم میں سے اس کام پر میری مدد کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا جبکہ میں سب سے کم عمر لڑکا تھا میں اس کام کے لیے حاضر ہوں۔ لوگ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ 16۔ ابن مردویہ نے براء بن عازب ؓ سے نے فرمایا کہ جب یہ آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے بنو عبدالمطلب کو جمع فرمایا اور وہ ان دنوں چالیس افراد تھے ان میں سے دس افراد دو سال کا بچھڑا کھاجاتے تھے اور دودھ کا بڑا پیالہ پیتے تھے حضرت علی ؓ نے ان کے لیے وہ کھانا تیار کیا پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کردی آپ نے اس میں سے ایک ٹکڑ لیا اور اس کو کھایا پھر اسے کھانے کے برتن کے کناروں پر رکھ دیا پھر فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ قریب ہوجاؤ قوم کے لوگ دس دس کی قطار میں کھانے کے قریب ہوگئے انہوں نے کھایا یہاں تک کہ سیر ہوگئے پھر آپ نے دودھ کو طلب فرمایا آپ نے ایک گھونٹ اس میں سے پیا پھر ان کو دیتے ہوئے فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ پیو انہوں نے پیا یہاں تک کہ سب سیراب ہوگئے ان کے آخر سے (یعنی سب نے پیٹ بھر کر پی لیا) ایک آدمی نے ان کی باتوں کو کاٹتے ہوئے کہا کہ اس آدمی کی طرح تم پر کسی نے جادو نہیں کیا نبی ﷺ اس دن بھی خاموش رہے اور کوئی بات نہیں کی۔ اگلے دن پھر آپ نے ان کو اسی قسم کے کھانے اور پینے پر دعوت دی پھر ان سے گفتگو کرنے میں جلدی کی اور فرمایا اے بنوا عبدالمطلب بلاشبہ میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے تمہارے لیے نذیر اور بشیر بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میں تمہارے پاس وہ چیز لایا ہوں کہ اس جیسی چیز کوئی تمہارے پاس نہیں لایا میں تمہارے پاس دنیا اور آخرت کی خیر کو لایا ہوں تم اسلام لے آؤ سلامت ہوجاؤ گے اور تم اطاعت کرو تو ہدایت پاجاؤ گے۔ 17۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کی کہ آیت ” وانذری عشیرت الاقربین “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حکم فرمایا کہ اپنی قوم کو ڈرائیے اور اپنے اہل و عیال اور اپنے خاندان سے اس کام کلو شروع کیجیے اور ابن عباس ؓ نے یہ آیت پڑھی آیت ” وکذب بہ قومک وہو الحق “ (یعنی اس کو تیری قوم نے جھٹلایا حالانکہ وہ سچا ہے) (الانعام آیت 66) 18۔ ابن جریر نے عمرو بن مرہ (رح) سے روایت ہے کہ وہ اس آیت کو یوں پڑھتے تھے آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین ورھطک منہم المخلصین “۔ 19۔ ابن مردویہ وابن عساکر والدیلمی عبدالواحد الدمشقی (رح) نے بیان فرمایا کہ میں نے ابو درداء ؓ کو دیکھا کہ وہ لوگوں کو حدیث پڑھاتے تھے اور ان کو فتوی دیا کرتے تھے اور ان کی اولاد اور ان کے گھر والے گھر کی ایک جانب میں بیٹھتے ہوئے آپس میں باتیں کرتے رہتے تھے ان سے کہا گیا اے ابودرداء ؓ ! کیا وجہ ہے کہ لوگ اس میں علم بھی رغبت کررہے ہیں جو آپ کے پاس ہے اور آپ کے گھروالے غافل بیٹھے ہوئے ہیں تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انبیاء کے متعلق لوگوں میں سب دور رہنے والے اور ان پر زیادہ سختی کرنے والے اس کے قریبی رشتہ دار ہوں گے۔ اس لیے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا آیت ” وانذر عشیرتک الاقربین “ آیت کے آخرتک پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عالم کے بارے میں لوگوں میں سب سے زیادہ الگ رہنے والے اس کے گھروالے ہوں گے یہاں تک کہ وہ ان سے جدا ہوجاتا ہے اور وہ عالم اپنے اہل و عیال اور پڑوسی کے حق میں سفارش کرتا ہے۔ جب وہ فوت ہوجاتا ہے تو ایسے لوگوں سے الگ ہوجاتا ہے جو سرکش شیاطین ہوتے ہیں جن کی تعداد ربیعہ اور مضر قبیلوں کی تعداد سے زیادہ ہوتی ہے وہ اس کے بارے میں ہی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ سو ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے کثرت کے ساتھ پناہ مانگا کرو۔ 20۔ ابن عساکر نے محمد بن جحادہ (رح) سے روایت کیا کہ کعب ؓ ابو مسلم خولانی سے ملے اور کہا کہ تجھے کیسے بزرگی ملی اپنی قوم پر تو کعب نے فرمایا میں ان پر معزز ہوں ابو مسلم نے کہا میں تورات میں اس کے علاوہ بات دیکھی جو آپ فرماتے ہیں پوچھا وہ کیا ہے کہا کہ میں نے تورات میں پایا کہ کسی قوم میں کوئی حکیم یعنی دانا نہیں ہوتا مگر اس کی اس سے اعراض کرتی ہے پھر اس سے زیادہ قریبی رشتہ دار اور پھر اس سے زیادہ قریبی رشتہ دار عراض کرتے ہیں اور اس کے حسب نسب میں کوئی کمزوری ہو تو اس کو عار دلاتے ہیں اور اگر اس نے کسی وقت میں کوئی گناہ کیا ہوگا تو اس سکو اس کے ذریعہ عار دلاتے ہیں۔ 21۔ البیہقی فی الدلائل کعب ؓ سے روایت کیا کہ کہ انہوں نے ابو مسلم (رح) سے کہا تو اپنی قوم کو اپنے لیے کیسے پاتا ہے ابو مسلم نے کہا وہ میری عزت کرتے ہیں اور میری اطات کرتے ہیں اور کہا کہ تورات اس بارے میں میری تصدیق نہیں کرتی کیونکہ قوم میں کوئی دانا نہیں ہوتا مگر اس پر وہ لوگ بغاوت کرتے ہیں اور اس پر حسد کرتے ہیں۔
Top