Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 214
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ
وَاَنْذِرْ : اور تم ڈراؤ عَشِيْرَتَكَ : اپنے رشتہ دار الْاَقْرَبِيْنَ : قریب ترین
اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سناو
( وانذر عشیرتک الا قربین۔۔۔۔۔ ) وانذر عشیرتک الا قربین اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1 :۔ ڈرانے میں قریبی رشتہ داروں کو خاص کیا ہے تاکہ قبیلہ اور اجنبی لوگوں کی طمع ختم ہوجائے جب ان کے شرک پر رہتے ہوئے آپ انہیں چھوڑ جائیں۔ قربی عشیرہ سے مراد قریش ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ مراد بنو عبد مناف ہیں۔ صحیح مسلم میں حدیث واقع ہے ” اپنے قریبی رشتہ داروں اور مخلص ساتھیوں کو ڈرائیں “ (1) اس کا ظاہر یہ ہے کہ یہ قرآن تھا جو تلاوت کیا جاتا تھا پھر اسے منسوخ کردیا گیا کیونکہ مصحف میں نقل ثابت نہیں اور نہ ہی یہ تواتر سے ثابت ہے اس کے ثبوت پر اشکال لازم آتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ پر لازم آتا ہے کہ آپ کسی کو نہ ڈرائیں مگر جو آپ کے عشیرہ میں سے ایمان لائے، کیونکہ مومن ہی وہ لوگ ہیں جو اسلام اور نبی کریم ﷺ کی محبت میں اخلاص کی صفت سے متصف ہیں نہ کہ مشرک اس سے متصف ہیں کیونکہ مشرک ان میں سے کسی چیز پہ نہیں ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے تمام عشیرہ کو دعوت دی وہ مومن تھا یا کافر تھا۔ آپ نے سب کو ڈرایا اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے ان کو ڈرایا اور جو ان کے بعد آئیں گے ان کو ڈرایا۔ نہ یہ نقلا ثابت ہے اور نہ ہی معنی ثابت ہے۔ 1 ؎۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان ان من مات علی الکفر فھو فی النار ولا تنالہ شفاعۃ ولا تنفعہ قرابۃ البقربین، جلد 1، صفحہ 114، قدیمی کتب خانہ امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث روایت کی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی وانذر عشیرتک الا قربین رسول اللہ ﷺ نے قریش کی دعوت دی وہ سب عام و خاص جمع ہوگئے۔ فرمایا :” اے بنی کعب بن لوی ! اپنے آپ کو آگ سے بچائو (1) ۔ اے بنی ہاشم ! اپنے آپ کو آگ کے عذاب سے بچائو۔ اے بنی عبد المطلب ! اپنے آپ کو آگ کے عذاب سے بچائو۔ اے فاطمہ ! اپنے نفس کو آگ سے بچائو۔ میں تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں سوائے اس کے کہ تمہارے ساتھ رشتہ داری ہے دنیا میں تمہاری ساتھ صلہ رحمی کروں گا اور آخرت میں تمہیں کوئی نفع نہ دوں گا “۔ مسئلہ نمبر 2 :۔ اس حدیث اور آیت میں دلیل ہے کہ اسباب میں بعد ہوتے ہوئے انساب کا قرب بندے کو نفع نہ دے گا۔ اس امر کے جواز پر دلیل ہے کہ مومن کافر کے ساتھ صلہ رحمی کرسکتا ہے اس کی رہنمائی کرسکتا ہے اور اخلاص کا مظاہرہ کرسکتا ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ان لکم رحما سابلھا ببلا لھا تمہارے ساتھ رشتہ داری ہے میں دنیا میں تمہارے ساتھ صلہ رحمی کرتا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” لا ینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلر کم فی الدین “ ( المتحنہ : 8) جس کی وضاحت آگے آئے گی۔ واحفض جناحک لمن اتبعک من المومنین سورة حجر اور سورة اسراء میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ خفض جناحہ اس وقت کہا جاتا ہے جب وہ نرمی کرے۔ فان عصوک تیرے امر کی مخالفت کریں۔ فقل انی بری مما تعملون تم جو میری نافرمانی کرتے ہو۔ میں اس سے بری ہوں کیونکہ ان کی رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ کسی امر کا حکم نہیں دیتے مگر اسی امر کا جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔ جس سے رسول اللہ ﷺ برأت کا اظہار کردیں اللہ تعالیٰ اسی سے برأت کا اظہار کردیتا ہے۔ وتوکل علی العزیز الرحیم اپنے امر کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں، کیونکہ وہی غالب ہے اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ وہ رحیم ہے وہ اپنے دوستوں کو بےیارو مددگار نہیں چھوڑتا۔ عام قرأت و توکل وائو کے ساتھ ہے اسی طرح ان کے مصاحف میں ہے۔ نافع اور ابن عامر نے فتوکل فاء کے ساتھ پڑھا ہے (2) اسی طرح مدینہ اور شام کے مصاحف میں ہے۔ الذی یرلک حین تقوم اکثر مفسرین کے قول کے مطابق : جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو : حضرت ابن عباس اور دوسرے علماء کا یہی قول ہے۔ مجاہد نے کہا : جہاں کہیں ہوں، تو جب کھڑے ہوں (3) وتقلبک فی السجدین مجاہد اور قتادہ نے کہا : الساجدین سے مراد نمازیوں میں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : آباء کی پشتوں میں۔ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) ، حضرت نوح (علیہ السلام) ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہاں تک کہ آپ کو نبی کی حیثیت سے نکالا۔ عکرمہ نے کہا : آپ کو قیام کرتے ہوئے رکوع کرتے 1 ؎۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان ان من مات علی الکفر فھول النار ولا تنالہ شفاعۃ ولا تنفعہ قرابۃ المقربین ولد 1، صفحہ 114، قدیمی کتب خانہ۔ 2 ؎۔ المحرر الوجیز جلد 4، صفحہ 245 3 ؎۔ ایضاً جلد 4، صفحہ 246 ہوئے اور سجدہ کرتے ہوئے دیکھتا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ قول بھی کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے آپ نماز میں اپنے دل سے اپنے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو دیکھتے ہیں جس طرح آپ اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے والے لوگوں کو دیکھتے ہیں۔ مجاہد سے مروی ہے ماوردی اور ثعلبی نے اسے ذکر کیا ہے نبی کریم ﷺ اپنے پیچھے والے لوگوں کو اسی طرح دیکھتے تھے جس طرح اپنے سامنے والوں کو دیکھا کرتے تھے۔ یہ صحیح میں ثابت ہے۔ آیت کی یہ تاویل بعید ہے : انہ ھو السمیع العلیم اس کے بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔
Top