Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 133
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ١۫ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ
فَاَرْسَلْنَا : پھر ہم نے بھیجے عَلَيْهِمُ : ان پر الطُّوْفَانَ : طوفان وَالْجَرَادَ : اور ٹڈی وَالْقُمَّلَ : اور جوئیں۔ چچڑی وَالضَّفَادِعَ : اور مینڈک وَالدَّمَ : اور خون اٰيٰتٍ : نشانیاں مُّفَصَّلٰتٍ : جدا جدا فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : ایک قوم (لوگ) مُّجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
سو ہم نے اب پر طوفان بھیج دیا اور ٹڈیاں اور گھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون، یہ نشانیاں تھیں کھلی ہوئی۔ سو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے
(1) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ طوفان سے مراد ہے موت۔ (2) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابو الشیخ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ ” الطوفان “ سے موت مراد ہے۔ (3) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” الطوفان “ سے مراد ہے ہر حال میں موت۔ (4) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” الطوفان “ سے مراد ہے ان کو غرق کرنا۔ (5) امام ابن حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” الطوفان “ سے مراد ہے کہ آٹھ دن تک دن اور رات برابر بارش ہوتی رہی۔ اور ” القمل “ سے مراد ہے ایسی ٹڈی جس کے پر نہ ہوں۔ (6) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” الطوفان “ سے مراد ہے کہ ایک حکم ہے تیرے رن کے حکموں میں سے پھر (یہ آیت پڑھی) ” فطاف علیہا طائف من ربک “ (القلم آیت 19) (پس چکر لگایا اس باغ پر ایک چکر لگانے والے نے آپ کے رب کی طرف سے) (7) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی قوم پر طوفان کو بھیجا اور وہ بارش کو ہٹا دے تو ہم تجھ پر ایمان لے آئیں گے اور تیرے لئے ہم بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے موسیٰ نے دعا فرمائی تو بارش ہٹ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سال میں ان کے لئے کھیتی اور گھاس اگائی جو اس سے پہلے نہیں اگی تھی کہ یہی بات ہے جس کی ہم آرزو کرتے تھے (اور ایمان نہ لائے) پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ٹڈی کو بھیجا اور ان پر مسلط کردیا۔ جب انہوں نے اس کو دیکھا تو سمجھ گئے کہ کھیتی نہیں بچے گی انہوں نے پھر اسی طرح کہا (کہ ہمارے لئے دعا کیجئے ہم سے یہ ہٹ جائے تو ہم ایمان لائیں گے) موسیٰ نے اپنے رب سے دعا فرمائی تو ٹڈیاں ہٹ گئیں پھر انہوں نے غلے کو گاھا اور اس کو جمع کرلیا گھروں میں کہنے لگے ہم نے غلہ جمع کرلیا ہے۔ (اب ہمیں کوئی پرواہ نہیں) اللہ تعالیٰ نے ان پر جوئیں بھیج دیں وہ ایک گھن ہے جو غلہ میں سے نکلتا ہے ایک آدمی دس چمڑے کے تھیلے گیہوں سے بھر کرچکی کی طرف لے جاتا تھا اور اس میں سے تین فقیز (غلہ کا ایک پیمانہ) بھی (آٹا) نہیں واپس آتا تھا۔ پھر انہوں نے (موسیٰ کو) اسی طرح (دعا کے لئے) کہا (یہ عذاب) ان سے دور ہوگیا تو پھر انہوں نے بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ بھیجنے سے انکار کردیا۔ اس درمیان کہ موسیٰ فرعون کے پاس تھے اچانک انہوں نے نہر میں سے مینڈک کے ٹرانے کی آواز سنی موسیٰ نے فرمایا اے فرعون تو اور تیری قوم اس مینڈک سے مل چکے ہیں۔ اس نے کہا کیا وہ اس مینڈک کے قریب ہے ابھی شام نہیں ہوئی تھی یہاں تک کہ ہر آدمی اپنی ٹھوڑی تک مینڈکوں میں تھا ان میں جو آدمی بات کرتا تھا تو اس کے نہ میں مینڈک داخل ہوجاتا تھا۔ کوئی برتن ایسا نہیں تھا جو مینڈکوں سے بھرا ہوا نہ ہو۔ پھر انہوں نے اس طرح (دعا کے لئے) کہا تو ان سے یہ (عذاب) دور ہوا لیکن انہوں نے وعدہ پورا نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر خون کو بھیج دیا۔ ان کی نہریں خون (سے سرخ) ہوگئیں۔ ان کے کنوئیں بھی خون بن گئے۔ ان لوگوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی۔ اس نے کہا افسوس ہے تم پر تم جادو کئے گئے ہو۔ کہنے لگے ہم اپنے پانی میں سے کوئی چیز نہیں پاتے کسی برتن میں نہ کسی کنویں میں نہ کسی نہر میں مگر ہم پاتے ہیں اس میں تازہ خون کے ذائقہ کو۔ فرعون نے کہا اے موسیٰ ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہم سے خون کو دور کرے (دعا فرمائی) تو یہ عذاب ہٹ گیا مگر انہوں نے وعدہ پورا نہ کیا۔ فرعون کی قوم پر بارش کا عذاب (8) امام ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” فارسلنا علیہم الطوفان “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ بارش تھی یہاں تک کہ وہ ہلاکت کا خوف کرنے لگے۔ موسیٰ کے پاس آئے اور کہا اے موسیٰ اپنے رب سے ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ ہم سے اس بارش کو ہٹا دے تو ہم تجھ پر ایمان لائیں گے۔ اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دیں گے۔ انہوں نے اپنے رب سے دعا فرمائی تو ان سے بارش ہٹ گئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کی کھیتیوں کا اگایا اور ان کے شہروں کو سرسبز کردیا کہنے لگے ہم نہیں پسند کرتے کہ بارش نہ ہو اور ہم اپنے معبودوں کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے اور تجھ پر ایمان نہ لائیں گے۔ اور ہم ہرگز تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو نہ بھیجیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ٹڈی کو بھیج دیا تو اسنے ان کی کھیتیوں کو اور ان کے پھلوں کو بڑی تیزی سے خراب کرنا شروع کردیا۔ کہنے لگے : اے موسیٰ اپنے رب سے ہمارے لئے دعا کیجئے کہ ہم سے ٹڈی کو ہٹا دے ہم عنقریب تجھ پر ایمان لے آئیں گے۔ اور تیرے لئے بنی اسرائیل کو بھی بھیج دیں گے موسیٰ نے اپنے رب سے دعا فرمائی تو ان سے ٹڈی ہٹ گئی اور ان کی فصلوں اور دیگر حاجات زندگی میں سے کچھ باقی تگا۔ کہنے لگے ہمارے لئے اتنا (مال) بچ گیا ہے جو ہم کو کافی ہوگا ہم ہرگز تجھ پر ایمان نہیں لاتے اور ہم ہرگز تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو نہ بھیجیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر چیچڑی کو بھیج دیا وہ چیچڑی اس میں داخل ہوگئی جو ٹڈی نے چھوڑا تھا۔ اب گھبرائے اور ہلاکت سے ڈرے تو کہنے لگے اے موسیٰ اپنے رب سے ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ ہم سے اس چیچڑی کو دور کر دے۔ عنقریب ہم تیرے لئے ایمان لائیں گے۔ اور ہم تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھی بھیج دیں گے آپ نے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے نجات دی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر مینڈکوں کو بھی دیا۔ ان کے گھر اس سے بھر گئے اس سے ان کو شدید تکلیف پہنچی اس طرح کبھی ایسی تکلیف نہ پہنچی تھی ان کی ہانڈیوں میں مینڈک کود جاتے تھے اور ان کے کھانے کو خراب کردیتے تھے اور ان کی آگ کو بجھا دیتے تھے۔ کہنے لگے موسیٰ اپنے رب سے ہمارے لئے دعا کرو کہ ہم سے مینڈکوں کو دور کر دے ہم کو ان سے بہت تکلیف اور مصیبت پہنچتی ہے ہم عنقریب تجھ پر ایمان لائیں گے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھی بھیج دیں گے موسیٰ نے اپنے رب سے دعا فرمائی تو ان سے مینڈک دور ہوگئے۔ کہنے لگے ہم تجھ پر ایمان نہیں لائے نہ ہم تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیجتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر خون کو بھیج دیا وہ نہیں کھاتے تھے مگر خون کو۔ اور نہیں پیتے تھے مگر خون کو کہنے لگے اے موسیٰ اپنے رب سے ہمارے لئے دعا کرو کہ خون کو دور کر دے تو عنقریب تجھ پر ایمان لائیں گے اور تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھی بھیج دیں گے۔ موسیٰ نے اپنے رب سے دعا فرمائی تو ان سے خون (کا عذاب) دور ہوگیا کہنے لگے اے موسیٰ ہم تجھ پر ہرگز اہمان نہ لائیں گے اور ہم ہرگز تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو نہ بھیجیں گے۔ یہی واضح نشانیاں تھیں جو ایک دوسرے کے پیچھے ظاہر ہوئیں تاکہ اللہ کی جانب سے ان پر حجت مکمل ہوجائے اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑ لیا ان کے گناہوں کی وجہ سے اور ان کو دریا میں غرق کردیا۔ (9) امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فارسلنا علیہم الطوفان “ یعنی ہم نے ان پر پانی طاعون اور ٹڈی بھیجی فرمایا کہ ٹڈی دروازے کے کیلوں اور ان کے کپڑوں کو کھانے لگی۔ اور چیچڑی اور مینڈک جو ان کے بستروں ان کے کھانوں میں گرتے تھے اور خون ان کے کپڑوں میں ان کے پانی میں اور ان کے کھانے میں ظاہر ہوتا تھا۔ (10) امام ابو الشیخ نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ ٹڈی کو جب بنی اسرائیل پر مسلط کیا گیا تو اس نے ان کے دروازوں کو کھالیا یہاں تک کہ کیلیں بھی کھا ڈالیں۔ (11) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ٹڈی سمندر سے ایک مچھلی سے نکلتی ہے۔ (12) امام عقیلی نے کتاب الضعفاء میں اور ابو الشیخ نے عظمۃ میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ سے ٹڈی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مریم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے ایسا گوشت کھانے کا سوال کیا تھا جس میں خون نہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ٹڈی کھلائی۔ (13) امام طبرانی اور بیہقی نے سنن میں ابو امامہ باھلی ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا مریم بنت عمران ؓ نے اپنے اپنے رب سے سوال کیا کہ ان کو ایک ایسا گوشت کھلائیں جس میں خون نہ ہو۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ٹڈی کھلائی۔ پھر انہوں نے کہا اے اللہ اس کو زندہ رکھ بغیر دودھ کے اور ان کے درمیان بغیر اشتراک کے موافقت رکھو۔ امام ذہبی (رح) نے فرمایا کہ اس روایت کی سند پہلی کی نسبت الطف ہے۔ (14) امام بیہقی نے سنن میں زینب ربیبہ رسول اللہ ﷺ سے روایت نقل کی ہے کہ نبیوں میں سے ایک نبی نے اللہ تعالیٰ سے ایسے پرندے کے گوشت کا سوال کیا جسے ذبح کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو مچھلیاں اور ٹڈی عطا فرمائی۔ (15) امام ابو داؤد، ابن ماجہ، ابو الشیخ نے عظمۃ میں طبرانی، ابن مردویہ اور بیہقی نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے ٹڈی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا لشکر ہے۔ نہ میں اس کو کھاتا ہوں اور نہ اس کو حرام کرتا ہوں۔ (16) امام ابوبکر الطرقی نے معرفۃ الصحابہ میں طبرانی، ابو الشیخ نے عظمۃ میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابو زبیر نمیری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ٹڈی کے ساتھ نہ لڑو کیونکہ اللہ کے لشکروں میں سے بڑا لشکر ہے۔ بیہقی (رح) نے فرمایا یہ اگر صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ (ٹڈی) کھیتوں کو خراب اور برباد کرنے کے لئے تعرض نہ کرے جب وہ تعرض کرے تو پھر ہر طریقے سے دفاع کرنا جائز ہے۔ چاہے وہ قتال ہو یا قتل ہو۔ (17) امام بیہقی نے فضیل بن عیاض کے طریق سے مغیرہ بن ابراہیم سے روایت کیا اور انہوں نے عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک ٹڈی رسول اللہ ﷺ کے سامنے واقع ہوگئی صحابہ نے پوچھا کیا ہم اس کو قتل کردیں یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا جس شخص نے ٹڈی کو قتل کیا گویا اس نے خون نہا والی چیز کو قتل کیا۔ بیہقی نے فرمایا یہ حدیث ضعیف ہے اس کے بعض راوی مجہول ہیں۔ اور ابراہیم اور ابن مسعود کے درمیان انقطاع ہے۔ (18) ام حاکم نے تاریخ میں اور بیہقی نے ایسی سند کے ساتھ جس میں ایک شخص مجہول ہے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک ٹڈی رسول اللہ ﷺ کے سامنے واقع ہوگئی۔ آپ نے اس کو اٹھایا تو اس کے پر میں عبرانی زبان میں لکھا ہوا تھا : لا یعنی جنینی ولا یشبع اکلی نحن جند اللہ الا اکبر لناسع وتسعون بیضۃ ولو تمت لنا الماہ لا کلنا الدنیا بما فیہا (میرا جنین گرتا نہیں مجھے کھانے والا سیر نہیں ہوتا ہم اللہ کا بڑا لشکر ہیں ہمارے ننانوے انڈے ہوتے ہیں اگر سو مکمل ہوجاتے تو ہم دنیا کی ہر چیز کو کھا جاتیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا اے اللہ ٹڈی کو ہلاک کر دے اس کے بڑوں کو قتل کر دے اور اس کے چھوٹوں کو موت دیدے اور اس کے انڈوں کو خراب کر دے۔ اور اس کے مونہوں کو مسلمانوں کی کھیتیوں اور ان کی معیشت سے بند کر دے۔ بلاشبہ آپ ہی دعا کو سننے والے ہیں جبرئیل تشریف لائے اور فرمایا آپ کی دعا کو قبول کرلیا گیا بعض (حالات) میں بیہقی نے کہا یہ حدیث منکر ہے۔ ٹڈی کے پروں پر کلمۂ توحید (19) امام طبرانی، اسماعیل بن عبد الغافر الفارسی نے الازبعین میں اور بیہقی نے حسین بن علی ؓ سے روایت کیا کہ ہم دسترخوان پر تھے میرا بھائی محمد بن الحنیفہ میرے چچا کے لڑکے عبد اللہ بن عباس قثم فضل ؓ پر ایک ٹڈی واقع ہوئی تو اس کو عبد اللہ بن عباس (رح) نے اٹھا لیا اور حسین کو فرمایا تو جانتا ہے کہ ٹڈی کے پر یہ کیا لکھا ہوا ہے انہوں نے فرمایا میں نے اپنے باپ سے سوال کیا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا۔ تو آپ نے مجھ سے فرمایا ٹڈی کے پر پہ لکھا ہوا ہے : بلاشبہ میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں میں ہی ٹڈی کا رب ہوں اور اس کا رازق ہوں جب میں چاہتا ہوں تو اس کو بھیج دیتا ہوں قوم کے لئے رزق بنا کر اور اگر چاہتا ہوں تو قوم پر مصیبت بنا کر بھیجتا ہوں۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا یہ بات اللہ کی قسم چھپے ہوئے علم میں سے ہے۔ (20) امام ابو نعیم نے حلیۃ میں عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ مجھ سے ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ٹڈی کے پر پہ سریانی زبان میں لکھا ہوا ہے۔ بلاشبہ میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں اکیلا ہوں میرا کوئی شریک نہیں ٹڈی میرے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے۔ میں اس کو مسلط کرتا ہوں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہوں۔ (21) امام ابو الشیخ نے عظمۃ میں سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا فرمایا تو اس کی بچی ہوئی مٹی میں سے ٹڈی کو پیدا فرمایا۔ (22) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ” الطوفان “ سے مراد ہے بارش ” والجراد “ سے مراد ہے ٹڈی ” والقمل “ سے مراد ہے وہ کیڑا جو گیہوں میں ہوتا ہے۔ (23) امام ابن ابی حاتم نے ابو صخر (رح) سے روایت کیا کہ ” والقمل “ سے مراد وہ ٹڈی ہے جو اڑ نہیں سکتی۔ (24) امام ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ” والقمل “ سے وہی چیچڑی مراد ہے۔ (25) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن زید ؓ سے روایت کیا کہ بعض لوگ قمل کے بارے میں یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ پسو ہے۔ (26) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حبیب بن ابی ثابت (رح) سے روایت کیا کہ ” والقمل “ سے مراد جوئیں ہیں۔ (27) امام طستی نے ابن عباس سے روایت کیا کہ نافع بن ارزق (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ مجھ کو اللہ تعالیٰ کے اس قول ” القمل والضفادع “ کے بارے میں بتائیے فرمایا ” والقمل “ سے مراد ہے کیڑا اور ” والضفادع “ سے مینڈک مراد ہے۔ پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے ابو سفیان بن الحارث بن عبد المطلب کو نہیں سنا وہ فرماتے ہیں۔ یبادرون النحل من انھا کانھم فی الشرف القمل ترجمہ : وہ شہد کی مکھیوں کی طرف تیزی سے بڑھتے ہیں۔ جبکہ اصلیت میں یہ لوگ القمل (رینگنے والا کیڑا) ہیں۔ (28) امام ابو الشیخ نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ” القمل “ سے مراد ہے جنادب (ایک قسم کی ٹڈیاں) جو کہ ٹڈی کی بیٹیاں ہیں۔ (29) امام ابو الشیخ نے عفیف (رح) سے روایت کیا کہ وہ اہل شام میں سے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ ” القمل “ سے مراد ہے پسو۔ (30) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مینڈک خشکی پر رہتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کو آل فرعون پر بھیجا اور اس نے (حکم کو) سنا اور اطاعت کی اور اس نے اپنے آپ کو جوش مارتی ہوئی ہانڈی میں ڈال دیا۔ اور کبھی تنوروں میں کود جاتی۔ جب وہ آگ سے بھڑک رہے ہوتے تھے تو اس اچھی اطاعت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو پانی کی ٹھنڈی عطا فرمائی۔ (31) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ فرعون والوں پر مینڈک کے سوا کوئی چیز اذیت ناک نہ تھی۔ وہ جوش مارتی ہوں ہانڈیوں میں آتے تھے اور اپنے آپ کو اس میں ڈال دیتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے جزا کے طور پر پانی اور مٹی کی ٹھنڈک اس کو عطا فرما دی قیامت کے دن تک۔ (32) امام ابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن عمرو (رح) سے روایت کیا کہ مینڈکوں کو قتل نہ کرو کیونکہ جب ان کو فرعون والوں پر بھیجا گیا تو اس میں سے ایک مینڈک چلا اور آگ سے بھرے تنور میں گرگیا اس کے عوض اس نے اللہ کی رضا مندی کو طلب کیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو سب سے ٹھنڈی چیز کے ساتھ جزا دی کہ ہم اس کو پانی کہتے ہیں اور ان کے ٹرانے کو تسبیح بنا دیا۔ (33) امام احمد، ابو داؤد و نسائی نے عبد الرحمن بن عثمان تیمی ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک طبیب نے مینڈک کو دوا میں ڈالنے کا ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے مارنے سے منع فرما دیا۔ (34) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ دریائے نیل میں خون بہنے لگا کہ اسرائیلی صاف اور پاکیزہ پانی پیا کرتے تھے اور فرعون خون پیتا تھا اور وہ دونوں ایک ہی برتن میں شریک ہوتے تھے جو حصہ اسرائیلی سے ملتا تھا وہ صاف اور میٹھا پانی ہوتا تھا۔ اور جو حصہ فرعونی سے ملتا تھا وہ خون ہوتا تھا۔ (35) امام عبد بن حمید، ابن منڈر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں پر خون کو بھیجا۔ وہ اپنے پنانی سے چلو بھرتے تھے تو وہ سرخ خون ہوتا تھا یہاں تک کہ ہمارے لئے یہ ذکر کیا گیا کہ فرعون ایک ہی برتن پر دو آدمیوں کو جمع کرتا تھا ایک قبطی اور ایک اسرائیلی کو جو حصہ اسرائیلی سے ملا ہوتا وہ پانی ہوتا اور جو فرعونی سے ملا ہوتا وہ خون ہوتا۔ (36) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ ” والدم “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر نکسیر کو مسلط کردیا تھا۔ عذاب سہنے کے باوجود ایمان قبول نہیں کیا (37) امام احمد نے زہد میں ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے نوف شامی (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ جادوگروں پر غلبہ پانے کے بعد بیس برس تک فرعونیوں میں ٹھہرے رہے۔ ان کی نشانیاں دکھاتے رہے مثلا ٹڈی، چیچڑی، مینڈک اور خون مگر انہوں نے مسلمان ہونے سے انکار کردیا۔ (38) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ فرعون والوں میں جادوگروں کے مغلوب ہونے کے بعد چالیس سال ہے اور ان کو واضح نشانیاں دکھاتے تھے ٹڈی، چیچڑی اور مینڈک۔ (39) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” ایت مفصلت “ سے مراد ہے کہ یہ کھلے ہوئے معجزے تھے ان کا ظہور ایک دوسرے سے پیچھے ہوا تاکہ اللہ کی جانب سے ان پر حجت تمام ہوجائے۔ (40) امام ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” ایت مفصلت “ سے مراد ہے کہ نشانیاں بعض بعض کے پیچھے آتی تھیں۔ اس میں ایک ہفتے سے دوسرے ہفتے تک رہتی تھیں۔ مہینے بھر کے لئے ان سے اٹھالی جاتی تھیں۔ (41) امام ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ان نشانیوں میں سے ہر دو نشانیوں کے درمیان تیس دن کا وقفہ ہوتا تھا۔ (42) امام ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم سے روایت کیا کہ یہ نو سال میں ظاہر ہوئیں۔ ایک سال میں ایک ایک نشانی ظاہر ہوئی۔
Top