Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 214
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ
وَاَنْذِرْ : اور تم ڈراؤ عَشِيْرَتَكَ : اپنے رشتہ دار الْاَقْرَبِيْنَ : قریب ترین
اور اپنے قریبی خاندان والوں کو ڈرائو
یعنی اس عذاب سے جس کی خبر دی جا رہی ہے، اپنے اہل خاندان کو ہوشیار کردو۔ یہ تمہارے عزیز و اقارب ہیں اس وجہ سے تمہاری خیر خواہی کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ یہ امر یہاں محلوظ رہے کہ آنحضرت ﷺ کا قریبی خاندان ہی تھا جس کو بیت اللہ کی تولیت اور اہل عرب کی دینی و سیاسی پیشوائی کا منصب حاصل تھا اس وج ہ سے قرابت اور سیاست دونوں کا تقاضا یہ تھا کہ آپ ان کو آنے والے خطرے سے آگاہ کردیں۔ اگر وہ اصلاح قبول کرلیتے تو دوسروں کی اصلاح کا معاملہ بہت آسان ہوجاتا اسی وجہ سے حضرات انبیاء (علیہم السلام) کی ہمیشہ یہ سنت رہی ہے کہ انہوں نے اپنے زمانہ کے قائدین کو انذار کیا ہے۔ عوام کی طرف اس وقت توجہ فرمائی ہے جب قائدین نے اپنے رویہ سے مایوس کردیا ہے۔ سیدنا مسیح ؑ نے پہلے سارا زور یہود کے علماء پر صرف فرمایا لیکن جب وہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئیتو انہوں نے عوام کی طرف توجہ فرمائی۔ اسی پہلو سے یہاں آنحضرت ﷺ کو آپ ﷺ کے عشیرہ اقربین کے انذار کی ہدیات ہوئی کہ قرابت کا حق بھی ادا ہوجائے اور اگر وہ اصلاح قبول کرلیں تو آگے کے لئے دعوت کی راہ بھی صاف ہوجائے۔
Top