Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 214
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ
وَاَنْذِرْ : اور تم ڈراؤ عَشِيْرَتَكَ : اپنے رشتہ دار الْاَقْرَبِيْنَ : قریب ترین
اور اپنے قریبی خاندان والوں کو ڈرائو
وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَـکَ الْاَقْرَبِیْنَ ۔ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ (الشعرآء : 214، 215) (اور اپنے قریبی خاندان والوں کو ڈرائو۔ اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ آپ کی پیروی اختیار کریں ان کے لیے اپنی شفقت کے بازو جھکائے رکھیں۔ ) قریبی خاندان کو انذار کا حکم کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں سب برابر ہیں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور وحدانیت کی عظمت و اہمیت کی وجہ سے اس سے پہلی آیت میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، یہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کیخلاف بغاوت ہے جس کا ارتکاب کوئی بڑی سے بڑی شخصیت بھی کرے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ نہیں سکتی۔ اب پیش نظر آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کی صورت میں جو عذاب آسکتا ہے اور جس سے کسی کو بھی مفر نہیں اس سے اپنے قریبی خاندان والوں کو بھی خبردار کرو، کیونکہ اگر شرک کی سزا سے اللہ تعالیٰ کے رسول کو بالا نہیں رکھا گیا تو اور کوئی شخص کیسے بچ سکتا ہے چاہے خود وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے قریبی خاندان ہی سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو۔ اس کے قانون میں کسی کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ گمراہی اور بدعملی پر خدا کے عذاب کا خوف سب کے لیے یکساں ہے۔ اس کی بارگاہ میں عقیدہ و عمل کے اعتبار سے سب برابر ہیں۔ جزا اور سزا میرٹ پر ہوگی، نسب اور نسبت پر نہیں ہوگی۔ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے اپنے دادا کی اولاد کو ایک دعوت پر جمع کیا اور ایک ایک کو نام لے لے کر کہا، کہ ” اے بنی عبدالمطلب، اے عباس، اے صفیہ، اے فاطمہ محمد ﷺ کی بیٹی، تم لوگ آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرلو، میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے تم کو نہیں بچا سکتا۔ البتہ میرے مال میں سے تم لوگ جو کچھ چاہو مانگ سکتے ہو۔ “ پھر ایک مناسب وقفے کے بعد آپ ﷺ نے صفا پہاڑی کے سب سے اونچے مقام پر کھڑے ہو کر پکارا، یا صباحاہ (ہائے صبح کا خطرہ) ، اے قریش کے لوگو، اے بنی کعب بن لؤی، اے بنی مُرہ، اے آل قصَی، اے بنی عبدمناف، اے بنی عبدشمس، اے بنی ہاشم، اے آل عبدالمطلب، اس طرح قریش کے ایک ایک قبیلے اور خاندان کا نام لے لے کر آپ ﷺ نے آواز دی۔ عرب میں قاعدہ تھا کہ جب صبح تڑکے کسی اچانک حملے کا خطرہ ہوتا تو جس شخص کو بھی اس کا پتہ چل جاتا، وہ اسی طرح پکارنا شروع کردیتا اور لوگ اس کی آواز سنتے ہی ہر طرف سے دوڑ پڑتے۔ چناچہ حضور ﷺ کی اس آواز پر سب لوگ گھروں سے نکل آئے اور جو خود نہ آسکا اس نے اپنی طرف سے کسی کو خبر لانے کے لیے بھیج دیا۔ جب سب لوگ جمع ہوگئے تو بقول مسدس حالی : یہ فرمایا سب سے کہ اے آل غالب سمجھتے ہو تم مجھ کو صادق کہ کاذب کہا سب نے قول آج تک کوئی تیرا کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا کہا گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا تو باور کرو گے اگر میں کہوں گا کہ میں خدا کے سخت عذاب آنے سے پہلے تم کو خبردار کرتا ہوں، اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سے بچانے کی فکر کرو، میں خدا کے مقابلے میں تمہارے کسی کام نہیں آسکتا، قیامت میں میرے رشتہ دار صرف متقی ہوں گے، ایسا نہ ہو کہ دوسرے لوگ نیک اعمال لے کر آئیں اور تم لوگ دنیا کا وبال سر پر اٹھائے ہوئے آئو۔ اس وقت تم پکارو گے یامحمد ﷺ مگر میں مجبور ہوں گا کہ تمہاری طرف سے منہ پھیر لوں، البتہ دنیا میں میرا اور تمہارا خون کا رشتہ ہے اور یہاں میں تمہارے ساتھ ہر طرح کی صلہ رحمی کروں گا۔ اس مضمون کی متعدد روایات احادیث کی تمام معتبر کتابوں میں موجود ہیں اور جلیل القدر صحابہ نے انھیں روایت کیا ہے۔ قریبی عزیزوں کو انذار کرنے کے حکم کی وجہ ایک اور بھی تھی، وہ یہ کہ تمام انبیاء۔ کی یہ سنت رہی ہے کہ انھوں نے اپنے زمانہ کے قائدین کو انذار کیا ہے۔ عوام کی طرف اس وقت توجہ فرمائی جب قائدین نے اپنے رویئے سے مایوس کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اسی طریقے پر اپنے قریبی خاندان کو سب سے پہلے دعوت دی۔ کیونکہ وہ بیت اللہ کی تولیت اور اہل عرب کی دینی و سیاسی قیادت کا منصب اپنے پاس رکھتے تھے۔ چناچہ قرابت اور سیاست دونوں کا تقاضا یہ تھا کہ آپ ﷺ ان کو آنے والے خطرے سے آگاہ کریں۔ اگر وہ اصلاح قبول کرلیتے تو دوسروں کی اصلاح کا معاملہ بہت آسان ہوجاتا۔ لیکن حقیقی قدر و قیمت بہرحال اللہ تعالیٰ اور رسول کی نگاہ میں ان لوگوں کی تھی جو اللہ تعالیٰ کے رسول کی دعوت کو قبول کرتے تھے۔ اس لیے بطورخاص ان کے بارے میں ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ آپ ﷺ کی پیروی کریں ان کے لیے اپنی شفقت کے بازو جھکائے رکھیں، یعنی جس طرح کسی خطرے کو محسوس کرکے مرغی اپنے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپائے رکھتی ہے، اسی طرح آپ ﷺ ان لوگوں کو اپنی شفقت کے بازوئوں کے نیچے چھپائے رکھیں اور مسلسل ان کی ایسی تربیت کریں کہ کوئی غفلت کے سبب سے اس عذاب کی زد میں نہ آجائے جس کی مسلسل خبر دی جارہی ہے۔
Top